12

حضرت ابوطالبؑ اوصیاء میں سے تھے،سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی

  • News cod : 13255
  • 12 مارس 2021 - 10:51
حضرت ابوطالبؑ اوصیاء میں سے تھے،سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی
انھوں نے آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کے ساتھ اپنی گذشتہ روز کی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "آیت اللہ مکارم شیرازی نے فرمایا کہ «ہم حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کے عاشق و شیدائی ہیں»"

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، آیت اللہ رمضانی نے حضرت ابو طالب(ع) کی تکریم کی غرض سے “خانۂ کتاب و ادبیاتِ ایران” نامی ادارے میں منعقدہ محفل مشاعرہ بعنوان “محفلِ شعر آئین مستوری – تعظیمِ حضرت ابو طالب(ع)” میں اس ادبی محفل کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابو طالب(ع) کے سلسلے میں کافی کام انجام کو پہنچے ہیں اور میں اس محفل کے مہتممین اور استاد احمدی تبار کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انھوں نے مورخہ 9 سے 11 مارچ تک “حضرت ابو طالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی سیمینار” کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سیمینار میں رپورٹوں کو صحیح اور جامع انداز سے تیار کرکے ذرائع ابلاغ سے نشر کروایا جائے گا۔
انھوں نے کہا: میں شعر و ادب اور اہل حکمت شعراء کو بہت دوست رکھتا ہوں۔ کبھی ای مصرع کی تشریح کے لئے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض عبارات کو جامع شرحوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بطور مثال ایک شعر جو اس مشاعرے میں پیش کیا گیا تھا یہ تھا:
منم معلول بی علت که علت گشت پیوندم
ازل فرزند من آمد ابد فرزند فرزندم
میں اللہ کا بےنقص [مخلوق] ہوں، علت [نقص] اگر ہے کوئی تو وہ میرا اتصال ہے [عالم خاک کے ساتھ]
[میں معلول اول اور موجود اول ہوں] ازل میرا فرزند ہے اور ابد [جو ازل کے بعد آتا ہے] میرے فرزند کا فرزند۔
اور یہ شعر در حقیقت رسول اللہ(ص) کی اس حدیث نبوی کا ترجمہ ہے کہ “كُنْتُ نَبِيًّا وَآدُمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ؛ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (علیہ السلام) پانی اور مٹی کے درمیان تھے”۔ (مجلسی، بحار، 16/402)
آیت اللہ رمضانی نے کہا: ثقافتی، سماجی، سیاسی جیسے ہر شعبے میں شاعری کے اپنے خاص اسباب اور معیارات ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا: آپ حکیم ملا ہادی سبزواری کے اشعار سے انسیت رکھتے ہیں جس میں نہایت گہرے فلسفی مباحث بیان کئے گئے اور ان کی شاعری، ان کی خداداد شاعرانہ صلاحیت کی علامت ہے۔ شعر و ادب کی صلاحیت ایک فطری اور خداداد صلاحیت ہے اور آپ جیسے بعض افراد ان اس استعدادو صلاحیت کو پا لیا ہے اور اس کو ترقی اور توسیع و بالیدگی عطا کی ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا: سیاسی شعبوں میں تھے ایسے لوگ جب شاعری کرتے تھے تو یہ شاعری معاشرے میں ایک تبدیلی کا سبب بن جاتی تھی چنانچہ ان میں بعض کو جلا وطن اور کچھ کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا اور بعض کو پھانسی دی جاتی تھی۔ اہل بیت (علیہم السلام) بھی شعراء کی تعریف و تمجید کرتے تھے۔ امام سجاد (علیہ السلام) کی شان میں فَرَزدَق (هَمّام بن غالِب) کی شاعری اور امام رضا (علیہ السلام) کی شان میں دِعْبِل خُزاعی (مُحَمَّد دِعْبِلُ بْنُ عَلِی الخُزَاعِیُّ) کی شاعری کو دیکھ لیجئے، ان میں سے ہر ایک نے دینی معارف کے ایک باب کی شناخت کروائی ہے۔
سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، نے حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کی توصیف یا رثا میں شعر گوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت ابو طالب (علیہ السلام) اوصیاء میں سے تھے [اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وصی تھے]؛ آپ نے بعث رسول(ص) اور رسول اللہ(ص) کی ذات بابرکات کی فردی، معنوی و اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی حمایت سے کبھی بھی دریغ نہیں کیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان حالات میں حضرت ابو طالب (علیہ السلام) پورے وجود اور اپنی تمام تر قوت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دفاع کرتے ہیں، آپ(ص) کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں اور جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قلب مقدس اس قدر مغموم و محزون ہوجاتا ہے کہ آپ(ص) ابو طالب اور حضرت خدیجہ (علیہما السلام) کی وفات کو سال کو عام الحزن (حزن کا سال) قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کے ساتھ اپنی گذشتہ روز کی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “آیت اللہ مکارم شیرازی نے فرمایا کہ «ہم حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کے عاشق و شیدائی ہیں»”۔
آیت اللہ رمضانی – جو مجلس خبرگان میں صوبہ گیلان کے نمائندے بھی ہیں – نے کہا: مصر کے عظیم عالم محمد خلیل – جو ابو طالب(ع) کی شاعری سے انسیت رکھتے ہیں – نے آپ(ع) کے کچھ اشعار کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “کلام ابو طالب(ع) میں عشق و معرفت کی روح ضوء فشاں ہے، یہ آپ کا کلام درحقیقت اعجاز ہے، یہ کلام اسلام سے قبل اور بعد کے اسلامی ادبی ادوار میں آپ کی فصاحت اور بلاغت کا مُرَقَّع اور اپنی مثال آپ تھا۔ ان کے اشعار ان کی اعلی فکر اور قلبی ایمان کی علامت ہیں”۔
انھوں نے کہا: جناب ابو طالب (علیہ السلام) کی توحیدی عظمت بہت نمایاں ہے اور تاریخ اسلام – بالخصوص عباسی سلطنت – کے دوران ابو طالب (علیہ السلام) کے سلسلے میں سنجیدہ تحریفات ہوئی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: حضرت ابو طالب(ع) کی شخصیت میں بہت ساری عمدہ کتب اور مقالات شائع ہوئے ہیں اور ماہرانہ نشستیں بھی منعقد ہوئی ہیں؛ حتی کہ عیسائیوں نے بھی اس عظیم اسلامی شخصیت کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں، اور اہل سنت کے علماء نے بھی ہزاروں صفحات اس شخصیت کو موضوع بنا کر تحریر کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “حضرت ابو طالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی سیمینار” اس لئے ہرگز منعقد نہیں ہؤا ہے کہ محسن اسلام کے ایمان پر بحث کی جائے اور اس سلسلے میں شیعہ آراء اور بعض سنی علماء کی آراء پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے: مقصد یہ ہے کہ حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کی روحانی، علمی، سماجی اور توحیدی شخصیت و کردار کو زیر بحث لایا جائے، وہی شخصیت و کردار جو بعثت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے ماحول سازی میں بہت مؤّثر رہا اے ایسے حال میں کہ دوسروں نے آپ(ص) کو تنہا چھوڑا تھا ابو طالب(ع) نے آپ کا ساتھ دیا۔ اس سیمینار کا مقصد اسلام است تھا اسی بنا پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے بڑے علمائے کرام نے بڑی تعداد میں اس سیمینار میں شرکت کی ہے۔
انھوں نے حضرت ابو طالب(ع) کے بارے میں شام کے ایک مفتی کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام کے اہل سنت کے ایک مفتی نے کہا ہے کہ “یقینا ابو طالب(ع) مؤمن ہیں، مؤمن ہیں، مؤمن ہیں، اور جو ان کے ایمان میں شک کرے اس نے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور اس گناہ کا بوجھ اسی شخص کے کندھوں پر ہوگا”۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ایک سنی عالم دین حضرت ابو طالب(ع) کے سلسلے میں ایسے الفاظ زبان پر لاتا ہے؛ ان کی کہی ہوئی عبارت گہری، دقیق اور درست ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے آخر میں، امید ظاہر کی کہ حضرت ابو طالب(ع) کے لئے منعقدہ محفل مشاعرہ، شعر و ادب کے پہلو سے، اپنے عشق و محبت کا نذرانہ عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت کی درگاہ میں پیش کرسکی ہو۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13255