وفاق ٹائمز، اسلامی تاریخ میں امامت اور خلافت کے تصورات ہمیشہ علمی و فکری مباحث کا مرکز رہے ہیں۔ ان مباحث کے نتیجے میں مختلف مکاتبِ فکر اور فرقے وجود میں آئے، جن میں اسماعیلی فرقہ بھی شامل ہے۔ اسماعیلی عقائد کی بنیاد امام جعفر صادقؑ کے بعد امامت کے مسئلے پر اختلاف سے پڑی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ فرقہ مختلف شاخوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ دو بڑی نمایاں شاخیں سامنے آئیں: بوہری اور آغا خانی۔
یہ دونوں شاخیں اپنی تاریخی جڑوں، اعتقادی نظریات اور مذہبی و سماجی طرزِ عمل میں نمایاں فرق رکھتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسماعیلیہ کی تاریخ، ان کی تقسیم، عقائد اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کے مقام کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
اسماعیلی فرقے کی ابتدا
اسماعیلیہ فرقے کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب امام جعفر صادقؑ کے بڑے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی وفات ہو گئی۔ چونکہ کچھ افراد امام صادقؑ کے بعد انہیں امامت کا مستحق سمجھتے تھے، اس لیے ان کی وفات کے باوجود ان کے ماننے والوں نے امامت کو ان کی نسل میں جاری رکھنے کا عقیدہ اختیار کیا۔ نتیجتاً، انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو امام تسلیم کیا اور یوں اسماعیلی فرقہ معرضِ وجود میں آیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسماعیلی فرقے نے سیاسی اور مذہبی لحاظ سے ایک نمایاں حیثیت حاصل کی۔ عبید اللہ المہدی نے اسماعیلی عقائد کی بنیاد پر فاطمی خلافت قائم کی، جو کئی صدیوں تک مصر میں ایک مضبوط اسلامی حکومت رہی۔ جامعۃ الازہر اور قاہرہ جیسے شہر فاطمی حکمرانوں کی ہی دین ہیں۔
اسماعیلیہ کی تقسیم: مستعلیہ اور نزاریہ
جب فاطمی خلافت کے ایک امام المستنصر باللہ کی وفات ہوئی، تو ان کے دو بیٹوں مستعلی اور نزار کے درمیان امامت کے حق پر اختلاف ہوا۔ اس اختلاف نے اسماعیلی فرقے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا:
1. مستعلیہ – وہ لوگ جنہوں نے مستعلی کو امام مانا، اور آگے چل کر یہی سلسلہ بوہری فرقہ کہلایا۔
2. نزاریہ – وہ افراد جنہوں نے نزار کی امامت کو تسلیم کیا، اور یہی گروہ بعد میں آغا خانی فرقے میں تبدیل ہوا۔
یہ دونوں گروہ اپنی مذہبی تشریحات، سماجی طرزِ زندگی اور سیاسی وابستگیوں میں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہو گئے۔
بوہری فرقہ: تاریخ اور عقائد
مستعلیہ شاخ سے تعلق رکھنے والے بوہریوں کی امامت کا سلسلہ فاطمی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا، تاہم انہوں نے اپنی مذہبی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے داعیوں کا ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ داعی، مذہبی رہنما کے طور پر فرقے کے افراد کی روحانی اور فقہی رہنمائی کرتے ہیں۔
بوہری فرقے کی مزید تقسیم
بوہری برادری مزید دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی:
1. داؤدی بوہرہ – ان کا مرکز بھارت کے شہر سورت میں ہے اور ان کے داعی عمومی طور پر ہندوستانی پس منظر رکھتے ہیں۔
2. سلیمانی بوہرہ – ان کا مرکز یمن میں ہے، اور ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔
بوہریوں کے عقائد اور مذہبی اعمال
بوہری مسلمان سختی سے ظاہری شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی عبادات میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اور دیگر اسلامی ارکان شامل ہیں۔ تاریخی طور پر بعض بوہریوں میں امام موسیٰ کاظمؑ کے بارے میں منفی نظریات پائے جاتے تھے، تاہم بعد میں اس رویے میں تبدیلی آئی، اور انہیں نجف و کربلا میں زیارت کی اجازت دے دی گئی۔
بوہری برادری نے نجف و کربلا میں مزاراتِ مقدسہ کی تعمیر و ترقی میں بھی نمایاں مالی معاونت فراہم کیا۔ آج، بوہری برادری کو ایک منظم اور تجارتی لحاظ سے خوشحال برادری سمجھا جاتا ہے، جس کی سرگرمیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔
آغا خانی فرقہ: تاریخ اور عقائد
نزاریہ اسماعیلیوں نے نزار کی امامت کو تسلیم کیا اور ایران میں اپنے لیے ایک ریاست قائم کی۔ حسن بن صباح کے دور میں نزاری اسماعیلیوں کو ایک طاقتور گروہ کے طور پر دیکھا جانے لگا، اور ان کی فدائین تحریک پورے ایران میں مشہور ہوئی۔
باطنی تعلیمات اور ظاہری شریعت کا ترک کرنا
بعد میں ان کے امام حسن علی ذکرہ السّلام نے ظاہری شریعت کو ترک کر کے باطنی تعلیمات کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق، کہا جاتا ہے کہ ان کے پیروکاروں نے ایک موقع پر 19 یا 21 رمضان المبارک کو روزہ کھولنے کے لیے شراب نوشی کی، کیونکہ ان کے امام نے ظاہری شریعت سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں “باطنیہ” بھی کہا جاتا ہے۔
ایران سے ہندوستان اور مغرب کی جانب ہجرت
نزاریہ اسماعیلیوں کے ایک امام کو “آغا خان” کا لقب ایرانی قاجاری سلطنت کے ایک حکمران نے دیا۔ بعد میں، آغا خان اوّل نے ایران کے خلاف بغاوت کی اور برطانوی سلطنت کی مدد سے سندھ اور بمبئی منتقل ہو گئے۔ برطانوی حکمرانوں نے انہیں “سر” کا خطاب دیا، اور انہیں کافی عزت و تکریم دی گئی۔
آج، آغا خانی امامت کا مرکز مغربی ممالک میں ہے، اور موجودہ امام پرنس کریم آغا خان کو اسماعیلی نزاریوں کا روحانی پیشوا تسلیم کیا جاتا ہے۔
بوہری اور آغا خانی: اسلامی نقطۂ نظر
بوہری مسلمان سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ وہ اسلامی عبادات کی پابندی کرتے ہیں۔ تاہم، آغا خانی فرقے کے کچھ عقائد جیسے حلول اور معاد جسمانی کا انکار انہیں روایتی اسلامی عقائد سے کافی مختلف بنا دیتے ہیں۔
اختتامیہ
اسماعیلی فرقے کی تاریخ اور اس کی مختلف شاخوں کا ارتقاء اسلامی تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ بوہری اور آغا خانی دونوں برادریاں اپنے منفرد عقائد اور تاریخی پس منظر کی حامل ہیں۔ کسی بھی مذہبی گروہ کے عقائد پر علمی بحث ممکن ہے، لیکن احترامِ مذاہب اور بین المذاہب ہم آہنگی کو ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔
تحریر: تصور حسین