5

جنگ نرم کے بلتستانی دو عظیم کمانڈروں کی شھادت 

  • News cod : 60288
  • 18 فوریه 2025 - 10:14
جنگ نرم کے بلتستانی دو عظیم کمانڈروں کی شھادت 
دنیا بھر کے جوانوں کیلیے خصوصا بلتستان کے جوانوں کے لیے خواجہ علی کاظم اور سید جان علی شاہ کی زندگی اور شھادت دونوں میں بہت سارے درس موجود ہیں۔

جنگ نرم کے بلتستانی دو عظیم کمانڈروں کی شھادت 

تحریر:کاچو اظہر عباس

جنگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جنگ سرد(hard war) در دوسرا جنگ نرم (soft war)

جنگ سرد قدیم الایام سے دنیا میں رائج جنگ ہے جس میں اپنے دشمن کے دوبدو ہوکر تیر، تلوار، نیزہ یا اس دور کی مثال دوں تو بندوق، میزایل اور ڈرونز کے زریعے لڑی جاتی ہے

جنگ نرم وہ جنگ ہے جس میں ظاہرا کوئی فوج، تیغ و تلوار اور بندوق و میزائل وغیرہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہمارے سوچ ، فکر اور عقاید پہ حملے کئے جاتے ہیں اور ثقافتی یلغار ہوتی ہے۔

جنگ نرم خطرناک ترین جنگ ہے جس میں اصلی دشمن سامنے دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ آرام سے ہماری سوچ، فکر، عقائد، فرھنگ اور ثقافت کی جڑیں تیزی سے کاٹ رہا ہوتا ہے۔یہ کام دشمن جدید ٹیکنالوجی کے زریعے انجام دیتا ہے۔سوشل میڈیا اس وقت اس جنگ کا میدان ہے

رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا :

“سوشل میڈیا کو فقط تفریح کا ذریعہ نہ بنائیں،سوشل میڈیا جنگ نرم (SoftWar) کا میدان ہے اور آپ لوگ اس سوفٹ وار کے جرنیل ہیں اس میدان میں عمار یاسر ؒ جیسی بصیرت اور مالک اشترؒ جیسی استقامت کی ضرورت ہے۔اپنے پورے وجود کے ساتھ اس میدان میں حاضر رہیں اور حق کا دفاع کریں”

بلتستان میں اس وقت جنگ نرم اپنی عروج پر ہے اور اس میدان میں دشمن کافی حد تک کامیاب ہو رہا ہے

اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ بلتستان جیسے بلد الاہلبیت میں آئے دن ثقافت کے نام پر ناچ و گانا اور نائٹ کلب کے پروگرامز بیرونی فنڈنگ سے منعقد کیا جارہا کئے جارہے ہیں اور ان پروگرامز کے صف اول میں ہمارے وہ جوان جو محرم الحرام میں مرثیہ اور نوحہ پڑھتے ہیں اور ماتم کر کر کے نہیں تھکتے وہی جوان یہاں بھی صف اول میں نظر آتے ہیں۔ محرم الحرام کو محض ایک تفریحی ایونٹ بنایا جا رہا ہے اس خطرناک جنگ نرم کے دوران کچھ ایسے جوان ارض شمال کی افق پر ابھرتے ہیں کہ وہ لوگ جنگ نرم کے میدان میں اہلبیت علیہم السلام کے فضائل دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں

انہیں ستاروں میں سے دو درخشنداں ستارہ خواجہ علی کاظم اور سید جان علی شاہ تھے جو ہماری بدقسمتی سے بہت جلدی منوں مٹی تلے چلے گئے ان کا اصل مشن اپنی سریلی آواز کے زریعے لوگوں کو قرآن و اہلبیت علیھم السلام قریب لانا تھا ۔

یہ مشن ان کی شھادت کے بعد پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے

سکردو کے گلی کوچوں اور محلوں میں آج پھر عاشورا کا سماں ہے لوگ خواجہ کاظم اور سید جان علی شاہ کو یاد کرکے حسین اور ان کی آل پر گریہ کر رہے ہیں

سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ ان دونوں نے آخر کیا کیا تھا کہ ان کی موت نے لوگوں کے دلوں کو ایک بار پھر اہلبیت کی طرف موڑ دیا ہے

تو اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ یہ دونوں جنگ نرم کے دو عظیم کمانڈرز تھے جو سوشل میڈیا پر جب دوسرے لوگ ناچ گانا اور موسیقی کے پروگرامز شئر کر رہے ہوتے تھے اسی وقت یہ دونوں جنگ نرم کا میدان سوشل میڈیا پر فضائل اہلبیت علیہم السلام کے منقبت،مرثیے،نوحے اور سلام پڑھ کر دنیا بھر کے جوانوں کو در اہلبیت کے قریب لے آنے کی کوشش میں تھے۔

دنیا بھر کے جوانوں کیلیے خصوصا بلتستان کے جوانوں کے لیے خواجہ علی کاظم اور سید جان علی شاہ کی زندگی اور شھادت دونوں میں بہت سارے درس موجود ہیں۔

ہمارے نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ ہیں۔ خدا نے کسی کو خوبصورت آواز عطا کی ہے تو کسی کو خوبصورت قوت گویائی سے نوازا ہے کسی کو شاعری کا ہنر دیا ہے تو کسی کو قلم کاری میں مھارت دی ہوئی ہے ہر انسان کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے ہم جب اپنی ان صلاحیتوں کو درست راہ میں استعمال کریں گے خدا دنیا و آخرت میں ہم کو کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔

قطرہ جب سمندر سے جا ملتا ہے تو وہ قطرہ فنا نہیں ہوتا بلکہ سمندر کا حصہ بن کر ہمیشہ باقی رہتا ہے

خواجہ کاظم اور جان علی شاہ نے خود کو بحر اہلبیت سے متصل کیا تھا تو دیکھیں جتنا عرصہ زندہ رہے سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے اور جب موت آئی تو فنا نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ لوگ ان کی محبت میں گرفتار ہوئے

یاد رہے جنگ نرم کا ایک کمانڈر آپ بھی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی زمہ داری کو کس طرح انجام دیں گے شامیوں کی طرح دنیا کے رنگینوں میں کھو جائیں گے اور جنگ نرم کے میدان میں دشمن کا آلہ کار بنیں گے یا کربلا والوں کی طرح اپنی زندگی کو وقف برای حسین علیہ السلام کرکے دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں گے

یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=60288

ٹیگز