11

امام خمینی اب بهی زندہ ہے

  • News cod : 37190
  • 14 آگوست 2022 - 10:25
امام خمینی اب بهی زندہ ہے
اگرچہ اس تاریخی حکم پر اس وقت کے امریکی صدر کے والد جارج بش اور یورپی حکومتوں نے اس فتوی کے خلاف سخت احتجاج کیا یہاں تک بعض یورپی ممالک نے اپنے سفیروں کو تہران سے واپس بلا لئے اور تہران کو سخت سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دهمکیاں دیں لیکن اس تاریخی فتوے نے عالم اسلام میں نئے روح پهونگ دی

امام خمینی اب بهی زندہ ہے

تحریر : غلام محمد شاکری

سلمان رشدی، انگریزی نژاد ہندوستانی مصنف، جو کہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، رشدی نے 1988 ایک کتاب تحریر کی جس میں پیغمبر اسلام (ص) اور ان کے صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے کردار کا مذاق اڑایا اور اس کتاب میں رشدی ملعون نے قران مجید کو پیغمبر اکرم کے اپنے افکار اور خیالات کا مجموعہ قرار دیا اور جھوٹی روایتیں بیان کرکے دنیا بهر کے کروڑوں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی ۔ رشدی کا اس کتاب کے لکهنے کا مقصد اپنے یورپی اقاوں کو خوش کرنے کے ساتهہ ساتهہ یورپ اور دنیا کے لوگوں میں پیغمبر اسلام کی حیثیت کو خراب کرنا تها،برطانوی حکومت نے سرکاری طور پر رشدی کی حمایت کی اور ان کی آیات شیطانی کتاب کی اشاعت پر پابندی کے لیے مسلم انجموں اور مسلمانوں کے گروپوں کی قانونی درخواست کو مسترد کر دیا۔وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا: ” توہین کے خلاف، قوانین، صرف عیسائیت پر لاگو ہوتا ہے۔” اس شیطانی کتاب کی اشاعت کے خلاف مختلف ممالک میں زبردست احتجاج ہوا اور مختلف ممالک میں متعدد جانیں ضائع ہوگئی
ان واقعات اور مختلف ممالک میں ہونے والے مظاہروں کے بعد امام خمینی (رح) نے 14 فروری 1988 سلمان رشدی کا واجب القتل ہونے کا تاریخی حکم جاری کیا اور اعلان کیا کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ سلمان رشدی اور اس کی کتاب کے ناشرین جہاں نظر ائیں قتل کردیں اگر کوئی رشدی کے قتل کے کوشش کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتهہ دوهہ بیٹهے تو وہ شہید ہوگا۔
اگرچہ اس تاریخی حکم پر اس وقت کے امریکی صدر کے والد جارج بش اور یورپی حکومتوں نے اس فتوی کے خلاف سخت احتجاج کیا یہاں تک بعض یورپی ممالک نے اپنے سفیروں کو تہران سے واپس بلا لئے اور تہران کو سخت سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دهمکیاں دیں لیکن اس تاریخی فتوے نے عالم اسلام میں نئے روح پهونگ دی اور اس فتوی کی عالم اسلام میں زبردست پزیرائی ملی اور دنیا بهر کے مسلمانوں میں تحریک اور بیداری کا باعث بنا۔
رشدی کی حفاظت کا خرچہ برطانوی حکومت نے ادا کیا، وہ 1998 تک انتہائی سخت حفاظت میں رکها، اور برطانوی پولیس، سلمان رشدی کی حفاظت کے لیے سالانہ ایک ملین ڈالر خرچ کرتی تھی۔ اس لیے برطانوی ٹیکس دہندگان نے اس پر احتجاج کیا۔ کچھ برطانوی سیاستدانوں نے اعلان کیا: “سلمان رشدی برطانوی ٹیکس دہندگان کے لیے ایک مہنگا بوجھ ہے”۔
رشدی اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: ’’یہ اچھا احساس نہیں تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک مردہ آدمی ہوں… اس وقت میرے لیے باڈی گارڈ کے بغیر چلنا، شاپنگ پر جانا، اپنے خاندان سے ملنا، ہوائی جہاز میں سفر کرنا یہ سب کچھ ناممکن تھا!
