14

امام سجادعلیہ السلام اور عبادات الٰہی

  • News cod : 13569
  • 19 مارس 2021 - 9:17
امام سجادعلیہ السلام اور عبادات الٰہی
حضرت علی زین العابدین ع صورت سیرت کردار گفتار زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت ، صبرواستقلال، ضیافت ومہمان نوازی فقراء وغرباء پروری ہر اعتبار سے حضرت علی ع کے مشابہ تھے۔

تحریر : احمد علی جواہری
امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار و اطاعت گذار تھے۔ آپ ؑ کی عظیم عبادت کے مانند کوئی نہیں تھا، متقین اور صالحین آپ کی عبادت کی وجہ سے متعجب تھے، تاریخ اسلام میں صرف آپ ؑ ہی وہ واحد شخصیت ہے جس کو زین العابدین اور سید الساجدین کا لقب دیا گیا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا زمانہ امامت اہل بیت رسول اور محبان اہل بیت ؑ کے لیے انتہائی مشکل تھا حکمرانوں کا ظلم وستم عروج پر تھا ہر طرف قتل وغارت کا بازار گرم تھا اسلام کا شیرازہ منتشر ہوچکاتھا تعلیمات پیغمبر ؐ کو دانستہ طور پر پامال کیاجارہاتھا۔ حجاج جیسے ظالم امراء محبان اہل بیت ؑ کو چن چن کر قتل کررہے تھے بنی ہاشم شدید مظالم کاشکار تھے بادشاہانِ وقت امام ؑ کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے ۔

ایسے دور میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ امام ہدایت خلق اور تعلیمات محمد وآل محمد کے فرائض آزادانہ طور پر سر انجام دے سکیں نہ تقریر کی آزادی نہ اجتماع کی اجازت آپ نہ اپنے داداعلیؑ ابن ابی طالب کی طرح خطبوں (تقریروں ) کے ذریعہ سے دُنیا کوعلوم ومعارف اور الٰہیات وغیرہ کی تعلیم دے سکتے تھے، نہ ان کے لیے اس کاموقع تھا کہ وہ اپنے بیٹے امام محمد باقر یااپنے پوتے جعفر صادق ؑ کی طرح شاگردوں کے مجمع میں علمی ودینی مسائل حل کریں اور دنیا کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں ۔ یہ سب باتیں وہ تھیں جو اس وقت کی فضا کے لحاظ سے غیر ممکن تھے لہٰذا امام ؑ نے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا جو بالکل پُر امن تھا اور جسے روکنے کادنیا کی کسی طاقت کو کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا وہ یہ تھا کہ تمام دنیا والوں سے منہ موڑ کر وہ اپنے خالق سے مناجات کرتے اور دعائیں پڑھتے تھے ۔ دعاؤں کے ذریعہ ہدایت وتعلیم کے فرائض انجام دینے کا طریقہ جو مؤثر بھی تھا اور پرامن بھی جو ناقابل اعتراض بھی تھا اور ناقابل گرفت بھی۔آپ نے اپنی دعاؤں کے ذریعہ خداکی وحدانیت ، رسول کی رسالت اور آئمہ اہل بیت ؑ کی امامت کی تعلیم فرمائی آپ کی دعائیں حقائق ومعارف کا گنجینہ اور ہدایت وتعلیمات اسلامی کا خزانہ ہیں آپ کی دعاؤں کا مجموعہ کتابی شکل میں صحیفہ کاملہ اور صحیفہ سجادیہ کے نام سے منسوب ہے۔ــ’’اس کتاب کو علمائے اسلام نے زبور آل محمد اور انجیل اہلبیت ؑ کہا ہے‘‘[1]۔

