13

مسلمانوں کے خلاف کفار کا طرز عمل (قسط 2 )

  • News cod : 23319
  • 09 اکتبر 2021 - 15:41
مسلمانوں کے خلاف کفار کا طرز عمل (قسط 2 )
(۳)علماء سے دوری اور ان کی توہین تیسری چیز علماء سے رابطہ کو کمزور کردیا جائے اور دوسرا علماء کی مٹی پلید کردی جائے۔علماء کی اتنی توہین کی جائے کہ ان کا نا م ونشان تک نہ رہے ۔ انگریزاپنے زمانے میں بھی یہی کرتا رہا ،جن لوگوں کو انگریز کمین کہتا تھا ۔

مسلمانوں کے خلاف کفار کا طرز عمل (قسط 2 )

آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی

(۳)علماء سے دوری اور ان کی توہین

تیسری چیز علماء سے رابطہ کو کمزور کردیا جائے اور دوسرا علماء کی مٹی پلید کردی جائے۔علماء کی اتنی توہین کی جائے کہ ان کا نا م ونشان تک نہ رہے ۔ انگریزاپنے زمانے میں بھی یہی کرتا رہا ،جن لوگوں کو انگریز کمین کہتا تھا ۔

حالانکہ اسلام کمین اور غیر کمین کا قائل نہیں ان میں مولوی صاحبان کو بھی شامل کر لیا گیا ۔مولوی کا لفظ اتنا طاقتور ہے کہ مولوی سے اسلام کی طاقت وعظمت کا علم ہوتا ہے ۔ملاصدرا بہت بڑا فلسفی تھا انہوں نے فلسفہ لکھا ۔ملا مجلسی جنہوں نے بحارانوار لکھی۔آج اس کی ایک سو دس جلدیں موجود ہیں اس وقت سے لے کر موت تک شمار کی جائیں تو ہر روز کا (۵۴) چون صفحہ بنتا ہے۔

گویا (۵۴)چون صفحہ ہر روز لکھتے تھے ۔ حیران ہوتا ہے آدمی انہوں نے کس طرح یہ کتاب لکھی ۔ ان کو ملاں کہا جاتا تھا ۔ آج ملاں گالی بن گیا مولوی کونوکر بنا لیا گیا۔اس طرح نوکر ٹھیک ہے۔جی تنخواہ لے گا اپنی جگہ پر کام کرے گا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ مولویت کمزور ہوئی لوگوں نے عزت کرنا ختم کردی ، جب عزت ختم ہوئی تو رابطہ کمزور ہو گیا ۔ اب مولوی کی ضرورت تب ہے جب بچہ پیدا ہو کان میں اذان دلوانی ہے۔لہذا کسی مولوی کو خصوصاََ سید کو لے آئو تاکہ برکت زیادہ ہو نکا ح پڑھانا ہے مولوی کی ضرورت ہے کا ش لوگ سمجھدار ہو جاتے ،پڑھے لکھے لوگ خود ہی آٹھ صیغے یاد کر لیتے ۔صیغہ کے لئے تو مولوی کی ضرورت ہی نہیں رہتی ،زیادہ سے زیادہ نو صیغے نکاح میں پڑھے جاتے ہیں ۔

اصل تو دو ہی صیغہ ہوتے ہیں ، باقی تو پڑھے جاتے ہیں ،چلو وقت ہی گزر جائے ۔لوگ کہیں گے اتنا مختصر نکاح ،وگرنہ اصل تو دو ہی صیغے ہوتے ہیں آدمی خود ہی یاد کر لیتا ہے لیکن جب نکاح پڑھوانا ہو تو مولوی کو بلایا جائے ،جب کے کان میں اذان کہنی ہو تو مولوی کو بلا لیا جائے یا جس وقت جنازہ پڑھانا ہو ۔ یہ کام اس لئے کئے گئے تاکہ رابطہ کمزور ہو جنہوں نے دین بتلانا ہے ،ان کے پاس جائے بھی کوئی نہیں ، جن لوگوں نے اسلام بتانا ہے ان کے پاس کوئی نہ جائے ،جن لوگوں نے درس اخلاق دینا ہے ان کے درس میں کوئی شرکت ہی نہ کرے جن لوگوں نے بتانا ہے کہ اسلام کے حقائق کیا ہیں ؟ ان کے پاس بھی کوئی نہ جائے

