11

الہی قیادت معاشرے کو خدا کی طرف بلائے تو پھر معاشرہ الہی بن جائے گا، علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی

  • News cod : 15627
  • 16 آوریل 2021 - 16:23
الہی قیادت معاشرے کو خدا کی طرف بلائے تو پھر معاشرہ الہی بن جائے گا، علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد اور محقق حجت الاسلام ڈاکٹر شیخ یعقوب بشوی نے"سورہ مبارکہ انفطار کی آیت نمبر6 يَاأَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں ایک سو تین مرتبہ صبر کا ذکر ہوا ہے صبر کو اگر اخلاقیات میں دیکھے جس طرح عبادت میں سب سے برترین عبادت نماز ہے اسی طرح صفات اخلاقیہ میں جو سب سے برتر ہے وہ صبر ہے اسی وجہ سے ہمیں قرآن مجید میں اس کا بار بار تذکرہ ملتا ہے اور بار بار صابرین کے لئے بشارتیں اور خوشخبریاں دی جارہی ہیں اور صابرین سے خطاب کرتے ہوئے خدا نے ارشاد فرمایا:"ان اللہ مع الصابرین"

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد اور محقق حجت الاسلام ڈاکٹر شیخ یعقوب بشوی نےسورہ مبارکہ عصر کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں صبر ایک خاص اہمیت کا حامل موضوع ہے اور معاشرے کے مختلف امور میں صبر کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

حجت الاسلام شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ سورہ مبارکہ عصر میں خداوند خسارت انسانی سے قسم کھاتا ہے لیکن آگے بڑھ کر صبر کی تلقین فرماتا ہے ،صبر ایمان کے بغیر بے معنی ہے ، یہی ایمان ہے جو صبر کے مادے کو پروان چڑھاتا ہے اور نیک اعمال ایمان کا نتیجہ ہیں۔

استاد جامعہ المصطفی نے مزید کہا کہ سورہ مبارکہ عصر میں خداوند متعال نے صبر کرنے کی وصیت اور تلقین فرمائی ہے اسے اس موضوع کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، ہمارے دینی امور میں ایک وصیت خاص ہے جیسا کہ کوئی دنیا سے انتقال کر جانے والا ہو تو وہ وصیت کرتا ہے لیکن “وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ” زندہ رہنے والے تمام انسانوں کیلئے ہے۔

حجت الاسلام استاد بشوی نے صبر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صبر انسانی ارادوں کو مستحکم کرتا ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں انرجی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ مل جاتا ہے اور صبر کرنے والے افراد کیلئے زندگی میں پیش آنے والی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر 177″وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَاٴْسِ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُتَّقُون”کے ذیل میں بیان شدہ صابرین کی نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے اس آیت میں صابرین کی تین اہم نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے،ہمیں کہاں کہاں صبر کرنا ہوگا؟

صابرین کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ فقر و تنگدستی میں صبر کرتے ہیں،فقر و تنگدستی کی وجہ سے ہمارا ایمان کمزور نہ ہونے پائے۔

صابرین کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ ضرر و زیاں میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں ، آیت میں لفظ “وَالضَّرَّاءِ” آیا ہے ، اس کا ایک مطلب، جسمانی،مالی اورجانی نقصان سمیت اولاد کا والدین سے بچھڑنا ہے،ان نقصانات کا تحمل بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔

لفظ “وَالضَّرَّاءِ” کا ایک مطلب، بیماری،درد و الم اور زخم ہے اور ان مواقع پر صبر کا دامن تھامے رکھنا،مصیبت پر صبر کی مانند ہے اور انسان کو کامیابی عطا کرتا ہے۔

صابرین کی تیسری نشانی یہ ہے کہ وہ حق و باطل اور جنگوں میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں،”وَحِینَ الْبَاٴْسِ”جنگ کے دوران صبر کا مظاہرہ کرنا بہت ہی اہم مسئلہ ہے،آیت مجیدہ میں لفظ “بَأْسْ”سے مراد جنگ کی شدت ہے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے ، مولا فرماتے ہیں:عَنْ عَلِيٍّ قَالَ:”كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَكُونُ مِنَّا أَحَدٌ أَقْرَبَ إِلَى الْقَوْمِ مِنْه.ُ”جب جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا تھا تو ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی پناہ لیتے تھے ، اس حدیث سے رسول اکرم (ص) کی شجاعت اور الہی شخصیت سمجھ آتی ہے۔لہذا اس آیت کریمہ سے صابرین اور اہل استقامت کی نشانیاں واضح ہو جاتی ہیں۔