دعا! خدا اور بندے، خالق و مخلوق، عبد و معبود کے درمیان ایک خاص رابطہ کا نام ہے۔ یعنی خدا اور بندے کے درمیان ایک ارتباطی پل ہے۔ جیسے جیسے بندے کی شناخت اور معرفت اپنے خدا سے بڑھتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی دعا میں خضوع وخشوع بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خضوع و خشوع ہی ہے جو دعا کی استجابت میں جادوئی اثر دکھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انبیا اور ا ئمہ علیہم السلام دعا مانگتے ہیں اور ان کے ہاتھ خدا کی بارگاہ میں بلند ہوتے ہیں تو دعا کا مستجاب ہونا یقینی ہے کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جو خدا کی بارگاہ میں نہایت خضوع و خشوع سے کام لیتے ہیں اور اس کی معرفت کو کما حقہ درک کرتے ہیں لہذا یہ ہوہی نہیں سکتا کہ خدا ان کی دعا کو مستجاب نہ کرے بلکہ اگر ان کے توسط سے کوئی خاطی انسان بھی دعا مانگتاہے تو خدا اس کے خلوص کی رعایت کرتے ہوئے اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو خالی قرار نہیں دیتا۔

ائمہ اور انبیا علیہم السلام کی طرح چوتھے امام، امام سجاد علیہ السلام کی دعائیں بھی دائرہ استجابت ہی میں محصور نہیں رہیں بلکہ ان کی دعائوں نے اس میدان میں ایک خصوصی اہمیت حاصل کی۔ آپ کی دعائیں! معنوی، عرفانی، تربیتی، علمی، اعتقادی، اور قوانین جہاد پر مشتمل ہیں آپ نے اپنی دعائوں کے ذریعہ اپنے زمانے کے دشمن سے مبارزہ کیا اور اپنے شیعوں کے رشد و نمو کی خاطر زینہ ہموار کیا ہے۔

حضرت علی زین العابدین علیہ السلام سلسلہ امامت کے دوسرے علی ؑ تھے جو صورت سیرت کردار گفتار زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت ، صبرواستقلال، ضیافت ومہمان نوازی فقراء وغرباء پروری ہر اعتبار سے پہلے علی ؑ یعنی حضرت علی علیہ السلام ابن ابو طالب علیہ السلام کے مشابہ تھے۔

امام زین العابدین ،سید سجاد، عبادتوں کی زینت ، بندگی اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح، سید سجاد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی ، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائی عطا کردی ،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایہ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادہ بندگی اور زمین صحیفہ زندگی بنی ہوئی ہے۔آپ کی ” صحیفہ سجادیہ ” کا ایک ایک ورق عطر جنت میں بسا ہوا ہے اور آپ کی صحیفہ کاملہ کاایک ایک لفظ وحی الہی کا ترجمان ہے اسی لئے اس کو ” زبور آل محمد ” کہتے ہیں آپ خود سجاد بھی ہیں اور سید سجاد بھی ،عابد بھی ہیں اور زین العابدین بھی۔

اس کی فصاحت وبلاغت معانی کو دیکھ کر اس کتاب کو صحف سماویہ اور صحف لوحیہ کا درجہ دیاگیاہے [2]۔

راویوں نے نماز کی حالت میں آپ کی صفت یوں بیان کی ہے :جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا ،آپ کے اعضاء اللہ کے خوف سے کانپ جاتے ،آپ نماز میں اس طرح کھڑے ہوتے تھے جیسے ایک ذلیل بندہ بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہواور آپ نماز کو آخری نماز سمجھ کر بجالاتے تھے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے نماز میں خشوع کے سلسلہ میں یوں فرمایا ہے : ’’کَانَ عَلِیّْ ابنْ الحْسَینِ اِذَاقَامَ فِی الصَّلَاۃ کَاَنَّہْ سَاقْ شَجَرَۃٍ لَایَتَحَرَّکْ مِنہْ شَیئا اِلَّا مَاحَرَّکَتِ الرِّیحْ مِنہْ ‘‘[3]۔

’’علی بن الحسین ؑ نماز میں اس درخت کے تنے کے مانند کھڑے ہوتے جس کو اسی کی ہوا کے علاوہ کو ئی اور چیز ہلا نہیں سکتی ‘‘۔

