5

امام زمانہ علیہ السلام پر ہماری جان قربان: لفظوں سے حقیقت تک

  • News cod : 60179
  • 13 فوریه 2025 - 10:02
امام زمانہ علیہ السلام پر ہماری جان قربان: لفظوں سے حقیقت تک
ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اپنی زندگیوں میں وہ تبدیلیاں لانی ہوں گی جو امام کی نظر میں قابلِ قبول ہوں

“امام زمانہ علیہ السلام پر ہماری جان قربان: لفظوں سے حقیقت تک”

تحریر: تصور حسین

جب ہم دعاوں میں یہ پڑھتے ہیں کہ ” امام پر ہماری جان قربان”، تو یہ الفاظ ایک انتہائی محبت، وفاداری اور عزم کی علامت بنتے ہیں۔ ہم یہ جملے بار بار دہراتے ہیں، ہر عبادت میں اور ہر موقع پر، یہ باور کراتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کے لیے ہماری جان بھی قربان ہو جائے گی۔ لیکن کیا حقیقت میں یہ جملہ صرف زبانی باتوں تک محدود ہے؟ کیا ہم واقعی اپنی زندگیوں میں امام علیہ السلام کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟ حقیقت میں اگر ہم اپنی زندگی کی گہرائی میں جائیں، تو ہمیں یہ سوالات اپنے آپ سے کرنا ضروری ہے: کیا ہم امام علیہ السلام کے ساتھ وفا کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے امام علیہ السلام کو حقیقتاً اپنا رہبر اور رہنما مانا ہے؟ یا کیا ہم نے امام کی ہدایات کو صرف الفاظ کی سطح پر قبول کیا ہے، بغیر ان پر عمل کیے؟

ہم سب یہ دعوی کرتے ہیں کہ امام پر ہماری جان قربان ہے، مگر جب حقیقت میں ہمارے اعمال کی بات آتی ہے تو کیا ہم امام کی توقعات پر پورا اُتر رہے ہیں؟ امام علیہ السلام کی غیبت کا دور ایک ایسا دور ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہے۔ امام علیہ السلام کے لیے قربانی کا تصور محض لفظی نہیں بلکہ عملی بھی ہونا چاہیے۔ امام پر جان قربان کرنے کا مطلب صرف لفظی طور پر جان دینا نہیں، بلکہ اپنے آپ کو امام کے راستے پر چلانا، اپنی زندگیوں کو امام کی ہدایات کے مطابق ڈھالنا اور ہر موقع پر امام کے اصولوں کو سامنے رکھنا ہے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ امام پر ہماری جان قربان ہے، تو کیا ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں امام کے احکام پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے گناہوں سے توبہ کر کے امام کے قریب جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے نفس کی حالت پر قابو پا کر امام کی نظر میں قابلِ قبول بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر ہم سچ میں امام کے وفادار بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی میں اصلاح کرنی ہوگی۔ قربانی کا مفہوم صرف جان دینے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ قربانی تو اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب ہم اپنے عیبوں، گناہوں اور کمزوریوں کو ترک کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ قربانی تب ہی حقیقی ہوتی ہے جب وہ بے عیب ہو۔ امام پر اپنی جان قربان کرنے کا عزم اُس وقت تک خالی لفظوں کا کھیل بن جاتا ہے جب تک ہم اپنے اندر کے عیبوں کو دور نہیں کرتے۔ ہم سب میں کمزوریاں ہیں، ہم میں بے شمار عیب ہیں جو امام کی نظر میں ہمارے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ امام علیہ السلام کا دروازہ ہمارے لیے ہمیشہ کھلا ہے، لیکن ہمیں اپنے اندر کی صفائی کرنی ہوگی، اپنی روح کی پاکیزگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب ہم اپنے عیبوں سے پاک ہو جائیں گے، تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ “ہم قربان ہیں”، اور ہماری قربانی سچی اور مؤثر ہوگی۔

ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اپنی زندگیوں میں وہ تبدیلیاں لانی ہوں گی جو امام کی نظر میں قابلِ قبول ہوں۔ امام علیہ السلام کی رہنمائی کے بغیر ہم اپنی روحانی ترقی کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔ امام کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا، اپنے آپ کو بہتر بنانا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ہی وہ حقیقی قربانی ہے جس کا ہم دعوی کرتے ہیں۔

اگر ہم امام کی رضا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے اندر کی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی خواہشات کو امام کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ قربانی کا ایک حقیقتی مفہوم یہی ہے کہ ہم اپنے عیبوں کو ختم کر کے امام کے راستے پر ثابت قدم رہیں اور پھر یہی کہہ سکیں کہ

“اے امام ہماری جان آپ پر قربان “۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=60179

ٹیگز