11

سیدمحمد باقر الصدرؒ کی بابرکت زندگی اورخدمات

  • News cod : 32721
  • 09 آوریل 2022 - 11:08
سیدمحمد باقر الصدرؒ کی بابرکت زندگی اورخدمات
امام خمینیؒ شھید صدر کو ایک بلند علمی شخصیت سمجھتے تھے، امام خمینی شھید کی فکری صلاحیتوں کا اکثر اعتراف کیا کرتے تھے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان گہرا رشتہ تھا۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اور اس پہلے بھی شھید کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

بتول حسین نگری

حق اور باطل کے درمیان ہمیشہ سے معرکہ آرائی جاری ہے، جو اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک حق کا آخری نمائندہ اور وارث زمانہ تشریف نہیں لے آتے اور باطل اور اس کے فتنوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ نہیں کر دیتے۔ ان کے آنے سے پہلے یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے کی رسم اور روایت باقی رہے گی۔ باطل کے سامنے ٹکرانے والے اور اس کا راستہ روکنے والے یقیناً ان کے نمائندے اور ناصران کہلائیں گے۔ یہ الگ بات کہ بعض ایسے فاسد عقیدہ کے لوگ بھی موجود ہیں، جو آپ کی آمد اور ظہور سے پہلے کسی بھی قسم کے قیام اور خروج کو باطل اور حرام سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونا امام کے مقاصد سے انحراف ہے، مگر ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔ اس لئے کہ ظلم اس قدر واضح اور آشکار ہو رہا ہے کہ ہر ایک کو اس سے نفرت اور اس کے خلاف قیام اور سینہ سپر ہونے کی سوچ پختہ ہو رہی ہے، اسی وجہ سے آج ہر سو اس قیام اور خروج کے داعی باطل کا سامنے کرنے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
آپ خود سوچیں کہ اگر باطل کے سامنے ٹکرانے کی رسم جو کربلائی راستہ ہے نہ ہوتی تو آج باطل کے طرفداروں اور نمائندوں نے عراق، شام اور دیگر مقدس مقامات پر قبضے کی جو روش اختیار کی تھی، اس کا نفاذ تقریباً پورے مشرق وسطٰی میں ہوچکا ہوتا اور کروڑوں لوگوں کیساتھ ہمارے مقدسات نیست و نابود ہوچکے ہوتے۔
اس صدی میں اس کا سہرا انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی کو جاتا ہے، جنہوں نے تاریخ کا یہ فراموش شدہ سبق ہم سب کو یاد کروایا اور بتایا کہ کیسے قیام کرنا ہے، کیسے باطل سے ٹکرانا ہے، کیسے اس کا مقابلہ کرنا ہے، کیسے اسے شکست سے دوچار کرنا ہے۔ صرف ایران تک محدود نہیں رہی بلکہ ان کی یہ سوچ اور نظریہ تمام عالم اسلام میں راسخ ہوا، بالخصوص مکتب تشیع کے حقیقی پیروان علماء و مجتہدین نے اسے اپنے اپنے علاقوں اور ممالک میں روبہ عمل لانے کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔
آیۃ اللہ شہید باقر الصدر کی حیات مبارکہ کے بارے جاننا چاہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ بغداد کے علاقے قدیمیہ (کاظمین) میں یکم مارچ 1935ء بمطابق25 ذیقعد 1353ھ کو پیدا ہوئے۔ ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپ کے والد معروف مذہبی اسکالر سید حیدر الصدر انتقال فرما گئے، جو معروف علماء میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ سید اسماعیل صدر اپنے زمانے کے معروف و مشہور فقہا میں سے تھے۔ صدر خاندان کے بارے یہ معلومات ملی ہیں کہ یہ بنیادی طور پر لبنان سے آکر آباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک چشم و چراغ لبنانی شیعوں کے قائد موسٰی صدر لیبیا کے سفر کے دوران غائب ہوگئے تھے، جو آج تک گم شدہ ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شخصیت نے اہل لبنان کی قسمت بدل دی اور انہیں دنیا کی معزز و مکرم ترین اقوام میں لا کھڑا کیا، دنیا آج حزب اللہ اور امل کے نام سے ڈرتی ہے اور ان کے حقوق کوئی پامال نہیں کرسکتا۔
آیت اللہ العظمٰی سید باقر الصدر کا شمار بلاشبہ گذشتہ صدی کے عظیم فلسفیوں، مذہبی اسکالرز اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوموں و محروموں کو نہ صرف متاثر کیا اور حرارت دی، بلکہ آپ نے ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے زیادہ تر اہل تشیع اور پھر اہل سنت تھے، کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرونے اور باہمی اختلافات اور کدورتوں کو ختم کرنے کیلئے موثر آواز بلند کی اور اہم مواقع پر ایسے پیغامات دیئے کہ شیعہ و سنی ملکر استعمار اور اس کے زر خریدوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے نہ صرف حکمرانوں کو للکارا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ یہ شہید باقر الصدر ہی تھے، جنہوں نے 1957ء میں عراق کی معروف اسلامی دعوہ پارٹی کی بنیاد رکھی-