نماز میں آپ ؑ کا خشوع اتنا زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس وقت تک نہیں اٹھا تے تھے جب تک کہ آپ ؑ کوپسینہ نہ آجا ئے ،یاگویا کہ آپؑ اپنے آنسؤوں اور گریہ کی وجہ سے پا نی میں ڈوب گئے ہوں۔[4]

امام زین العابدین علیہ السلام بہت زیادہ سجدے کرتے خضوع کرتے اور اللہ کے سامنے خود کو بہت زیادہ ذلیل سمجھتے تھے راویوں کا کہنا ہے :ایک مرتبہ آپ ؑ صحرا کی طرف تشریف لے گئے ایک شخص نے آپ کو تلاش کیا تو آپ ؑ کو ایک سخت پتھر پر سجدہ کر تے ہوئے دیکھا اس نے آپ ؑ کوہزار مرتبہ یہ کہتے سنا:

’’لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہْ حَقّاً حَقّاً،لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تَعَبّْداً وَرِقّاًلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ اِیمَاناً وَصِدقاً‘‘۔[5]

آپ ؑ سجدہ شکر میں سو مرتبہ کہتے :’’اَلحَمدْ لِلّٰہِ شْکراً ‘‘اس کے بعد کہتے :’’یَاذَالمَنِّ اَلَّذِی لَا یَنقَطِعْ اَبَداً،وَلَایْحصِیہِ غَیرَہْ عَدَداً،وَیَاذَاالمَعرْوفِ اَلَّذِی لَایَنفَدْ بَداًیَاکَرِیمْ یَاکَرِیمْ‘‘اس کے بعد گریہ و زاری کر تے اور اپنی حاجت طلب کرتے ۔

آپ ؑ کے پاس بیٹھنے والوںمیں سے بعض نے سوال کیا :آپ اللہ کی عبادت کیوں کر تے ہیں ؟

آپ ؑ نے اپنے خالص ایمان کے ذریعہ جواب میں فرمایا:’’اَعبْدْہْ لِمَاھْوَاَھلْہْ بِاَیَادِیہِ وَاِنعَامِہِ۔۔۔‘‘[6]۔

اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ ؑ معرفت خدا کی بنا پر اس کی عبادت کر تے تھے ،نہ ہی آپ کو اس کا کو ئی لالچ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کو ئی خوف تھا ،آپ میں یہ حالت خدا پر عمیق ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،جیسا کہ عبادت کی اقسام کے متعلق آپ ؑ نے فرمایا ہے :

’’اِنَّ قَوماًعَبَدْوااللّٰہَ عَزّوَجَلَّ رَھبۃً فَتِلکَ عِبَادَۃْ العَبِیدِ وَآخَرِینَ عَبَدْوارَغبَۃً فَتِلکَ عِبَادَۃْ التّْجَّاروَقَوماعَبَدْوااللّٰہَ شْکراً فَتِلکَ عِبَادَۃْ الاحرارِ۔۔۔‘‘۔[7]

’’جو لوگ کسی چیز (جنت )کی خواہش میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی کسی چیز (جہنم )کے خوف سے عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور جو لوگ شکر کے عنوان سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے ‘‘۔

“حلیۃ الاولیاء”، “صواعق محرقہ”سے یہ واقعہ منقول کیاہے کہ جب ہشام بن عبدالملک اپنے باپ کے زمانہ میں حج کے لیے آیا اور حجر اسود کا بوسہ لینا چاہا زیادہ رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا مجبوراً ایک طرف بیٹھ کر مجمع کو دیکھنے لگا اس کے گرد سرداریان شام نے حلقہ کرلیا تاکہ شہزادگی سب پر عیاں ہو۔

اتنے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام طواف کے لیے تشریف لائے جب انہوںنے حجر اسود کی جانب رخ کیا تو لوگ فوراً ادھر اُدھر ہٹ گئے اعیان شام میں سے ایک شخص نے ہشام سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ ہشام نے اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو اہل شام کا میلان حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت وخلافت کی جانب ہوجائے کہا کہ “میں اس شخص کو نہیں جانتا” اتفاقاً اُس مجمع میں فرزدق شاعر بھی موجود تھا فرزدق سے رہا نہ گیا اور اُس نے شامیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہا: اس شخص کو میں جانتا ہوں مجھ سے سنو کہ یہ کون شخص ہے؟ اور برملا یہ قصیدہ پڑھا:

