8

کسان سرکار کی توقعات سے زیادہ با ہمت ثابت

  • News cod : 13401
  • 15 مارس 2021 - 1:13
کسان سرکار کی توقعات سے زیادہ با ہمت ثابت
بی جی پی جیسی ہنگامہ آرا ماحول ساز پارٹی کے مقابلے کیلئے پہلے زمین پر موجود مسائل کے ادراک کی عینک پہن کر ہمہ گیر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے نہ ہی پرکھوں کے واقعات سنانے کی ۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قرآنی داستان میں سیاسی دھرتی پت نظام سے پنجہ آزمائی کرنے کی اسٹریٹیجی پوشیدہ ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت مسائل کے حل کی غرض سے ہوجائے تو پڑھنے کا لطف کچھ اور ہوجائے گا۔

تحریر: سید محمد .ر. موسوی

فرعون کی طرف جائیں بلاشبہ وہ سرکش ہو گیا ہے (نازعات،17)

رسالت کی ذمہ داری سونپنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے اولوالعزم نبی حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ملتا ہے کہ آپ فرعون کے پاس جائیے ۔اس اقتدار کے پجاری نے سرکش ہو کر بنی نوع آدم کو اقتدار کی ہوس کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا ہے ۔

سورہ نازعات کی یہ آیۂ کریمہ جہاں کل اقتدار رکھنے والے خالق موسیٰ ع سے کہہ رہا ہے اے موسیٰ ظالم کے قریب جا یعنی ظالم سے مت گھبرا اس سے ٹکر لینے کیلئے قدم بڑھا کیوں کے جو بھی قدم انسانی اقدار کے احیاء اور تحفظ کیلئے اٹھے گا۔ خدا اس کے ہر قدم کو مضبوط اور مستحکم بنا دے گا یہ ایک الٰہی اجتماعی قانون ہے جس کے دائرے میں سبھی مذہبی، طبقاتی نظام کے افراد آتے ہیں ۔موسیٰ نے مفلس کمزوروں کو طاغوتی سرکش نظام کے چنگل کی بھینچ دبوچ سے آزاد کرانے لئے کلمہ پڑھنے کی اپیل نہیں کی بلکہ منصوبوں پر چلنے کی اپیل کی۔ انسانی معاشرے کے اصولوں پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا جو سبھی کیلئے برابری اور مساوات کا نوید بخش پیغام تھا (نازعات/19)

کسان کی چلتی تحریک سرکار کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے آمرانہ فیصلوں کے سیلاب پر ایک اٹوٹ ناقابل تسخیر ڈیم ہے جو حالیہ سرکار کے عزائم کو دار الخلافہ دہلی کی حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی یہ قیام ملک کی ڈیموکریسی کے ترانے الاپنے والی چھوٹی دیگر تنظیموں کے لیئے اعلیٰ عملی نمونہ بن رہا ہے مگر فرعونی مزاج رکھنے والے ستا دھاری دلوں نے سدا تبدیلیاں کی مخالفت کرتے آئے ہیں جیسا کہ قرآن نے فرعون کے بارے میں فرمایا:ثُمَّ اَدبَرَ یَسعی(پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا).

اس تحریک کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس کے خلاف پورے ملک میں ایک پرتشدد ذہنیت تیار ہوجائے جیسا کہ گزشتہ برس شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تیار کی گئی تھی اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ “سی اے اے” کی مخالفت کرنے والےغدار ہیں جہادی ہیں ماؤ نواز ہیں اس کو بدنام کرنے کے لیے پورے سماج بالخصوص ہندؤں کے اندر نفرت پیدا کی گئی اوراسی کے نتیجے میں تحریک چلانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

ایسی گھمبیر صورتحال میں جب حکومت کسی تحریک کو بدنام کرنے میں پوری طرح سے مگن ہے تو اس کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو سنجیددہ تصور کرنا بہت مشکل ہے۔

منچلے سورما کسانوں نے سرکار کے مذاکرات اور منصوبوں کی نبض پکڑ نیت کی خرابی اور بیماری کا خوب جائزہ لیا ہے بی جی پی مختلف طریقوں سے دیش بھگتی، سیکولرازم … کا نقاب لگا کر اصلی چہرہ چپھانے کے در پے ہے اسی بابت کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ نے کہا جس کسان کے وجود کو زرعی قوانین کی بیماریوں سے خطرہ ہو وہ سڑک پر ہی آئے گا اور اپنے وجود کا بلند فریاد کرے گا۔

