19

بڑا کریم ہے — اقبالِ بے نوا لیکن

  • News cod : 5920
  • 18 دسامبر 2020 - 20:52
بڑا کریم ہے — اقبالِ بے نوا لیکن
حوزہ ٹائز | علامہ صاحب کے کلام کا بیشتر حصہ، نئی زندگی کا پیام لئے ہر آن خون مسلم کو حرارت، کام کرنے کا جذبہ، محنت کرنے کی لگن، آگے بڑھنے کا نیا عزم و حوصلہ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا کلام یورپ کی کھوکھلی ثقافت کی حقیقت کو امت مسلمہ کے سامنے بے نقاب کرتا ہے، اور نئی نسل کے لئے انتہائی مدلل، جاذب اور دل نشین انداز میں اسلامی ثقافت اور تہذیب کی وضاحت کرتا ہے

حکیم الامت کے محضر میں
بڑا کریم ہے ———– اقبالِ بے نوا لیکن
عطائے شعلہ، شرر کے سوا، کچھ اور نہیں
جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے حکمِ خدا سے سرتابی کی، اور اونٹنی کے پاؤں کاٹ دئیے، اور اپنے انجام سے بے خبر ہو کر، انتہائی بد تمیزی کے ساتھ حضرت صالح سے مخاطب ہوئے، اور کہنے لگے: اگر تم واقعا خدا کے بھیجے ہوئے رسول ہو، تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے تھے، اسے لے آؤ۔ قرآن مجید میں آواز آئی: { تو انہیں زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا، پس وہ اپنے گھروں میں سر بہ زانو رہ گئے، (الأعراف: 77)}، حضرت صالح اور ان پر ایمان لانے والوں کو اللہ نے اس عذاب سے محفوظ رکھا، باقی سب ظالم آسمانی چیخ، اور زلزلے کی نذر ہو گئے، اور اپنی ضد، منفی طرزِ تفکر، اور غلط افعال کے سبب ہلاکتِ ابدی کے مستحق قرار پائے۔
قومِ صالح پر نزولِ عذاب کے بعد کتابِ حکیم نے حضرت صالح کا ایک تاریخی جملہ ذکر کیا، جو ایک طرف انسانیت سے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی محبت کی عکاسی کرتا ہے، تو دوسری طرف ضدی افراد کی فطرت کو صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے، ارشادِ ربُ العزت ہے: {تو اس (عذاب نازل ہونے) کے بعد، صالح نے ان سے منہ پھیر لیا، اور کہا: اے قوم! بہ تحقیق میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا، تمہیں نصیحت کی، مگر (افسوس) کہ تم نصیحت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتے۔ (الأعراف): 79 }، اس آیت نے بڑی صراحت کے ساتھ اس بات کی تاکید کی ہے، کہ حق سے منہ پھیرنے والے ہمیشہ پند و موعظہ اور نصیحت سے بھاگتے ہیں، وہ پسند نہیں کرتے کہ اسے برائی سے روکا جائے، اور اچھائی کی دعوت دی جائے۔
اسی ضمن میں بات کرتے ہوئے علامہ صاحب اپنے آپ کو آگ کے شعلے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، کہ میں بڑا سخی اور کریم ہوں، میرا درد دل مجھے اس بات پہ مجبور کرتا ہے، کہ میں مسلسل عطا کروں، اور اس کے باجود کہ سخی کی بارگاہ میں ہمیشہ لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، لیکن میرے پاس لوگوں کا ہجوم نہیں، اس کا سبب یہ ہے، کہ میں جوانوں کو ایسی نصیحت کرتا ہوں، جو انہیں دنیا کی بے جا لذتوں سے منع کرتی ہے، اور انہیں ترقی اور پیش رفت کے رستے پہ ڈال دیتی ہے، ایک ایسی نصیحت جس میں قوموں کی زندگی کا پیغام ہے۔ اور چونکہ یہ پیغام شرر کی مانند، جھنجھوڑتا ہے، حرارت دیتا ہے، اور جلا دیتا ہے، اسی وجہ سے امت مسلمہ کے بیشتر جوان میری شاعری کو پسند نہیں کرتے۔
محترم قارئین! یہ بات ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، کہ علامہ صاحب کے کلام کا بیشتر حصہ، نئی زندگی کا پیام لئے ہر آن خون مسلم کو حرارت، کام کرنے کا جذبہ، محنت کرنے کی لگن، آگے بڑھنے کا نیا عزم و حوصلہ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا کلام یورپ کی کھوکھلی ثقافت کی حقیقت کو امت مسلمہ کے سامنے بے نقاب کرتا ہے، اور نئی نسل کے لئے انتہائی مدلل، جاذب اور دل نشین انداز میں اسلامی ثقافت اور تہذیب کی وضاحت کرتا ہے، شاید علامہ صاحب وہ واحد شخصیت ہیں، جن کے نام پر کم از کم ہم سارے پاکستانی اکٹھے ہو کر اپنے معاشرے سے پورپی تہذیب کو پرے پھینک کر دوبارہ سے اپنی نسلوں کو حقیقی آزادی، ترقی اور پیش رفت کے رستے پر ڈال سکتے ہیں، ایک ایسی ترقی جس کا محور اور مرکز خدا ہو۔
تحریر : محمد اشفاق

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=5920