ھٰذا الذی تعرف البطحاء وراتہ والبیت یعرفہ الحل وحرم

یہ وہ شخص ہے جس کو خانہ کعبہ اور حل وحرم سب پہچانتے ہیں اور جس کے قدم رکھنے کی جگہ کو زمین بطحا بھی محسوس کرلیتی ہے۔ (الی آخر)

آپ کی عبادت کا یہ عالم تھا آپ قائم اللیل اورصائم النہار یعنی راتوں کو نماز پڑھتے اور د ن میں روزے رکھتے تھے شب وروز میں ایک ہزار رکعات نماز ادا کرتے تھے۔[8]

وقت نماز آپ کے جسم میں لرزہ طاری رہتاتھا جب وضو فرماتے تو چہرہ مبارک کا رنگ زرد پڑجاتا تھا لوگ اس کا سبب دریافت کرتے تو آپ فرماتے “کیا تم نہیں جانتے کہ میں کس قادر مطلق کی بارگاہ میں حاضر ہوتاہوں اور کس سے مناجات کرتاہوں”۔ [9]

کثرت عبادت سے آپ کے موضع سجود مانند زانوئے شتر کے سخت ہوگئے تھے۔[10]

آپ کا لقب سجاد یعنی کثرت سے سجدہ کرنے والا چونکہ آپ سے زیادہ سجدے کرنے والا کوئی نہ تھا اس لیے آپ کا ایک لقب سید الساجدین یعنی سجدے کرنے والوں کا سردار بھی مشہور ہے۔سرکار امام ؑ جب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو لوگ آپ کے گرد جمع ہوجاتے اور اس قدر محویت کے عالم میں آپ کی تلاوت سنتے کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہ ہوتی۔ آپ پاپیادہ حج کرتے نہ آپ کے پاس سواری ہوتی اور نہ زاد راہ ۔ عام طور پر یہ سفر بیس روز میں تنہا طے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حج کے موقع پرا یسا ہو اکہ احرام باندھتے وقت لبیک(حاضر ہوں) کہنا چاہا تو چہرہ کارنگ اڑگیا اور تمام جسم میں لرزہ پڑگیا اور کسی طرح لبیک نہ کہا گیا ۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا، میں سوچتا ہوں کہ شاید میں لبیک کہوں اور اس بارگاہ سے یہ آواز آئے کہ لالبیک (حاضری کی اجازت نہیں ) یہ فرماکر اتنا روئے کہ غش آگیا ۔ اس دور میں کہ جب دنیا کے دل پر دنیوی بادشاہوں کی عظمت کااثر تھا اور خالق کو بالکل بھول چکی تھی ۔ سیّد سجادؑ ہی تھے جن کی زندگی خالق کی عظمت کااحسا س پیدا کرتی تھی ۔

آپ کا مطمع نظر معبود کی عبادت اور خالق کی معرفت میں استغراق کامل تھا آپ عبادت کی اس منزل پر فائز تھے جس پر کوئی بھی فائز نہیں ہوا۔[11]

محویت عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے مکان میں آگ لگ گئی لوگوں نے آگ آگ کا شور کیا لیکن آپ بلا تردد عبادت میں مشغول رہے حتی کہ آگ بجھ گئی جب آپ عبادت سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے کہا فرزند رسول آپ کے مکان میں آگ لگی اور آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی آپ نے فرمایا میں آخرت کی آگ بجھانے میں مصروف تھا۔ [12]

امام زہری اور امام مالک کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آپ بڑے متقی عابد وزاہد تھے ان سے بڑھ کر علم دین کا عالم نہیں پایا اور وہ پوشیدہ طور پر صدقہ دیاکرتے تھے۔ [13]

