6

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید، ساتواں درس

  • News cod : 45577
  • 29 مارس 2023 - 22:09
سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید، ساتواں درس
لفظ رؤف و رحیم مہربانی اور پرودرگار کی بخشش کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ جو کچھ بھی انفاق ہم کر رہے ہیں اور ایمان لا رہے ہیں یہ سب خدا کا لطف ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت کے راستے دکھائے ۔

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید
ساتواں درس آیت (9,10)

حجۃ الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

آیات کا ترجمہ اور تفسیری نکات، آیات بینات سے مراد، وراثت کیا ہے ، فتح سے پہلے انفاق و جہاد کا فتح کے بعد سے مقایسہ ، زمانہ غیبت میں انفاق و جہاد کا ظہور کے بعد سے انفاق و جہاد سے مقایسہ۔غیبت میں منتظرین کا مقام

خلاصہ:
آیت نمبر 9
هُوَ الَّـذِىْ يُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٓ ٖ اٰيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِـيْـمٌ
وہی ہے جو اپنے بندے پر کھلی کھلی آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں میں سے نکال کر روشنی میں لائے، اور بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

آیت نمبر 9 میں لفظ آیا ہے اٰيَاتٍ بَيِّنَاتٍ یہاں کچھ مفسرین اس سے مراد معجزات لیتے ہیں۔ کہ یہ معجزات دین اسلام کی روشن نشانیاں ہیں اور کچھ مفسرین اس سے مراد قرآن کریم لیتے ہیں۔ بےشک یہ ساری چیزیں ہدایت دیتی ہیں۔

قرآن بھی اسلام اور ہدایت کی روشن راہوں پر لے کر آتا ہے۔ اور معجزات بھی اسی طرح ہیں بہت سارے لوگ جو شک و تردید میں ہوتے ہیں معجزات دیکھ کر ان کے شک ختم ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ پر ایمان لے آتے ہیں۔

لفظ رؤف و رحیم مہربانی اور پرودرگار کی بخشش کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ جو کچھ بھی انفاق ہم کر رہے ہیں اور ایمان لا رہے ہیں یہ سب خدا کا لطف ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت کے راستے دکھائے ۔

لفظ رؤف سے بارے میں میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص لطف اور عنایت ہے جو وہ اپنے اطاعت گذار بندوں کے لیے رکھتا ہے۔
اور رحیم سے مراد یہ ہے کہ جب گناہگار لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں تو وہ ان پر اپنے رحمت کرتا ہے۔ اور ان کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔

آیت نمبر 10

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلِلّـٰهِ مِيْـرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّـذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا ۚ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّـٰهُ الْحُسْنٰى ۚ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرٌ 10 اور تمہیں کیا ہوگیا جو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کا ورثہ تو اللہ ہی کے لیے ہے، تم میں سے اور کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا، یہ (لوگ) ہیں کہ اللہ کے نزدیک جن کا بڑا درجہ ان لوگوں پر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا، اور اللہ نے ہر ایک سے نیک جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔🩵

اس آیت میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ کیوں اللہ کی راہ میں انفاق نہیں کرتے کہ زمین و آسمان کی میراث اللہ کی ہے۔

لفظ میراث سے مراد وراثت ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ میت سے ورثہ کو وراثت مل جاتی ہے۔ حالانکہ انہوں نے اتنی زحمت نہیں کی ہوتی جتنا ان کو مل جاتا ہے۔

اسی طرح اللہ نے زمین و آسمان کی بیشمار نعمات ہمیں بغیر کسی زحمت کے عطا کئیں ہیں۔ یہ سب کچھ اسی کا تو ہے اور ایک وقت ایسا بھی ہو گا کہ یہ سارے خلائق مر جائیں گے اور اللہ کی ذات ہی باقی رہ جائے گی اور تمام چیزوں کا وارث اللہ ہی تو ہے۔

پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے یہ مال یہ علم اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔ اللہ نے ہمیں کئی طرح کے رزق دیے تو ان میں سے اللہ کی راہ میں خرچ ہو۔

اب جن لوگوں نے فتح سے پہلے انفاق کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ سب سے زیادہ ہے ۔

یہاں بعض مفسرین کہتے ہیں فتح سے مراد مکہ ہے بعض حدیبیہ کہتے ہیں اور بعض اسے تمام جنگوں کی فتح کہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اس سے مراد فتح مکہ ہے۔

فتح مکہ سے قبل سخت بحران میں بھی جن لوگ نے اللہ کو جان و مال دی۔ ان کا درجہ فتح مکہ کے بعد والے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے والے لوگوں نے سختیوں میں بھی مال خرچ کیا اور بعد والوں نے مال کی زیادتی میں خرچ کیا۔ پہلے والے لوگوں کے دشمن زیادہ تھے اور بعد والوں میں دشمن کم تھے۔

اب جو زمانہ غیبت میں انفاق کر رہے ہیں انفاق کر رہے ہیں یا دشمنان امام مہدی عج سے جنگ کر رہے ہیں چاہے وہ میڈیا کی جنگ ہو یا اپنے گناہوں سے جنگ ہو اور جب مولا ظہور کریں گے اور پھر جب بعد از ظہور مولا عج کی حکومت قائم ہوگی اور جب مولا عج جنگ کریں گے تو اس وقت کی جنگ و خیرات سے اب کی جنگ افضل ہوگی۔

🩵 اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ غیبت کے لوگوں کا مقام بہت بلند ہے۔ حتی کہ بعض روایت کے مطابق رسول پاک ص نے غیبت کے زمانے کے لوگوں کو اپنا بھائی قرار دیا ہے۔ اور تمام زمانے کے لوگوں سے ان کا درجہ بلند ہے کیونکہ یہ امام کے ظہور کی راہ ہموار کرتے ہوئے اپنے جان و مال کا فدا کریں گے۔ 🩵

تحریر و پیشکش:سعدیہ شہباز

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45577