شہید باقر الصدر نے حزب الدعوہ کی بنیاد رکھی، تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت و کمیونزم کے فروغ کو روکا جاسکے اور اسلامی افکار کا احیا کیا جاسکے، ان کے نظریات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ خشک متقی اور جبہ و دستار والے تھے، جو سیاسی جدوجہد کو غلط سمجھتے تھے اور ان کے پاس ایسے سیاسی و باعمل روشن فکر علماء کیلئے دین سے انحراف کے فتوے صادر کرنا بہت آسان حربہ تھا۔ یہ قدامت پسند علماء شہید صدر کی سیاسی فکر اور جدوجہد کی راہ میں بھی ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔ دراصل ان کو حکمران بعثی ٹولہ استعمال کرتا تھا، ان کا رابطہ اخوان المسلمون کی شاخ حزب تحریر سے بھی تھا، جو عراق میں سیاسی جدوجہد کر رہی تھی۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں ہی شہید باقر الصدر اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دہشت گرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپ نے اپنی دینی اور تعلیمی سر گرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
بنیادی طور پر یہی وہ سیاسی جماعت اور منظم گروہ تھا، جس نے عراق میں بعد ازاں صدام کے ظالمانہ دور میں مظلوم شیعوں کے حقوق کے لئے پیہم اور مسلسل جدوجہد کی۔ آپ کو امام خمینی کی ذات سے اس قدر عشق تھا کہ اس کی خاطر ہر قسم کا خطرہ مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور ان کی شہادت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب امام خمینی کو عراق کی بعثی حکومت نے عراق بدر کیا تو اس وقت پولیس کے سخت پہرے اور گھیراؤ کے باوجود آپ امام خمینی کے گھر گئے اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ ان کا جرم بن گیا، جسے گرفتاری کے بعد باقاعدہ ان کے سامنے دہرایا گیا
شھید باقر الصدر امام خمینیؒ سے خاص لگاو رکھتے تھے
تقریب خبر رساں ایجنسی کے مطابق حجت الاسلام و المسلمین محمد حسین مختاری نے شہید باقر الصدر کی شہادت کے موقع پر شہید کی عالم اسلام کے لیے کی جانے والی کوششوں سے متعلق تقریب کے خبرنگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ” شھید صدر کی شخصیت کو چند پہلووں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ شہید صدرؒ صرف ایک شخص نہیں تھے بلکہ وہ مکتب تشیع کا حقیقی چہرہ تھے جنہوں نے مکتب اہلیبیت علیھم السلام کی مکمل نمائندگی کی۔ وہ در حقیقت اپنے وجود میں ایک امت تھے۔ عراق کی صدام بعثی حکومت نے ان کو شھید نہیں کیا بلکہ ایک امت کو شھید کیا ہے۔ شھید کی چند خصوصیات تھی جنہوں نے شھید صدر کو اعلی مقام تک پہچایا جن میں ۔ عزت نفس ۔ عشق اہلیبیت علیھم السلام، انکساری، علمی مقام اور شھید کا انقلاب اسلامی کی خدمت کرنا، یہ تمام خصوصیات نے شھید باقر صدر کو اعلی مقام بخشا۔
امام خمینیؒ شھید صدر کو ایک بلند علمی شخصیت سمجھتے تھے، امام خمینی شھید کی فکری صلاحیتوں کا اکثر اعتراف کیا کرتے تھے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان گہرا رشتہ تھا۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اور اس پہلے بھی شھید کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
شہید صدر بھی امام خمینی کے خاص پیرو تھے اور ان کی تعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ قراردیا کرتے تھے۔ شھید نے انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں اپنے شاگردوں کو ایک خط لکھا’ آپ سب پر لازم ہے کہ اپنے صلاحیتوں کو انقلاب اسلامی کی خدمت اور امام خمینی کی اطاعت میں صرف کریں تاکہ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوسکے”۔ میں بذات خود راضی ہوں اگر امام خمینی مجھ کو حکم دیں کہ ایران کسی گاؤں میں جاکر اسلام کی خدمت کرو تو میرے بغیر کسی تردید کے عمل کروں گاَ .
شہید صدر نے مختلف موضوعات پر متعدد علمی کتابیں تألیف کی ہیں متعدد موضوعات پر آپ کی قلم فرسائی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مختلف سماجی، دینی، سیاسی، اقتصادی اور فلسفی میدانوں میں وسیع النظر اور صاحب رائے تہے ۔ آپ نے ان تمام موضوعات پر گرانقدر کتابیں تألیف کی ہیں کہ جن میں درج ذیل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔اقتصادنا ۔(یعنی ہماری اسلامی معاشیات) اس کتاب میں شہید نے واضح کر دیا کہ اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہے جو دنیا کے مادی نظاموں سوشلزم،سرمایہ دارانہ نظاموں اور کمیونزم سے لاکہوں درجہ بہتر اور قابل عمل ہے۔
