10

امت مسلمہ پر یہ اللہ کا احسان ہے کہ حضرت علی کو جانشین پیغمبر بنایا، رہبر معظم

  • News cod : 36192
  • 17 جولای 2022 - 14:19
امت مسلمہ پر یہ اللہ کا احسان ہے کہ حضرت علی کو جانشین پیغمبر بنایا، رہبر معظم
امت اسلامی، اسلامی معاشرے اور خاص طور پر شیعہ سماج کے عمل کی بنیادیں یہی ہیں جو ان کی فتح اور کفار کی مایوسی کا سبب اور ہماری قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عید غدیر اور امیر المومنین علیہ السلام کو امت اسلامی کے ولی امر اور جانشین پیغمبر کے طور پر پیش کرنا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت تھی۔ یعنی جس طرح خود نبوت و رسالت اللہ کا بڑا احسان اور بہت بڑی نعمت ہے؛ «لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُؤمِنینَ اِذ بَعَثَ فیهِم رَسولًا مِن اَنفُسِهِم» (سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۶۴ کا ایک حصہ؛ «یقینا اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ ان کے درمیان سے ایک پیغمبر مبعوث کیا۔…») امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ وہ بہت بڑی نعمت اور اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ «خَلَقَکُمُ‌ اللهُ‌ اَنوَاراً فَجَعَلَکُم بِعَرشِهِ مُحدِقینَ حَتّى مَنَّ اللهُ عَلَینا بِکُم فَجَعَلَکُم فی بُیُوتٍ اَذِنَ اللهُ اَن تُرفَع‌» الی آخرہ؛ (من‌لا یحضره‌الفقیه، جلد ۲، صفحہ ۶١٣ (قدرے تفاوت کے ساتھ، زیارت جامعه‌ کبیره، “اللہ نے آپ کو نور خلق کیا اور اپنے عرش کے چاروں سمت آپ کو قرار دیا۔ اللہ نے آپ کے ذریعے ہم پر احسان کیا اور آپ کو ان گھروں میں قرار دیا جن کا خاص احترام کرنے کی اللہ نے اجازت دی ہے۔”) واقعی یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ امیر المومنین کی ولایت اور اس ولایت کا پورا موضوع قرآن میں ایک جگہ سورہ مائدہ میں کفار کی مایوسی کا سبب قرار دیا گيا ہے؛ اَلیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم، (آج کفار آپ کے دین (کو مٹانے) کی طرف سے مایوس ہو گئے۔) جس دن ولایت کا موضوع سامنے آیا وہ ایسا دن ہے جو قرآن کے صریحی بیان کے مطابق «یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم» کفار کی مایوسی کی وجہ بنا ہے۔ علامہ طباطبائی اس سلسلے میں بڑی اچھی تشریح پیش کرتے ہیں تفسیر المیزان میں کہ یہ مایوسی کیسی تھی، اس مایوسی کی منطقی وجہ کیا تھی۔ اسی سورے میں ایک جگہ اور بھی یہ آیہ مبارکہ ہے؛ «وَمَن یَتَوَلَّ اللهَ وَ رَسولَه وَ الَّذینَ ءامَنوا فَاِنَّ حِزبَ اللهِ هُمُ الغّْلِبون» (اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان لانے والوں سے محبت کرتا ہے، بے شک اللہ کے لشکر کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔) یہاں پر اس آیت میں اس فقرے «الَّذینَ ءامَنوا» سے مراد، اسی طرح اس سے قبل والی آیت میں جو «وَهُم راکِعون» ہے، آیت رکوع کہ جو کہتی ہے کہ حالت رکوع میں انفاق کرتے ہیں، اس سے مراد حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام ہیں۔ «ءامَنوا» یہ لفظ اس آیت میں اسی جانب اشارہ ہے، یعنی وہ آیت جو «اِنَّما وَلِیُّکُمُ الله» کے بعد ہے۔ اس کے بعد یہاں پر «حِزبَ الله» کو، جو وہ لوگ ہیں جو اس ایمان کے مالک اور اس راہ پر چلنے والے ہیں، «غالبون» قرار دیا گيا ہے۔ یعنی ایک جگہ کفار کی مایوسی کا معاملہ ہے اور ایک جگہ پر اہل حق کے غلبے اور فتح کی بات کہی گئی ہے۔ امت اسلامی، اسلامی معاشرے اور خاص طور پر شیعہ سماج کے عمل کی بنیادیں یہی ہیں جو ان کی فتح اور کفار کی مایوسی کا سبب اور ہماری قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔
اسلامی حکومت اور اسلامی مملکت کی حیثیت سے ہمیں جس چیز کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ علوی حکومت کو معیار قرار دیں۔ خود کو علوی حکومت کے معیار پر پرکھیں۔ اس حکومت اور ہمارے اندر جتنا فاصلہ ہے اسے ہم اپنی پسماندگی شمار کریں۔ اگر ہم اچھے کام انجام دیتے ہیں، اگر روحانی اعتبار سے ہمیں کوئی ارتقا ملتا ہے، یا ایسے کام کرتے ہیں جو اسلامی اقدار کے مطابق باعث افتخار ہیں تو اس کی اہمیت کے اعتبار سے ہمیں چاہئے کہ حکومت علوی کے معیار پر اسے پرکھیں اور دیکھیں کہ ہمارے درمیان اور اس علوی حکومت کے طرز عمل کے درمیان کتنا فرق ہے۔ علوی حکومت میں ایک بنیادی معیار ہے عدل و انصاف، ایک معیار ہے پارسائی، پاکدامنی، ایک معیار ہے عوام دوستی، عوام کی ہمراہی۔ علوی حکومت کے یہی تو صفات ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی عدل و انصاف کا آئینہ ہے، زہد کا آئینہ ہے، عوام دوستی کا آئینہ ہے، پاکیزہ زندگی کا آئینہ ہے۔ ان چیزوں کو ہمیں معیار بنانا چاہئے۔ واقعی ہمیں اس سمت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم امیر المومنین جیسے بن جائیں کیونکہ یہ ناممکن ہے۔ لیکن ہم اس بلند چوٹی کو اپنی ںظر میں رکھیں اور اسی سمت آگے بڑھیں۔ اب اگر کوئی شخص اس چوٹی تک نہیں پہنچ سکا تب بھی اس کی پیش قدمی تو اسی سمت میں ہوگی۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ واقعی اسلامی حکومت میں ہم جیسے افراد جو اس کا حصہ ہیں تو ہمارا فریضہ یہ ہے کہ انصاف کی فکر میں رہیں، زہد کی فکر میں رہیں، پارسائی کی فکر میں رہیں، عوام کی مدد کی فکر میں رہیں، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی فکر میں رہیں۔ ہماری سمت اور رجحان یہی ہونا چاہئے۔ ان شاء اللہ یہ عید آپ کے لئے اور آپ کے اہل خانہ کے لئے باعث برکت اور مبارک ہوگی۔
امام خامنہ ای
29 اگست 2018

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=36192