تحریر: ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی
دنیا کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی گئی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کوئی کر نہیں سکتا اور اگر کسی نے ایسی احمقانہ حرکت سوچ بھی لی تو صدام حسین کی طرح سولی پر چڑھ جائے گا، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ ان کو ہر حال میں خوش رکھے یہی وجہ ہے ایک طرف اسرائیل، امریکہ کی مدد سے مسلمانوں خاص کر فلسطین میں بدترین دہشت گردی کرتا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی تو دوسری طرف عرب ملکوں کے عیاش،شہوت پرست حکمران اپنی دولت،عزت حتی اپنی عورتوں کو ٹرمپ کے سامنے پیش کرتے ہیں، تاکہ ہر حال میں امریکہ ہم سے خوش رہے۔
اسی طرح امریکہ اور اسرائیل کا نام سن کر بھی بعض ممالک کے سربراہان کی حالت ہی غیر ہو جاتی ہے اور یہ حکمران اپنے ملک کے باشندوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں، تاکہ امریکہ خوش رہے۔ایسے دجالی اور ابلیسی ماحول میں امریکہ اور اسرائیل اپنے تمام وسائل اور مادی ساز وسامان کے ساتھ ایران پر حملہ کرتے ہیں عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ ایران کو مذاکرات کا جھانسہ دے رہا ہوتا ہے، تاکہ غافلگیری کی مکارانہ روش پر عمل کرتے ہوئے ایران کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا سکے اسی شیطانی منصوبہ کے تحت ایک ہی رات میں ایران کے تمام دفاعی نظام کو مفلوج بناکر تمام عسکری قیادت کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ 200جنگی جہازوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں چڑھائی کرتا ہے اور تمام داخلی منافقوں کو بھی میدان میں اتارتے ہوئے ٹرمپ یہ اعلان کرتا ہے ایران اگر نجات چاہتا ہے تو بغیر چون وچرا تسلیم ہو جائے! یہ حملہ ایران کو جھکانے کے لیے کیا ہے اب ایران کے پاس زیادہ فرصت نہیں ہے؛ دنیا حیران ہے ایک ہی رات میں یہ سب کچھ کیسے ہوا؟
یہاں مجھے امام خمینی علیہ رحمہ کا وہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے کہ جس میں آپ نے ملت ایران کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ولایت فقیہ کو چھوڑنا نہیں ہے!
ایرانی قوم اپنے رہبر کے فیصلے کی منتظر ہے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ خوفزدہ یا کمزوری دکھانے کے بجائے اپنی مسلح افواج کو جوابی کاروائی کا حکم فرماتے ہیں: اب اسرائیل ہمارے ہاتھ سے سزا کاٹنے کے لئے تیار رہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کے بڑے بڑے عسکری، تجارتی اور ٹکنالوجی کے مراکز ایرانی ڈرون اور میزائل حملے میں راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔
اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار اس کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑتی ہے جو پہلے ایران میں ایک خونی انقلاب اور اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا تھا اب اسے اپنے ملک کو ہی بچانا مشکل ہوا اور تمام تر دعوؤں کے باوجود لینے کے دینے پڑ گئے۔
غاصب اسرائیل اتنا کمزور پڑ گیا کہ امریکہ کو کھل کر مدد کے لئے پکارا دوسری طرف ایران نے اپنے دوست ممالک کی طرف سے مدد کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔
ایران کے حملے روکنے کے لیے امریکہ سمیت تمام ممالک شامل ہوگئے، لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ملی یوں بارہ دنوں میں ایران نے نہ صرف فتح حاصل کی، بلکہ فتح مبین اور عظیم کامیابی حاصل کی۔
تمام ایرانی انقلابی اور غیر انقلابی رہبرِ انقلابِ اسلامی کے گرد اکھٹے ہوئے اور اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔امریکہ بھی براہِ راست اس جنگ میں کود پڑا، لیکن ایران نے امریکی فوجی اڈے اور مفادات کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا، یوں عراق اور قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو میزائل کا کامیاب نشانہ بنایا۔
امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑے عسکری مرکز یا یوں کہوں جاسوسی اڈہ الحدید قطر کو ملیامیٹ کر دیا۔
اب امریکہ بہادر کا لہجہ تبدیل ہوا۔ ایران کو صلح کا پیغام دیا اور تیل پر سے پابندیاں ہٹانے کا بھی اعلان کیا۔ یوں رہبر معظم انقلاب کی بابصیرت قیادت نے دو ایٹمی طاقتوں اور ان کے حواریوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا آج پوری دنیا میں ایران کی خوب تعریفیں ہورہی ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کے شیشے کے محل ٹوٹ چکے ہیں دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جو امریکہ اپنی ہی نامشروع اولاد اسرائیل کو نہ بچا سکا بھلا وہ کیسے ہماری حفاظت کرے گا؟
اب ایران کی قیادت میں نیا مشرق وسطی وجود میں آ چکا ہے۔ یوں حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب کی تعبیر شروع ہوچکی ہے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
سوال یہ ہے چالیس سال سے مکمل اقتصادی اور عسکری محاصرے میں بند ایران کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آئی؟رہبر،نظام اور عوام ایک پیچ پر جمع ہو جائے تو ایسے معجزے وجود میں آتے ہیں۔ ایران نے یہ طاقت عاشوراء سے لی ہے جو کربلا تک پہنچ گیا اس کو ایران کی طاقت، جرأت،بہادری،بصیرت اور سیاست سب سمجھ میں آئے گا۔ ابھی تو ایران نے اپنی پوری طاقت دکھائی بھی نہیں ہے قرآن کا وعدہ ہے فلسطین ایرانیوں کے ہاتھوں ہی آزاد ہوگا۔
آخر میں یہ گزارش بھی ہے کہ فرقہ بن کر نہیں، بلکہ امت بن کر سوچیں! انشاء اللہ مستقبل ہمارا ہے۔