۲۔الاسس المنطقیۃ للاستقراء(یہ کتاب متعدد مرتبہ چھپنے کے علاوہ فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے جس کا فارسی نام ” مبانی منطقی استقراء ‘‘ہے اور مترجم جناب سید احمد فھری ہیں۔
۳۔ الاسلام یقود الحیاۃ۔اس مجموعہ کے کل چھ جزء ہیں جو سن ۱۳۹۹ھ میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مناسبت سے ایران میں چھپ چکی ہیں اس کے چھ جز ہیں۔
۴۔ البنک الربوی فی الاسلام۔
۵۔بحوث فی شرح العروۃ الوثقی۳۔
،5 اپریل 1980ء کو بعث پارٹی کی طرف سے ان کی آخری گرفتاری سے پہلے اپنے گھر والوں سے رخصت ہونے کا غمگین واقعہ ..
(۸ اپریل ۲۰۱۷)شہید آیت ا … العظمیٰ سید محمد باقر صدر (رح) کی برسی کی مناسبت سے:”پہلی اور آخری رخصت”۵، اپریل ۱۹۸۰ء بروز ہفتہ، دوپہر اڑھائی بجے پورے نجف کی حفاظت کے ادارے کا رئیس اپنے معاون “ابو شیما” کے ساتھ شہید صدر (رح) کے گھر پہنچا اور انہیں پیغام پہنچایا: “(بعث) پارٹی کے عہدیدار چاہتے ہیں ، آپ سے بغداد میں ملاقات کریں۔”شہید صدر (رح): اگر تمہیں مجھے گرفتار کرنے کا حکم ملا ہے تو ٹھیک ہے، تم جہاں چاہو گے میں چلونگا۔ رئیس: جی ہاں، مجھے آپکو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شہید صدر (رح): کچھ دیر میرا انتظار کرو، میں غسل (شہادت) کرلوں، کپڑے بدل لوں اور اپنے گھر والوں سے رخصت لے لوں۔ رئیس: ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آج یا کل ہی واپس آجاؤ گے۔شہید صدر (رح): میرے بچوں اور گھر والوں سے رخصت ہونے سے کیا تمہیں کوئی نقصان ہوگا؟رئیس: نہیں، لیکن ضروری نہیں ہے۔ جو کرنا ہے کرلو۔شہید صدر (رح) نے غسل شہادت کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور کپڑے بدلے۔ اپنی حیران پریشان والدہ کے پاس گئے۔ ان کے ہاتھ کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ اس کے بعد ایک ایک بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ ان کے ان کاموں سے تمام بچے سمجھ گئے کہ وہ اپنے والد کو آخری بار الوداع کر رہے ہیں۔ وہ جب اپنی پندرہ سالہ بیٹی سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کی بیٹی برداشت نہیں کرسکی اور منہ پھیر کر دیوار پر سر کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ شہید صدر نے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور کہا:
”میری پیاری بیٹی! ہر انسان کو موت آنی ہے۔ موت کسی بھی وجہ سے آسکتی ہے۔ ممکن ہے انسان کسی بیماری کی وجہ یا سوتے ہوئے یا کسی اور وجہ سے مرجائے لیکن خدا کی راہ میں مرجانا بہت ہی اچھا اور شرف کا باعث ہے۔ میں اگر صدام اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں نہ مارا جاؤں، تو کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے مر جاؤنگا۔ حضرت عیسی ؑ کے اصحاب کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے لکڑی کی صلیب پہ میخوں سے آویزاں کر دیا گیا لیکن انہوں نے اطاعت اور بندگی کی راہ میں استقامت کی۔ میری پیاری بیٹی! پریشان نہ ہو، ہم سب آج یا کل مر ہی جائیں گے۔ با شرف ترین موت، ‘شہادت’ ہے۔ میری پیاری بیٹی! میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میں اس کے لئے راضی ہوں۔”۔۔۔
اس کے بعد اپنی اہلیہ سے رخصت لینے کی باری آئی وہ ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہیں غور سے دیکھنے لگے ۔۔۔ اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا:
“موسیٰ کی بہن! کل تمہارے بھائی کی باری تھی اور آج تمہارے ہمنشیں، شریک اور دوست کی باری ہے۔ آج میری باری ہے۔ میری جنت! تمہیں خدا کے حوالے کیا۔ صبر کرنا۔ ہم نے خدا کی بیعت کی ہے اور اس بیعت کو توڑا نہیں جاسکتا، ہم نے (خود کو) خدا کی رضا کے لئے فروخت کردیا ہے۔ اور خداوند سبحان نے (ہمیں) خرید لیا ہے۔ اے اپنے وطن اور گھر والوں سے دور! تمہاری ذمے داری سنگین ہے اور گھر والوں کی ذمے داری تمہارے کندھوں پر ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں جا رہا ہوں، قیامت میں ملیں گے ۔۔ ۔ تین دن میرا انتظار کرنا، اگر واپس نہ آؤں تو میری والدہ اور بچوں کو لے کے “کاظمین” میں میرے بھائی سید اسماعیل کے گھر چلی جانا‘‘۔
“شہید صدر نے اپنی تمام گرفتاریوں میں صرف اسی دفعہ اپنے گھر والوں سے رخصت لی آخرکار انہیں 9 اپریل 1980 مطابق 23 جمادی الاول 1400ھ میں شہید کردیا گیا…

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=32721

ٹیگز