حلیۃ الاولیاء میں ابو حازم کابیان ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام سے بڑھ کر فقیہ اور صاحب ورع وتقویٰ کسی کو نہیں دیکھا۔

یحییٰ عامری نے ریاض مستطایہ میں لکھا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات والا صفات پر علم وعبادت کا خاتمہ تھا۔ [14]

آپ شب وروز میں اتنی دعائیں پڑھتے تھے کہ ایک مشترکہ جماعت بھی اتنی دعائیں نہیں پڑھ سکتی۔ [15]

ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میرے والد علی ابن الحسین علیہمالسلام جب کبھی کسی نعمت کو یاد کرتے تو اس کاشکرانہ میں سجدہ کرتے اور قرآن کی آیت سجدہ کی جب تلاوت کرتے تو سجدہ کرتے جب خداوند عالم کسی برائی کو ان سے دور کرتا کہ جس کا انہیں ڈر ہوتا یا کسی مکر کرنے والے کے مکر کو ان سے پھیر دیتاتو سجدہ کرتے اور جب واجب نماز سے فارغ ہوتے تو سجدہ کرتے اور جب آپ دو اشخاص کے درمیان مصالحت کراتے تو اس کے تشکر میں سجدہ کرتے اور سجدہ کا اثر ونشان آپ کے تمام مواضع سجود میں تھا اس لیے آپ کو سجاد کہتے تھے۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے یہ روایت بھی ہے کہ میرے والد گرامی کے سجدہ کی جگہوں میں نشان واضح اور ابھرے ہوئے تھے کہ جن کے بڑھاؤ کو آپ سال میں دومرتبہ کٹواتے تھے اورہر مرتبہ پانچ جگہوں کے گٹھے کٹواتے تھے اس لیے آپ کو ذوالثفنات (یعنی گٹھوں والا) کہتے تھے۔

روایت ہے کہ جب زہری حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت کرتا تو کہتا کہ مجھے امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے خبر دی ہے سفیان بن عینیہ نے پوچھا کہ حضرت کو زین العابدین کیوںکہتے ہو کہنے لگا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سعید بن مسیب سے سُنا ہے اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو منادی نداکرے گا کہ زین العابدین ؑ کہاں ہیں؟پس گویا میں دیکھ رہاہوں کہ میرا بیٹا علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب علیہم السلام اس وقت پورے وقار وسکون کے ساتھ اہل محشر کی صفوں کو چیر تے ہوئے آئے گاکشف الغمہ میں ہے کہ آپ کے زین العابدین ؑ کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک رات آپ محراب میں عبادت تہجد کے لیے کھڑے ہوئے تھے پس شیطان ایک بہت بڑے اژدھے کی صورت میں ظاہر ہوا تاکہ حضرت کو عبادت سے اپنی طرف مشغول رکھے آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے پس وہ لعین آگے بڑھا اور اس نے آپ کے پاؤں کا انگوٹھا منہ میں لے کر چبانا شروع کردیا کہ جس سے آپ کو تکلیف ہوئی لیکن پھر بھی آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ شیطان ہے آپ نے اس پر لعنت کی اور اس کے منہ پر طمانچہ لگایا اور فرمایا دفع ہوجا ملعون اور دوبارہ عبادت میں مصروف ہوگئے اُس وقت ندا سنی گئی کہ جس نے آپ کو پکار کر تین مرتبہ کہا کہ انت زین العابدین یعنی تو عبادت گزاروں کی زینت ہے تب یہ لقب لوگوں میں بھی ظاہر اور مشہور ہوگیا۔

طبقات ابن سعد کے حوالے سے علامہ سبط ابن جوزی نے تحریر کیاہے کہ “علی بن حسین ؑ قابل وثوق مأمون کثیر الحدیث، بلند مرتبہ، رفیع القدر، پرہیزگار، عابد اور خوف خدا رکھنے والے تھے”۔[16]

کتاب “صحیفہ کاملہ”جناب امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کا مجموعہ ہے اس میں بے شمار علوم وفنون کے جوہر موجود ہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے ۔ [17]

