4

تفسیر سورہ حدید 15درس

  • News cod : 45971
  • 06 آوریل 2023 - 13:37
تفسیر سورہ حدید 15درس
دنیا کی زندگی کو تیزی سے زوال پزیر کھیتی کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے۔کہ بہار میں کھیتیاں کتنی خوبصورت اور سر سبز لگتی ہیں اور پھر وہ زرد اور خشک ہو جاتی ہیں۔ دینا بھی ایسے ہی ہے کبھی وہ شاداب ہےاور کبھی چند روزہ ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔

تفسیر سورہ حدید 15درس آیت (20)

حجت الاسلام و المسلمین علی اصغر سیفی

تحریر و پیشکش
سعدیہ شہباز
آیت کا ترجمہ و تفسیر ، دنیا کی حقیقت ، کن کے لیے دنیا دھوکا اور کن کے لیے وسیلہ کمال ، انسانی زندگی کے ادوار ، آیت میں اصول تعلیم و تربیت
خلاصہ :
اِعْلَمُوٓا اَنَّمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَـهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُـرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُـرٌ فِى الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٝ ثُـمَّ يَهِيْجُ فَتَـرَاهُ مُصْفَرًّا ثُـمَّ يَكُـوْنُ حُطَامًا ۖ وَفِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّـٰهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (20)
جان لو! کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے، اور آخرت میں سخت عذاب ہے، اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے۔

تفسیر:
کفار سے مراد اہل کفر نہیں بلکہ اس کا لغوی معنیٰ چھپانے والا۔ اہل اسلام کے مدمقابل کو کفار اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کے دل میں اللہ اور آخرت کا انکار چھپا ہوتا ہے۔

یہاں کسانوں اور کاشتکاروں کو اسلیے لفظ کفار بولا گیا کہ یہ زمین میں بیج بوتے ہیں ۔ یعنی چھپاتے ہیں۔

دنیا کی زندگی کو تیزی سے زوال پزیر کھیتی کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے۔کہ بہار میں کھیتیاں کتنی خوبصورت اور سر سبز لگتی ہیں اور پھر وہ زرد اور خشک ہو جاتی ہیں۔ دینا بھی ایسے ہی ہے کبھی وہ شاداب ہےاور کبھی چند روزہ ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ بھی دنیا کو کسانوں کی کھیتیوں سے تشبہیہ دے رہا ہے کہ وہ چند دن تو لبھاتی ہیں پھر خشک ہو جاتی ہیں۔

یہاں جو فرمایا کہ:
آخرت میں سخت عذاب ہے اس سے مراد اہل کفر ہیں جو دنیا میں کھیل تماشوں میں مصروف رہے۔ اور اسی کو انہوں نے ہمیشہ کی زندگی سمجھا اور اللہ کی مغفرت اہل ایمان کے لیے ہے جو دنیا کو عارضی و فانی اور دارالامتحان سمجھتے ہیں۔ اور اس کے حکم کے مطابق زندگی گذارتے ہیں۔ اور یہاں جو فرمایا گیا کہ دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اور کچھ بھی نہیں یہ اس شخص کے لیے ہے جو دھوکے میں مبتلا رہا اور اس نے آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ لیکن جنہوں نے آخرت کی طلب کے لیے اپنی زندگی کو استعمال کیا تو ان کے لیے دنیا کی زندگی بہتر ہے۔

پروردگار عالم یہاں بے پناہ نکات بیان فرما رہا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس طرح کی آیات ہیں جن میں دنیاوی زندگی کولَعِبٌ وَّلَـهْوٌ کے ساتھ بیان فرمایا
سورہ الانعام: 32
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ
اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے

سورہ العنکبوت: 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے

سورہ محمد: 38
اِنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-
دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے

سورہ الحدید : 20
أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ ولهو
یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے۔

اگر ان تمام آیات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا کو ہدف اور مقصد سمجھتا ہے تو پھر دنیا اس کو دھوکا دے گی۔ اور عذاب میں مبتلا کرے گی۔ لیکن اگر وہ آخرت کو اپنی زندگی کا ہدف سمجھتا ہے تو پھر یہ دنیا اس کے لیے وسیلہ کمال ہے اور پھر وہ اسے دھوکا نہیں دے سکتی۔ یہ شخص کمال کو پہنچے گا۔

دنیاوی زندگی کا پہلا دھوکا :
پہلا دور بچپن:
کھیل کود یعنی دھوکا

دوسرا دور جوانی:
آرائش و زیبائش اور خود کو ہمیشہ کے لیےخوبصورت سمجھنا:یعنی دھوکا۔

تیسرا دور :
بڑھاپا:
بڑھاپے میں مال و دولت اور اولاد اور مقام کے فخر میں مبتلا ہوتا ہے۔ یعنی دھوکا۔

یہ آیت مبارکہ بھی ان تینوں چیزوں کو بیان کر رہی ہے۔ یعنی کھیل کود، زینت و زیبائش اورفخر و تکاثر۔

پیغامات:

۔ اے انسان توجہ کر اور دنیا کی حقیقت کو دیکھ اور اس کے ظاہر کو نہ دیکھ یہ دھوکا ہے۔ اپنی نگاہ کو درست کر یہ کسانوں کی کھیتی کی مانند ہے۔ جو بڑی جلدی ختم ہوتی ہے۔

۔ دنیا ایک جیسی نہیں جیسے کھیتیاں ایک جیسی نہیں اس میں بہار و خزاں ہیں ۔ یہاں درس آخرت لیں۔ اور اس کی فکر کریں۔

دنیاوی وسائل، آرائش و زینت ، فخر و تکاثر آخرت میں باعث عذاب شدید ہے۔

۔ بچوں کی تعداد تو جہنمیوں میں اضافے کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی تعداد نہیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ کریں اور اس کے حوالے سے فکر مند ہوں کہ وہ اپنے رب کے اچھے عبد بنیں اور اپنے امامؑ کے لیے سرمایہ ہوں اور اپنے امام کے سرباز و ناصر بنیں۔ یہ اولاد بہشتی بھی ہوگی اور ماں باپ کی شفاعت کا باعث بھی ہے۔

اور اولاد کی زیادہ تعداد جو تربیت یافتہ نہیں ہونگے وہ دنیا و آخرت میں بھی اپنے اور والدین کے لیے باعث غذاب ہو گی ۔

۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ کچھ لوگوں کے لیے دھوکا ہے لیکن جو ہدف کو پہچان لیں گے ان کے لیے یہ دنیا وسیلہ نجات ہے۔

 

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45971