“سورہ مبارکہ انفطار کی آیت نمبر6 يَاأَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ”کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں ایک سو تین مرتبہ صبر کا ذکر ہوا ہے صبر کو اگر اخلاقیات میں دیکھے جس طرح عبادت میں سب سے برترین عبادت نماز ہے اسی طرح صفات اخلاقیہ میں جو سب سے برتر ہے وہ صبر ہے اسی وجہ سے ہمیں قرآن مجید میں اس کا بار بار تذکرہ ملتا ہے اور بار بار صابرین کے لئے بشارتیں اور خوشخبریاں دی جارہی ہیں اور صابرین سے خطاب کرتے ہوئے خدا نے ارشاد فرمایا:”ان اللہ مع الصابرین” صبر کا رتبہ اتنا بڑا ہے کہ خود اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےیعنی پروردگار کی معیت صابرین کو حاصل ہوتی ہے پس اس سے بڑھ کر کوئی تمغہ نہیں مل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ صبر ایک ایسا امر الہی ہے کہ پروردگار نے اپنے رسول(ص)کو جس طرح نماز کاحکم دیا اسی طرح اجتماعی امور میں صبر سے کام لینے کا حکم بھی دیا ہے اور قوت برداشت والے نبیوں کی طرح صبر کرو اس لئے کہ اجتماعی مسائل میں جو بھی آگے آجائیں اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی توقعات اس سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور معاشرے کے ہر فرد کی نگاہ اس معاشرتی امور میں مداخلت کرنے والے کی طرف ہے تو خدا نے جن کےلئے منصب ہدایت دیا اگر ان پر کسی قسم کے حملے ہوجائے، انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر بشوی نے مزید بتایا کہ اگر ہم صبر کرنے والے کی طاقت اور قوت کا اندازہ کرنا چاہیں تو پروردگار عالم سورہ مبارکہ انفال کی آیت نمبر 65 -66 میں پیغمبر اسلام (ص) کو مخاطب قرار دے کر صبر کے پھل اور صبر کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئےارشاد فرمارہا ہے” یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِاٴَنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَفْقَھُونَ.
الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ اٴَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اٴَلْفٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَ” پیغمبر کو دستور ہے کہ مومنین کا ابھارے جھاد کےلئے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کےلئے چونکہ ہر زمانے کے مطابق دشمنوں سے لڑنے کا امر ہوتا ہے کبھی ممکن ہے دشمنوں سے لڑے تلوار کے ذریعے کبھی اسلحہ کے ذریعے اور کبھی دشمنوں سے لڑیں گے نظریات کے ذریعے آیڈیالوجی کے ذریعے آپ جہاں بینی جو توحیدی ہے اس کے ساتھ دشمنوں سے لڑیں گے تو لڑنے کے مختلف مصادیق ہیں لیکن پیغمبر کو دستور ہے کہ مومنین کو تیار کرو چونکہ رہبر الہی کا کام، معاشرے میں بیداری پیدا کرنا ہے جو لوگ اجتماعی امور سے واقف نہیں ہیں اور جو لوگ مقصد زندگی سے دور ہیں جنہیں زندگی کے مقصد کا علم نہیں ہے، الہی قیادت لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلاتی، بلکہ “اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ ” الہی قیادت معاشرے کو خدا کی طرف بلائے تو پھر معاشرہ الہی بن جائے گا چونکہ ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی طرف بلاتے ہے اسی وجہ سے ہم ناکام ہیں تو جو ظاہری طور پر ہمیں کوئی کامیابی ملے تو کامیابی نہیں ہے اس لئے کہ ہدف معین نہیں ہے اگر انسان معاشرے میں لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو قرآن کی نگاہ میں یہ ایک منفی رول اور کردار ہے اس کی قرآن نفی کرتا ہے پس خداوند عالم امر کر رہا ہے کہ مومنین کو تیار کرے برانگیختہ کرے جہاد کےلئے اور مختلف محاذ جیسے فکری،ثقافتی،سماجی اور سیاسی محاذوں کی طرف مومنین کو بلائے۔

حجت الاسلام شیخ یعقوب بشوی نے قیادت الہی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ پروردگار عالم مومنین کےلئے ایک بہت بڑی خوشخبری دے رہا ہے چونکہ قیادت الہی مومنین کے ہاتھ میں ہے اسی لئے قیادت کی طرف متوجہ کر رہا ہے” یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَال” بلانے والا اگر الہی قیادت ہو تو کیا تبدیلی آئے گی  مومنین کی طاقت میں کتنا وزن پیدا ہوگا۔خداوند سورہ مبارکہ انفال کی 65ویں آیت میں یہی فرما رہا ہے”إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ” اگر ایمان والے بیس ہوں گے تو وہ دوسو بندوں پر جیت جائیں گے خدا یہ خبر دے رہا ہے کہ مومن کی معاشرے میں کیا طاقت ہے، چونکہ معاشرے میں قیادت الہی ہے تو دسو بندوں کو بیس بندے شکست دے سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے اندر صبر پایا جاتا ہو۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=15627