23 مارچ کا دن صرف ایک قرارداد کی منظوری کا دن نہیں
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
قراردادِ لاہور نے برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا۔ اس قرارداد کو منظور کرتے ہوئے پہلی مرتبہ مسلم لیگ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کی خودمختاری کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی نظام کا خواب دیکھنے کی ابتدا کی۔ اس دن کے بعد مسلم لیگ کے سیاسی مقاصد کو ایک ٹھوس اور واضح شکل ملنا شروع ہوگئی۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی الگ ریاست کے قیام کا خواب آگے چل کر پاکستان بننے پر منتہج ہوا۔ یہی خواب بنیادی طور پر مسلم لیگ کا پولیٹیکل ایجنڈا ثابت ہوا، جس سے مسلم لیگ کی پولیٹیکل آٹونومی (Political Autonomy) کی شرح میں اضافہ ہوا۔ 23 مارچ کا دن ہمیں تاریخ پاکستان کے مختلف زاویوں کو سامنے رکھنے کی دعوت دیتا ہے، جن میں خاص طور پر ۱۹۳۶-۱۹۳۷ کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ہونے والی سیاسی ناکامی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پولیٹیکل ریکنسلی ایشن (Political Reconciliation) کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شکست نہ صرف مسلم لیگ کے سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہوئی، بلکہ اس سے مسلمانوں کے ایک نئے سیاسی عہد کا آغاز بھی ہوا، جس کا اظہار 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور کی شکل میں سامنے آیا۔
قراردادِ لاہور نے مسلم قوم کے لیے ایک علیحدہ وطن کے تصور کو حقیقت کی شکل دینے کی بنیاد فراہم کی، جسے پولیٹیکل سوشل کنٹریکٹ (Political Social Contract) کے طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ آج قراردادِ لاہور کی اہمیّت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان موجود نظریاتی فرق کو مدنظر رکھیں۔ یونینسٹ پارٹی کے سربراہ مسٹر سکندر حیات کے مطابق، ان کا تیار کردہ مسودہ اس سے مختلف تھا، جو شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا۔ یونینسٹ پارٹی ہندوستان کو سات انتظامی علاقوں میں تقسیم کرنے کی حامی تھی، جبکہ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کی خواہاں تھی۔ اس نظریاتی اختلاف نے بالآخر ایک گہری پولیٹیکل پولرائزیشن (Political Polarization) کی شکل اختیار کی۔
قراردادِ لاہور کی تیاری کے دوران مسلم لیگ کو علامہ مشرقی اور ان کی خاکسار تحریک سے سنگین خطرات کا سامنا تھا۔ اس تاریخی موقع پر 23۳ مارچ 1940ء کو قرارداد کی منظوری تو ہوگئی، تاہم علامہ مشرقی کے ساتھ مسلم لیگ کا نظریاتی اختلاف ایک شدید قسم کے خوف کی صورت میں لوگوں پر چھایا رہا۔ بعد ازاں 26 جولائی 1943ء کو علامہ مشرقی کے ایک جوشیلے پیروکار “رفیق صابر مزنگوی” نے چاقو کے ساتھ قائداعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا۔ سیاسی مخالفت میں جان لینے تک چلا جانا یہ بھی تاریخ پاکستان کا حصہ ہے۔ استحکامِ پاکستان کیلئے ایسے لوگوں کو پہچاننا اور ان کے مقابلے میں قائداعظم کی استقامت کے مختلف پہلووں کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ قاتلانہ حملے میں قائداعظم کی جان بچ گئی، حملہ آور کا تعلق تحریکِ خاکسار، مجلسِ احرار اور اتحادِ ملت جیسی تنظیموں سے تھا، یہ سب تنظیمیں قائداعظم، مسلم لیگ اور قیامِ پاکستان کے خلاف تھیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس سانحے کا ایک دلخراش پہلو یہ بھی ہے کہ حملہ آور کا نام محمد صادق تھا، جسے مولانا ظفر علی خان نے “کامریڈ” (Comrade) کا لقب دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اس قاتلانہ حملے کو قائداعظم کے بھانجے اکبر اے پیر بھائی نے “جناح فیسز این اسیسن” نامی اپنی کتاب (جناح پر قاتلانہ حملہ) میں کچھ یوں تحریر کیا ہے: “پولیس کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ حملہ آور کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ مجلس احرار اور اتحاد ملت جماعتوں کا رکن رہا تھا۔ مولانا ظفر علی خان نے ان کی کارکردگی سے خوش ہوکر انھیں کامریڈ کا خطاب دیا تھا، جسے ترجمہ کرکے انھوں نے اپنا نام رفیق رکھ لیا تھا۔ صابر اس کا تخلص تھا اور وہ مزنگ (لاہور) کا رہنے والا تھا۔ یوں اس کا نام رفیق صابر مزنگوی مشہور ہوگیا۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان اور قائداعظم کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اُس زمانے میں بھی موجود تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ قائداعظم نے ان کے مقابلے میں استقامت دکھائی، لیکن وہ لوگ آج بھی پاکستان میں مختلف صورتوں میں دہشت گردی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اس سیاسی فضا کو مزید گہرائی سے دیکھیں، تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ 1940ء کی قرارداد کے ساتھ مسلمانوں کیلئے ایک نیا دور شروع ہو رہا تھا، جس میں مسلم لیگ نے ایک علیحدہ وطن کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ تاہم، اس دوران مولانا ظفر علی خان جیسے اہم سیاسی رہنماؤں کی مخالفت مسلم لیگ کے لیے مسلسل چیلنج بنی رہی۔ ان کی تحریکِ خلافت کے دوران مسلم لیگ اور دو قومی نظریئے کے خلاف جو موقف اختیار کیا گیا، وہ ہر باشعور پاکستانی کو خون کے آنسو رُلانے کیلئے کافی ہے۔ خلافت کمیٹی کا گاندھی جی کے ساتھ یارانہ بھی اس دور کی ایک اہم تاریخی حقیقت ہے۔ خلافت کمیٹی نے گاندھی جی کے ساتھ مل کر ایسی بے شمار کارروائیاں کیں کہ جنہوں نے مسلم لیگ کے دو قومی نظریئے کو چیلنج کیا۔
اس کے علاوہ ان کی جانب سے تحریکِ عدمِ موالات (Non-Cooperation Movement) کا آغاز اور مسلمانوں کے لیے ہجرت کا فتویٰ بھی ایک سنگین غلط حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کے ذریعے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا نیز مسلم لیگ کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی۔ مذکورہ بالا واقعات کا جائزہ لینے سے ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ 23 مارچ کا دن نہ صرف ایک قرارداد کی منظوری کا دن تھا، بلکہ یہ اس وقت کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئے عہد کی علامت تھا۔ اس دن کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ یہ دن ہمیں پاکستان کو بچانے کیلئے پاکستان کے مخالفین کو پہچاننے کی بصیرت اور فرصت عطا کرتا ہے۔ لہذا، ہمیں 23 مارچ کو صرف ایک تاریخی دن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے، بلکہ اس دن کی سیاسی، نظریاتی اور سماجی جہتوں کو بھی سمجھنا ضروری ہے، تاکہ ہم اپنے ماضی سے سیکھ کر اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