22

اسلامی دستور حیات امام جواد علیہ السلام کی نظر میں

  • News cod : 11227
  • 22 فوریه 2021 - 2:06
اسلامی دستور حیات امام جواد علیہ السلام کی نظر میں
انسان کی زندگی عقیدہ اور عمل کا مجموعہ ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جیسے انسان کا عقیدہ ہوگا ویسا عمل ہوگا اگر عقیدہ حقیقت کی ترجمانی کر رہا ہو تو عمل بھی حقیقت کا مظہر ہو گا لیکن عقیدہ باطل اور خرافات پر مشتمل ہو تو عمل بھی خرافاتی اور باطل ہوگا۔

تحریر: فدا حسین ساجدی

انسان کی زندگی عقیدہ اور عمل کا مجموعہ ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جیسے انسان کا عقیدہ ہوگا ویسا عمل ہوگا اگر عقیدہ حقیقت کی ترجمانی کر رہا ہو تو عمل بھی حقیقت کا مظہر ہو گا لیکن عقیدہ باطل اور خرافات پر مشتمل ہو تو عمل بھی خرافاتی اور باطل ہوگا۔
اور یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ صرف عقیدہ کا درست ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے مطابق عمل کرے۔
ہمیں یہ بڑی سعادت نصیب ہوئی ہے کہ کائنات کی مقدس ترن اور پاکیزہ ترین ہستیوں کو اپنا پیشوا مانے اور ان کی امامت پر عقیدہ رکھے لیکن صرف عقیدہ ہماری سعادت اور کامیابی کے لئے کافی نہیں بلکہ ان کے فرمایشات پر عمل بھی انتہائی ضروری ہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرمایشات پر عمل پیرا ہونے کے لئے پہلے آشنائی ضروری ہے ۔ اسی لئے۔
ہم یہاں امام جواد علیہ السلام کے فرامین کی روشنی میں کچھ اسلامی طرز زندگی کے اصول اور دستورات بیان کرنے کی کوشش کریں گے