اس کتاب کو علمائے اسلام نے زبور آل محمد اور انجیل اہلبیت ؑ کہا ہے۔ [18]

اس کی فصاحت وبلاغت معانی کو دیکھ کر اس کتاب کو صحف سماویہ اور صحف لوحیہ کا درجہ دیاگیاہے ۔ [19]

علامہ طبرسی نے ایک واقعہ اس طرح بیان کیاہے کہ ایک شخص نے امام ؑ سے کہا کہ فلاں شخص آپ کو گمراہ اور بدعتی کہتاہے آپ نے فرمایا “افسوس ہے کہ تم نے اس کی ہم نشینی اور دوستی کا کوئی خیال نہیں کیا اور اس کی برائی مجھ سے بیان کردی دیکھو یہ غیبت ہے اب ایسا نہ کرنا”۔ [20]

“حلیۃ الاولیاء”میں شیبہ بن نعمان سے روایت کی ہے جسے دیگر مورخین نے بھی لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں کو بخشش وعطا فرماتے تھے اور جب آپ کی رحلت ہوئی تو لوگوں کو معلوم ہوا آپ مدینہ کے ایک سوخاندانوں کی پرورش فرماتے تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ روٹیوں کا تھیلہ اپنی پشت پر لا د کر رات کو لے جاتے اور تقسیم فرماتے تھے اہل مدینہ کہاکرتے تھے کہ ہم صدقہ نامعلوم سے علی بن حسین ؑ کی وفات کے بعد ہی محروم ہوئے۔ [21]

جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو آپ خوش ومسرور ہوجاتے تھے اور فرماتے “خدا تیرا بھلا کرے کہ تو میرا زاد راہ اُٹھا نے کے لیے آگیا”۔[22]

منابع

1.ینابیع المودة (سلیمان بن ابراهیم قندوزی):نجف، مكتبۃ الحیدریۃ، 1384 ه۔ ‏‏1965 م، ج‏1 – 2، ص ص‏599، 630،

2.ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین ، مدنی، سید سلطان ، موسسہ آل البیت ، مقدمہ ، صفحہ ٤ و ٥

3.سوابق محرقہ، مترجم علامہ اختر فتح پور، برق موزان۔ ایس ایم اشتیاق پرنٹرز

4.بحار الانوار ج۶۴

5.تذکرۃ الخواص

[1]ینابیع المودۃ ص۴۹۹

[2] ریاض السالکین ص۱

[3] تہذیب الاحکام، جلد ۲،صفحہ ۶۸۲۔بحارالانوار ،جلد ۶۴،صفحہ ۹۷

[4] بحارالانوار، جلد ۶۴، صفحہ ۸۰۱

[5] وسا ئل الشیعہ ،جلد ۴، صفحہ ۱۸۹

[6] تفسیر العسکری صفحہ ۲۳۱

[7] صفوۃالصفوۃ ،جلد ۲ ،صفحہ ۳۵

[8] صواعق محرقہ ص۱۱۹، تاریخ احمدی ص۳۲۹

[9] تاریخ احمدی ص۳۲۹ ، مطالب السؤل ص۲۶۲، تذکرۃ الخواص ص۳۸۵

[10]تاریخ احمدی ص۳۳۰، کشف الغمہ ص۹۰

[11]دمعہ ساکبہ ص۴۳۹

[12]تذکرۃ الخواص ص۳۸۵، شواہد النبوۃ ص۱۷۷

[13]تاریخ احمدی ص۳۲۹

[14] تاریخ احمدی ص۳۳۰

[15]رسول اور اہل بیت ؑرسول ص۹۳

[16] تذکرۃ الخواص ص۳۸۳

[17]معالم العلماء ص۱

[18]ینابیع المودۃ ص۴۹۹

[19]ریاض السالکین ص۱

[20]احتجاج طبرسی ص۳۰۴

[21]تذکرۃ الخواص ص۳۸۷، نورالابصارص۱۲۶

[22]مطالب السؤل ۲۶۳

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13569