9

صبر و تحمّل کی صفت حضرت امام موسی ٰ کاظم کے نام کا حصہ بن گئی، آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی

  • News cod : 30281
  • 28 فوریه 2022 - 10:36
صبر و تحمّل کی صفت حضرت امام موسی ٰ کاظم کے نام کا حصہ بن گئی، آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی
کاظم“ یعنی غصہ پی جانے والا،آپ کا معروف لقب ہے۔غلام سے آپ کے لباس پر سالن گر گیا تو ناصرف اُسے غلطی کا احساس تک نہ دلایا اور معاف کردیا بلکہ جب اُس نے چند آیات تلاوت کیں تو اسے آزاد کر دیاجو اُس زمانے میں بہت بڑا احسان تھا۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، جانشین رسول سلسلہ امامت کے ساتویں تاجدار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا یومِ شہادت عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ مساجد، مدارس ، امام بارگاہوں اور گھروں میں مجالس عزا کاا نعقاد کیا گیا۔وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جانشین رسول سلسلہ امامت کے ساتویں تاجدار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے یومِ شہادت کے موقع پر جامعہ المنتظرماڈل ٹاﺅن میں مجلس عزاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معصوم ہونے کی بنا پر اگرچہ اس امام کی بہت سی صفات ہیں لیکن صبر و تحمّل وہ نمایاں صفت تھی جو آپ کے نام کا حصہ بن گئی۔” کاظم“ یعنی غصہ پی جانے والا،آپ کا معروف لقب ہے۔غلام سے آپ کے لباس پر سالن گر گیا تو ناصرف اُسے غلطی کا احساس تک نہ دلایا اور معاف کردیا بلکہ جب اُس نے چند آیات تلاوت کیں تو اسے آزاد کر دیاجو اُس زمانے میں بہت بڑا احسان تھا۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ کے والدِ بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مدینہ میں جس بین الاقوامی درس گاہ کی بنیا د رکھی تھی ،اُس میں آپ نے بھی والد سے استفادہ کیا۔ اس درسگاہ میں ہندوستان، سندھ،یورپ،افریقہ سمیت دنیا بھر سے تشنگان علوم آتے تھے جن میں فقط مسلمان ہی نہیں،ملحد،زندیق ودیگر ادیان کے ماننے والے بھی شامل تھے۔فقہ حنفیہ کے بانی حضرت امام ابو حنیفہ اور فقہ مالکی کے بانی امام مالک بھی اسی علمی د دینی مرکز سے علمی پیاس بجھاتے رہے۔

انہی ایام میں امام موسیٰ کاظمؑ سے بچپنے کے عالَم میں امام ابو حنیفہ نے بیت الخلاءکے آداب کے بارے سوال کیا تو ا مام نے چند الفاظ پر مشتمل جواب میں فرمایا: دریا کے کنارے،پھلدار اور سایہ دار درختوں کے نیچے،مسجد یا اس اہمیت کے عوامی مقامات کے قریب رفعِ حاجت کے لئے نہ بیٹھے۔قبلہ کی طرف منہ یا پُشت کر کے بھی نہ بیٹھے۔اُس زمانے میں انسان کے فاعلِ مختار یا مجبور ہونے کے عقیدہ کی بحث زوروں پر تھی۔کسی نے امام موسیٰ کاظم ؑسے پوچھا گناہ کون کرتا ہے؟یعنی خود انسان یا نعوذ باللہ اللہ کرواتا ہے۔ امام نے فرمایا تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔خدا کرواتا ہے یا خدا اور بندہ مل کر کرتے ہیں یا فقط بندہ۔ اگر خدا کرواتا ہے تو یہ اس کے عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ بندے کو سزا دے۔ اگر اللہ خود اس میں شریک ہو تب بھی درست نہیں کہ خود شریک ہو کر خود ہی بندے کو سزا دے۔پس گناہ بندہ کا ذاتی فعل ہے۔قرآن مجید بھی اس جواب کی تائید کرتا ہے کہ برائی تمہاری طرف سے ہے، اچھائی اور نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔وسیع سلطنت کا مالک ہارون الرشید مدینہ آیا اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے رسول اکرم کے روضہءمبارکہ پر آپ کو ” چچا جان“کہہ کر سلام کیاتوامام موسیٰ کاظم نے اپنے جدِّ بزرگوار کو ” بابا“ کہہ کر سلام کیا جو ہارون کو ناگوار گزرا اور اس رشتہ کا قرآن سے ثبوت مانگا۔ امام نے سورہ الانعام کی آیت پڑھی جس میں 17انبیاءکا ذکر تھا اور جناب عیسیٰؑ کو جناب ابراہیمؑ کی ذریت میں سے قرا ر دیا گیا تھا۔امام موسیٰ کاظمؑ نے ہارون سے کہا حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم کے مابین سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے ،اگر وہ ان کی ذریت سے ہیں توہمارا تو پیغمبر اکرم سے کوئی زیادہ فاصلہ بھی نہیں اور اُن کی اکلوتی بیٹی سے ہیں۔انہی فضیلتوں اور عوامی رابطہ کو یہ بادشاہ برداشت نہ کر سکا اور امام کو مدینہ سے جلا وطن کر کے بغداد میں کنویں نما قید خانے میں قید کر دیاگیا۔بالآخر ہارون نے اپنے خصوصی ایلچی کے ذریعہ زہر بجھے انگور کھلا کر آپ کو شہید کیا۔بوقت شہادت پاﺅں میں زنجیر تھے۔وہ مسلمان جنہیں حضورکی زحمات اور علیؑ کی تلوار کے صدقے اچھا کھانا نصیب ہوا،انہیں حضور کے جنازے میں شرکت کی فرصت بھی نہ ملی،ان کی اکلوتی بیٹی کو باپ پر رونے کی اجازت نہ دی، ان کے جنازے میں فقط 6افراد شریک ہوئے،ان کے بیٹے حسن ؑکے جنازے پر تیر برسائے گئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=30281