پہلا دستور: ہدایت الہی اور ہدایت پزیری۔
انسان کی تشریعی زندگی میں اللہ کی طرف سے بندے کی ہدایت اور بندے کی طرف سے ہدایت کا قبول وہ اصل ہے جس کے بغیر بندے کی ہدایت اور اس کی سعادت ناممکن ہے۔ اسی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام فرماتے ہیں:
الْمُؤ مِنُ يَحْتاجُ إ لى ثَلاثِ خِصالٍ: تَوْفيقٍ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، وَ واعِظٍ مِنْ نَفْسِهِ، وَقَبُولٍ مِمَّنْ يَنْصَحُهُ. مومن ہمیشہ تین خصلت کا محتاج ہے اللہ کی طرف سے توفیق۔ اپنے اندر کوئی نصیحت کرنے والا اور نصیحت کرنے والوں کی نصیحت قبول کرنا۔
دوسرا دستور: نیک لوگوں کی ہمنشینی۔
انسان کی بہت ساری ضروریات زندگی دوسروں کی مدد کے بغیر پوری نہیں ہوتی اس وجہ سے معاشرتی زندگی اس کے لئے ناگزیر ہے لیکن معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں جن لوگوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ان کے اخلاق اور کردار بہت اہم ہے لہذا اسلامی طرز زندگی میں ساتھی کا نیک ہونا ایک انتہائی اہم مسئلہ جس کی طرف امام نے اس حدیث میں اشارہ کیا ہے:
مُلاقاةُ الاْ خوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إ نْ كانَ نَزْرا قَليلا۔ اچھے اور نیک ساتھیوں سے ملاقات دل کی صفائی اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت میں نکھار کا سبب بنتی ہے۔ اگر چہ ملاقات کی مدت کم ہی کیوں نہ ہو۔
تیسرا دستور: برے لوگوں کی دوستی سے اجتناب۔
جس طرح نیک کردار انسانوں کی دوستی، انسان کی کامیابی میں بڑے کردار ادا کرسکتی ہے اسی طرح برے لوگوں کی دوستی اس کے لئے بہت نقصان دہ ہے فرماتے ہیں:
إ يّاكَ وَ مُص احَبَةُالشَّريرِ، فَإ نَّهُ كَالسَّيْفِ الْمَسْلُولِ، يَحْسُنُ مَنْظَرُهُ وَ يَقْبَحُ اءثَرُهُ۔ برے لوگوں کی دوستی سے بچو کیونکہ وہ لوگ زہر آلود تلوار کی طرح ہوتے ہیں جس کا ظاہر چمکدار اور خوبصورت جبکہ اس کا اثر برا اور خطرناک ہوتا ہے۔
چوتھا دستور: ہر حالت میں اللہ پر بھروسہ۔
اللہ تعالی ہمارا خالق اور رازق ہونے کے علاوہ ہمارا رب یعنی پالنے والا بھی اسی وجہ سے ہمیشہ اللہ کی نظر کرم اپنے بندوں پر ہوتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ بندہ کو اس چیز پر مکمل عقیدہ ہو اور اللہ کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہ کریں امام علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كَيْفَ يُضَيَّعُ مَنِ اللّهُ كافِلُهُ، وَكَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللّه طالِبُهُ، وَ مَنِ انْقَطَعَ إ لى غَيْرِاللّهِ وَ كَّلَهُ اللّهُ إ لَيْهِ۔ جس کا نگہبان اللہ ہو وہ کیسے گمراہ اور بچارہ ہوسکتا ہے اور جس کا طلبکار اللہ ہو وہ کیسے نجات پائے گا( معصیت کار اللہ کے عذاب سے بچ نہیں پائے گا) جو شخص اللہ سے ناامید ہوکر دوسروں سے پناہ لیتا ہے اللہ اس کو اسی کا حوالہ کردے گا۔
پانچواں دستور: اپنی اوقات کی پہچان۔
ہر انسان کی زندگی میں کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں ان کی طرف توجہ زندگی کی راہ کو ہموار کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے اگر انسان اپنے اوقات بھول جائے تو زندگی کی اونچ نیچ اس کو برباد کرسکتی ہے امام اس حوالے سے فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ يَعْرِفِ الْمَوارِدَ اءعْيَتْهُ الْمَصادِرُ. جو اپنی اوقات نہیں جانتا حالات اس کو ہلاک کریں گے۔
چھٹا دستور: دوسروں کی بے جا مذمت سے پرہیز۔
ہم میں سے ہر ایک کو دوسروں کی سر زنش کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی غلطی کتنی ہے خاص کر ماں باپ اپنی اولاد کو ڈھانٹے وقت ان کی غلطیوں پر یقین پیدا کریں نہیں تو پھر بچے اکڑ جاتے ہیں اور ہم تربیت کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے۔ امام فرماتے ہیں:
مَنْ عَتَبَ مِنْ غَيْرِارْتِيابٍ اءعْتَبَ مِنْ غَيْرِاسْتِعْتابٍ۔ دوسروں کی بغیر سبب کے مذمت ان کی ناراضگی اور غصہ کا باعث ہے جبکہ ان کی رضایت بھی حاصل نہیں ہوگی۔
ساتواں دستور: عمل میں اخلاص۔
اخلاص تمام عبادتوں کی قبولیت کی راز ہے عمل میں اخلاص نہ ہونا اور ریا کاری نہ صرف عمل کے قبول نہ ہونے کا باعث ہے بلکہ گناہ کبیرہ اور شرک بھی ہے امام اخلاص کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أ فْضَلُ الْعِبادَةِ الاْ خْلاصُ۔ افضل ترین عمل یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ انجام پائے۔
آٹھواں دستور: لوگوں سے بے نیاز ہونا۔
معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کی مشکل حل کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اسلام کی نظر میں پسندیدہ امر ہے لیکن دوسروں کی طرف محتاج ہونا مومن کی عزت کے لئے نقصان دہ لہذا مومن کو چاہئے اللہ کے علاوہ دوسروں سے بے نیاز رہے فرماتے ہیں:
عِزُّالْمُؤْمِنِ غِناه عَنِ النّاسِ۔ دوسروں کے مال اور دولت سے بے نیاز ہونا مومن کی بہت بڑی عزت ہے۔
نواں دستور: عبادت کا محدودہ۔
عام طور پر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کسی کی عبادت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے جبین سائی کرے (سجدہ کرے) لیکن امام کی نظر میں عبادت کا محدودہ وسیع ہے یہاں تک کہ جس کی ہم باتیں سنتے ہیں گویا ہم اس کی عبادت کررہے ہوتے ہیں جیسے فرماتے ہیں: مَنْ أ صْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإ نْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَاللّهَ، وَ إ نْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إ بليس فَقَدْ عَبَدَ إ بليسَ۔ جو شخص جس کی بات غور سے سنتا ہے اس کا بندہ ہے لہذا اگر بولنے والا اللہ کی جانب سے بولے اور اللہ کے فرمان سنائے تو سنے والا اللہ کا بندہ ہوگا اور اگر بولنے والا خواہشات نفسانی اور شیطان کی زبان سے بولے تو سننے والا شیطان کا بندہ ہوگا۔
دسواں دستور: اللہ کی رضایت کی اہمیت۔
ہماری پوری زندگی میں اگر اللہ کی رضایت شامل رہے تو یہی ہمارے لئے کافی ہے اللہ کی خوشنودی کے ساتھ کسی اور کی ناراضگی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ امام اس حوالے سے فرماتے ہیں: لا يَضُرُّكَ سَخَطُ مَنْ رِضاهُ الْجَوْرُ. جو اللہ کی خوشنودی کا طالب ہے ظالموں کی ناراضگی اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
گیارہ واں دستور: شادی بیاہ میں دینداری معیار ہونا چاہئے۔
ایک مسلمان شخص کے لئے جس طرح زندگی کی دوسری حالات میں اچھائی اور برائی پرکھنے کی کسوٹی دینی تعلیمات اور دستورات ہونا چاہئے اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر بھی شریک حیات کے انتخاب میں معیار دینداری ہونی چاہئے امام فرماتے ہیں:
مَنْ خَطَبَ إ لَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أ مانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إ لاّ تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الاْ رْضِ وَ فَسادٌ كَبيرْ۔ اگر کوئی شخص تمہاری بیٹی سے شادی کی درخواست کرے جبکہ تم اس کی دیانتداری اور امامنت داری سے مطمئن ہو تو بیٹی ضرور اس کو دے دو نہیں تو پھر یہ زمین میں بڑے فتنہ اور فساد کا باعث ہو گا۔
بارہ واں دستور: برائی کی مخالفت۔
اسلامی طرز زندگی کے اہم اصول میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی مخالفت اور اچھائی کی طرف داری کریں امام اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحا كانَ شَريكا فيهِ۔ جو شخص کسی برے کام کی تائید کرتا ہے وہ اس برے کام کے جرم اور گناہ میں شریک ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11227