پہلا کام یہ کیا گیا کہ قبائلی امتیازات کو ہوا دی گئی ۔دوسرا کا م کیا گیا یہ خواہش و منکرات کو پھیلایا گیا  تیسرا کام یہ کیا گیا کہ علماء کرام کو کمزور کیا ۔ ارتباط کمزور کیا گیا تاکہ رابطہ کمزور ہو جائے ۔علماء ہمارے ہاتھوں کی طرف دیکھتے رہیں ،جس وقت ہم جیب میں ہاتھ ڈالیں تقریر کرنے والامولوی یا ذاکر وہ پہلے سوچے کہ وہ میرے لیے پیسے نکال رہا ہے ۔یعنی ذہنیت اتنی پست کی جائے کہ وہ آدمی کی جیب اور ہاتھ کو دیکھ کر سمجھے کہ وہ میرے لیے پیسے نکال رہا ہے ۔اور جب عید ہو تو مولوی شمار کرتا ہے کہ میرے ہاتھ میں کتنے پیسے دئیے گئے ہیں اور ان کو جیب میں ڈالتا رہے اسی پر مولوی کو لگادیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رابطہ کمزور ہو گیا ۔یہ سمجھا نہیں گیا کہ مولوی باعزت قوم ہے ۔

یہ سمجھا ہی نہیں گیا یہ انتہائی عظیم قوم ہیں ۔یہ سمجھا ہی نہیں گیا کہ نماز میں مولوی جہاں قدم رکھتا ہے وہاں لوگوں کے سر ہوتے ہیں ۔نتیجہ یہ جب رابطہ کمزور ہو جائے گا اسلام بتانے والے کمزور ہو جائیں گے اسلام سننے والے اسلام ہی نہیں سنیں گے تو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ؟یہ سب کام کیے گئے تاکہ اسلام کمزور ہو ،تاکہ مسلمان کمزور ہو ، اسلام کو تقویت نہ ہو۔اسی لئے قرآن مجید کہتا ہے ۔

ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر ویا مرون  با لمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون(آل عمران ۱۰۴)

اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔دیکھو جتنا اسلام کی طرف بڑھو گے اتنا کامیاب ہو گے جتنا دور ہو گے اتنا یہ خسارے اور گھاٹے کی زندگی ہوگی۔

اسی صدی میں استعمار، عرب میں یہ کام کررہا تھا ان چیزوں کو رواج دیا جا رہا تھا لیکن عربوں کے علاوہ دوسری قوموں کو بھی استعمار نہیں بھولا سب سے بڑی خرابی ہم میں یہ ہے کہ ہم جب کام کاوقت آتا ہے اسی وقت کرتے ہیں پہلے نہیں سوچتے کہ کیا کرنا ہے جبکہ ان کے ہاں پچاس یا سو سال پہلے مستقبل کی سوچ بنائی جاتی ہے اور اس کے مطابق کا م کیا بتیجہ یہ ہے کہ وہ کا میا ب ہوئے ہیں اور ہم ہر وقت سوچتے ہیں ہاں یہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں کیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم پیچھے رہ جاتے ہیں ۔

آیت اﷲ العظمیٰ السید محسن الحکیم کا خطبہ حج

۱۹۶۶ء  میں آیت اﷲ العظمیٰ السید محسن الحکیم  حج کرنے کیلئے تشریف لے گئے انہوں نے چیدہ چیدہ مسلمانوں کو جمع کیا تقریباََ چھہتر ملکوں کے ساڑھے تین سو کے قریب افرادتھے ۔ایک جگہ جمع ہوئے اور اس وقت خطبہ دیا گیا اور اس خطبہ میں انہوں نے فرمایا :

استعمار تمہارے ارد گرد گھیرا ڈال رہا ہے اور خصوصاََ مسلمانوں کے علاوہ شیعیت کو تباہ کرنا چاہتا ہے ۔لہذا اگر تم چاہتے ہو کہ شیعیت برقرار رہے ،اسلام برقرار رہے ،ایمان برقرار رہے ،اس کے لئے دو کام کرو ۔ایک اپنے آپ کو علم سے مزین کرو ،جتنا علم زیادہ ہوگا اتنا ان لوگوں سے خطرہ کم ہو گا ۔دوسرا کام وحدت واتحاد پیدا کرو۔ا

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=23319