7

جو بائیڈن اور مسئلہ فلسطین

  • News cod : 9274
  • 29 ژانویه 2021 - 15:29
جو بائیڈن اور مسئلہ فلسطین
بعض سیاسی تجزیہ کار اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسئلہ فلسطین کے بارے میں یکطرفہ پالیسیاں اختیار نہیں کریں گے اور قدرے معتدل پالیسی اپنائیں گے۔ لیکن بعض حقائق ایسے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بائیڈن بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح امریکی سکے کا ایک رخ ہے۔

تحریر: مجتبی شاہ سونی

بعض سیاسی تجزیہ کار اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسئلہ فلسطین کے بارے میں یکطرفہ پالیسیاں اختیار نہیں کریں گے اور قدرے معتدل پالیسی اپنائیں گے۔ لیکن بعض حقائق ایسے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بائیڈن بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح امریکی سکے کا ایک رخ ہے۔ جو بائیڈن بارہا بڑے فخر سے خود کو صہیونی قرار دے چکے ہیں اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے متعلق ان کا یہ جملہ مشہور ہے کہ “اگر اسرائیل موجود نہ ہوتا تو ہمیں ایک اسرائیل بنانا چاہئے تھا۔” انہوں نے کئی مواقع پر غاصب صہیونی رژیم کی قومی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن اسرائیل کا دفاع کرنے والے شدت پسند ترین امریکی سیاست دان ہیں۔   مثال کے طور پر جو بائیڈن نے 2019ء میں نیویارک یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا:

“چاہے ہم اسرائیل کے موجودہ حکمرانوں سے اختلافات ہی کیوں نہ رکھتے ہوں لیکن ہمیں چاہئے کہ اسرائیل کی سلامتی کے تحفظ سے متعلق اپنی قانونی ذمہ داریوں کے پابند رہیں۔” لہذا یہ تصور درست نہیں کہ جو بائیڈن کی حکومت ٹرمپ حکومت کے برعکس صہیونی رژیم کی جانب کم جھکاو رکھتی ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھے گی۔ جو بائیڈن نے ایک موقع پر کہا تھا: “صہیونی ہونے کیلئے آپ کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے۔”

وہ اکثر ڈیموکریٹک سیاست دانوں کی طرح خود کو صہیونی اور اسرائیل کا حقیقی دوست سمجھتے ہیں۔ جو بائیڈن گذشتہ 47 سال سے سینیٹ میں موجود ہیں اور اس پوری مدت میں انہوں نے ہمیشہ سینیٹ میں اسرائیلی مفادات کا دفاع کیا ہے۔   جو بائیڈن کئی مواقع پر انتہائی فخر سے اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ “انہوں نے اسرائیلی لابی آئی پیک کے اراکین سے کہیں زیادہ خود آئی پیک اور اسرائیل کیلئے فنڈز جمع کئے ہیں۔” جو بائیڈن نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے کو تاریخی قدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا:

“متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی پیشکش ایک بابرکت اور شجاعانہ اقدام ہے اور حکومت کی اشد ضرورت ہے۔” جو بائیڈن کی جانب سے قومی سلامتی کے امور میں وائٹ ہاوس کے نامزد مشیر جک سیلیوان نے بھی متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کو انتہائی قیمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن اور ان کی حکومت اس بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو مزید آگے بڑھائے گی۔

امریکہ اس وقت شدید سیاسی، سکیورٹی اور صحت کے بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور ان حالات کے تناظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو بائیڈن کی زیادہ تر توجہ اندرونی مشکلات پر قابو پانے پر مرکوز رہے گی۔ لہذا یہ توقع رکھنا بے جا ہے کہ نئی امریکی حکومت مسئلہ فلسطین سے متعلق کوئی نیا منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں مسئلہ فلسطین سے متعلق جو بائیڈن حکومت کی پالیسی درج ذیل اہم نکات پر مشتمل دکھائی دیتی ہے:

1)۔ فلسطینیوں سے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار: سینچری ڈیل نامی منصوبہ بہت اچھی طرح مسئلہ فلسطین سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسی کا مظہر تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جو بائیڈن حکومت اس منصوبے کو معطل کر دے گی اور فلسطینیوں سے دوبارہ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرے گی۔

2)۔ امریکی سفارتخانہ قدس شریف میں ہی برقرار رکھا جائے گا۔ جو بائیڈن اپنی صدارتی مہم کے آغاز سے پہلے تک ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی جانب سے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کئے جانے کے اقدام کی شدید مذمت کرتے تھے اور اسے حماقت قرار دیا تھا۔ لیکن صدارتی الیکشن مہم کے آغاز کے بعد ان کے موقف میں تبدیلی رونما ہو گئی۔ اگرچہ جو بائیڈن مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی راہ حل کے حامی ہیں لیکن انہوں نے کہا ہے کہ امریکی سفارتخانہ قدس شریف میں ہی برقرار رکھیں گے۔ جو بائیڈن کے نامزد وزیر خارجہ بلینکن نے حال ہی میں سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے قدس شریف کو غاصب صہیونی رژیم کا دارالحکومت قرار دیا اور امریکی سفارتخانہ قدس شریف میں ہی برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔

3)۔ بنجمن نیتن یاہو کے بعض شدت پسندانہ اقدامات کی بظاہر مخالفت: اگرچہ جو بائیڈن غاصب صہیونی رژیم کے شدید حامی ہیں لیکن موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی بعض شدت پسندانہ پالیسیوں کے مخالف ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ایسی پالیسیاں امریکی مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ شدت پسندانہ پالیسیاں مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے خلاف شدید محاصرے جیسے اقدامات پر مشتمل ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کی کھلی مخالفت ہے جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں منظور ہو چکی ہیں۔

4)۔ صائب عریقات کی جگہ کسی اور فلسطینی رہنما کی تقرری: جو بائیڈن اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں لیکن فلسطین کی مذاکراتی ٹیم کے موجودہ سربراہ صائب عریقات کی جگہ کسی اور فلسطینی رہنما کی تقرری کے درپے ہیں۔

نوٹ: وفاق ٹائمز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں وفاق ٹائمز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=9274