جن کے مضبوط ارادے بنے پہچان ان کی

منزلیں آپ ہی ہو جاتی ہیں آسان ان کی

مودی حکومت کسانوں کو آہستہ آہستہ کر کے ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ بالطبع کیپٹلزم کی شدید نئی آندھی کی آمد کا اشارہ ہے۔ کسان ، حکومت کی اس پالیسی کو سمجھ چکے ہیں آخر اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے ؛ اس لیے انہوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کا راستہ اختیار کیا اب سوال یہ ہے چلے تو دونوں ہیں شاہین باغ کے دھرنے بھی اور کسان کے بھی ۔ لیکن کامیابی و پیشرفت کسان کو نصیب ہوگئی ۔ اسباب کیا تھے ؟

شاید جواب کا آغاز یہاں سے ہوسکے کہ خوش نما نظارہ کسانوں کی تحریک کے دوران میں گزشتہ دہائی جمعہ کو دیکھنے ملا جن میں خواتین بھی شامل ہیں نماز پڑھ رہے ہیں اور سکھ اور جاٹ کسان ان کے گرد حفاظتی دیوار بن کر کھڑے ہوے ہیں یہ تصویر حوصلہ بڑھاتی ہے امید بڑھاتی ہے کہ سارا ملک اگر بلا تفریق مذہب اور ذات پات ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو کوئی انہیں ہرا نہیں سکتا۔

کسانوں کے اتحاد میں ہمارے لیے سبق ہے، تفریق پیدا کرنے، دراڑ ڈالنے، برتری پسندی کی ہر سازش نے اتحاد ناکام کر دیا ہے کسان قائدین نے تحریک کے مدعے کسی مذہب یا تنظیم سے نہیں بلکہ زمین ہی سے جوڑا اسے عوامی مسئلہ بنا کر بکھرنے نہیں دیا لیکن شاہین باغ میں اس کے بر عکس، رنگ اور مدعا سارا مسلمانوں کا تھا ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ شہری فرض ہے کہ ہندوستان کے ہندوؤں سے کامل سچائی کے ساتھ عہد اور محبت کا پیمان باندھ لیں۔ رحمت العالمین تمام غیر مسلمان قبیلوں سے جو مدینہ کے اطراف میں بستے ہوئے تھے صلح و اتفاق سے کام لیا تھا۔ اپنے عہد نامہ کے پراسپیکٹیو میں “امة واحدة ” کا تعین یعنی سب سے ایک قوم بنے رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ اگر مسلمانوں نے محبت کا ہاتھ یکجہتی کا ہاتھ اپنے ہندو بھائیوں کی طرف بڑھایا تو ان کا یہ عمل محض کوئی وقتی اور دفاعی نہیں صرف پلوٹیکل چال نہیں بلکہ ان کو یقین کرنا چاہیے کہ مسلمانوں نے محبت کی آغوش خود نہیں فطری مذہب نے کھلوائی ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا : اس ملک کی تاریخ رہی ہے کہ مسلمان اپنے ہندو بھائیوں سے تمام کاموں میں الگ تھلگ تھے علی گڑھ کی پالیسی حتمی قومی پالیسی سمجھی جاتی رہی کہ وہ ہندؤں سے علیحدہ رہیں عدم اطمینان کے تلے دبے اعتماد کی عمارت کو سخت مرمت کی حاجت ہے۔

بی جی پی جیسی ہنگامہ آرا ماحول ساز پارٹی کے مقابلے کیلئے پہلے زمین پر موجود مسائل کے ادراک کی عینک پہن کر ہمہ گیر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے نہ ہی پرکھوں کے واقعات سنانے کی ۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قرآنی داستان میں سیاسی دھرتی پت نظام سے پنجہ آزمائی کرنے کی اسٹریٹیجی پوشیدہ ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت مسائل کے حل کی غرض سے ہوجائے تو پڑھنے کا لطف کچھ اور ہوجائے گا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13401