اسی طرح امام خمینی کے سزائے موت کے فتوا، اس شخص کو اور اس کے حامیوں کو مہنگی پڑی اور اس کی زندگی کے تین عشرے مشکل سے گزرے! مسلم نوجوانوں (شیعہ اور سنی) نے اس تاریخی فتوا کو جامہ عمل پہنانے کے لیے کئی بار حملہ کیا اور ہر بار وہ بچ گیا! اس ہتاک کو درس عبرت دینے اور قتل کرنے سے زیادہ اہم مغربی حکومتوں کا اس “فتویٰ” سے خوفزدہ ہونا تھا۔انگریزوں کو یہ پہلا واقعہ نہیں تها بلکہ اس سے پہلے بهی انگریزوں نے وقت کے شیعہ فقیہہ مرزاء شیرازی کے تاریخی فتوے کا کڑوا ذائقہ چکھ لیا تها اور نتیجہ دیکھ لیا تها!
ایرانی حکومت اور انگریزوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت 50 سال تک تمباکو کے تمام ملکی اور غیر ملکی لین دین کا استحقاق ٹالبوٹ اور اس کے ساتھیوں کو دیا گیا تها۔ جس کی بناء پر شیخ مرزا شیرازی نے تمباکو کے حرمت پر فتوی دیا اس فتوی کا اثر یہاں تک ہواٰ کہ ناصر الدین شاہ کے دربار کی عورتوں نے بھی قلیون اور چلم کو توڑ دیا اور شاہ نے خوف سے اس معاہدہ منسوخ کر دیا۔
اس بار سلمان رشدی کے معاملے میں مسلم اقوام کا احتجاج رشدی کے خلاف ہونے کی بجائے برطانوی اور امریکی حکومتوں کے خلاف ختم ہوا۔ ہر مسلمان کی طرف سے اس حکم کا نفاذ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امام خمینی ولی امر مسلمین اور امت کے امام ہونے کے ناطے اس کا حکم ایسے پڑے نہیں رہنا چاہئے تها اور اس کا نتیجہ ضرور نکلنا چاہیے تها۔
امام خمینی کے حقیقی جانشین اور
رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہمیشہ امام (رح) کے فتویٰ کے نفاذ کی حمایت کی ہے اور فرمایا: امام نے ایک تیر چلایا ہے اور انہوں نے اچھی طرح نشانہ لیا ہے اور یہ تیر اس وقت تک نہیں گرے گا جب تک وہ نشانے پر نہ لگے۔ یہ تیر ایک دن نشانے پر لگے گا۔
اب سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ بظاہر، ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ نیویارک میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ امید ہے وہ اپنے انجام کو پنہچے ۔
رشدی ایک ایسی حالت میں اپنی ذلت آمیز انجام کو پہچنے والا ہے جب امریکہ کے بزدل فوجیوں نے عراق کے سرزمیں پر ایرانی قدس فورس کے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کو شہید کیا جس کے عکس العمل میں وقت کے ولی امر المسلمین نے قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث افراد سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہوا ہے اب رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اب ایرانیوں کو مطلوب قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث افراد اب اپنے گهر کے اندر بهی سکون میسر نہیں ہوگا اور کسی بهی وقت ان پر بهی حملہ ہوسکتا ہے اس لیے کہ یہ بات بهی کسی وقت کے فقیہ کا ہے جس کی قدرت کے بارے میں امریکہ اور یورپ بخوبی اگاہ ہیں کہ 40 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے وہ اس فقیہ کو جکانے کا ہر ہربہ استعمال کئے ہیں لیکن صرف ناکام اور شکست کے سوا کچهہ نتیجہ نہیں ملا بلکہ الٹے مار کهائی ہیں اسی فقیہ نے امریکہ کے سارے غرور خاک میں ملایا دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کسی بهی ملک کو یہ جرات نہیں ہوئی تهی کہ امریکہ کی طرف ٹیڑی انکهوں سے دیکهیں لیکن اسی فقیہ کے جان بکف سپاہیوں نے سپر طاقت پر وار کر کے ساری ابوہت خاک میں ملا دیا اب دیکهنا یہ ہے امریکہ اور یورپ کہاں تک اسلام کی مخالفت کرے گا اور کہاں تک رشدی جیسے افراد کو سیکورٹی فراہم کرے گا جب کہ اپنے ملک میں امن و امان قائم کرنے سے عاجز ہے مسلمان فقہاء کے فتوے کی طاقت دیکهیں زمانے کی سپر طاقت کو ذلیل کیا
یورپ کی زمیں تھراتی ہے
رشدی کی حفاظت کیا ہوگی
فتوے سے تو دنیا ہلنے لگی
تلوار کی طاقت کیا ہوگی
نائب کی جب اتنی ہیبت ہے
آقا(عج) کی جلالت کیا ہوگی
(ریحان اعظمی)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=37190

ٹیگز