19

امام رضا کی زندگی کے تین ادوار

  • News cod : 18860
  • 22 ژوئن 2021 - 19:05
امام رضا کی زندگی کے تین ادوار
امام علیہ السلام ہارون کےجاسوسوں کے حصار میں ہونےکے باوجود لوگوں تک دینی تعلیمات پہنچانے اور امامت کو پھیلانے میں بہت کامیاب رہے جس کا اعتراف مامون الرشید نے خود کیا۔مامون کو جب حمید بن مہران اور دوسرے عباسیوں کی طرف سے ملامت کاسامنا رہا تو اس نے کہا کہ "یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا اور لوگوں کو اپنی طرف بولاتاتھا اسی بناپر ہم نے فیصلہ کیاکہ وہ ہماراولیعہد بنےتاکہ وہ ہرچندلوگوں کواپنی جانب بلائیں سب کچھ ہمارے حق میں ہوجائے

تحریر:اشرف سراج گلتری
امام رضاعلیہ السلام کاواسطہ ایسے حکمرانوں سے پڑا کہ جن کا ایمان فقط تخت و تاج پر تھا وہ ہر قیمت میں حکومت چاہتے تھے، انھوں نے حکومت کےحصول کےلئے قرآن و سنت کی پامالی اور بےگناہ مسلمانوں کا خون بہانےسے بھی دریغ نہیں کیا۔امام رضاعلیہ السلام نے ایسے سفاک اور ظالم حکمرانوں کے دور میں مذہب حقہ کی تروج فرمائی ،حالات جتنے بھی کٹھن ہوے امام نے حکمت عملی کےساتھ ان کا مقابل کیا۔ اعلانیہ و غیر اعلانیہ طریقوں سے اپنی تحریک کو جاری رکھا۔امام علیہ السلام کی زندگی کا اجمالی جائزہ لیاجائے تو امام کی زندگی کے تین ادوارگزرے ہیں، ان تینوں ادوار میں بنی عباس کے خلفا امام کی حکمت عملی کے سامنے بےبس دیکھائی دیتے ہیں۔
تقیہ کا دور
امام موسی کاظم کی شہادت کےفورا بعدہارون کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ موسی بن جعفر کی اولاد میں سے ایک شخص جانشین بن جائے گا جو ہماری حکومت کےخلاف قیام کرسکتاہے۔ جس کی وجہ سے ہارون نے مدینے کےوالی کو خط لکھاکہ وہ اپنے کچھ قریبی بندوں کو جاسوس مقرر کریں تاکہ موسی بن جعفر کے فرزندان پر کڑی نظررکھ سکیں۔ امام علیہ السلام اس معاملے کو سمجھ گئے امام نے ایک مرغا اور بکری کو پالا اور ظاہری طورپراپنی زندگی کو انھیں کی دیکھ بال میں مصروف رکھاجب جاسوسوں نے دیکھا کہ موسی بن جعفر کاسب سے لائق بیٹاجو باپ سے زیادہ قربت رکھتاتھااس نےگوشہ نشینی اختیارکی ہے اور اپنامشغلہ جانوروں کو پالنا بنادیاہےتواب خاندان نبوت سے عباسی حکومت کےلئے کوئی خطرنہیں رہا۔اسی طرح ہارون تمام عمر یہ نہیں سمجھ سکا کہ امام کی کیا مصروفیات ہیں۔لیکن امام علیہ السلام اپنے والد کےاصحاب اور دیگرتمام امام زادگان سے رابطے میں تھےجو پیروان اھل بیت تک امام کا پیغام پہنچاتےتھے،”امام کے اسی دور میں بہت سے امام زادگان ایران کےمختلف دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں کی طرف آے اور شیعہ مذہب کی تبلیغ میں مصروف رہے لیکن بعد میں بنی عباس کے جاسوسوں نے انھیں بھی ایک ایک کرکے شہید کردیا”۔ 1
مامون کا اعتراف
امام علیہ السلام ہارون کےجاسوسوں کے حصار میں ہونےکے باوجود لوگوں تک دینی تعلیمات پہنچانے اور امامت کو پھیلانے میں بہت کامیاب رہے جس کا اعتراف مامون الرشید نے خود کیا۔مامون کو جب حمید بن مہران اور دوسرے عباسیوں کی طرف سے ملامت کاسامنا رہا تو اس نے کہا کہ “یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا اور لوگوں کو اپنی طرف بولاتاتھا اسی بناپر ہم نے فیصلہ کیاکہ وہ ہماراولیعہد بنےتاکہ وہ ہرچندلوگوں کواپنی جانب بلائیں سب کچھ ہمارے حق میں ہوجائے”2
آرام و آسایش کا دور
ہارون الرشید کی وفات کےبعدامین اور مامون کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ،اختلافات کےشروع سے امین کےقتل ہونے تک کاعرصہ امام علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کےلئے نہایت پرسکون دور ثابت ہوا جس میں امام علیہ السلام نے تیزی کے ساتھ منظم انداز میں ولایت اور اسلامی تعلیمات کو ترویج دیا۔ جیسے رہبر معظم لکھتے ہیں کہ ان چار پانچ سالوں میں امام اور اس کے شیعہ سکون محسوس کررہےتھے کیونکہ کسی قسم کی نظری بندی میں نہیں تھے اسی لئے اپنی مناسبت کوسرعت کےساتھ انجام دیتے رہےتھے۔ “3۔ کیونکہ بنی عباس کےحکمران لگ بھگ چار سے پانچ سال تک داخلی خلفشارمیں لگے رہے جس کی وجہ سے انھیں امام کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہیں ملی ،دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ امین اور مامون میں سے ہر ایک یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اس سخت محاز آرائی کے دوران کسی اور طرف بھی محاز کھولیں۔
ولیعہدی کا دور
مامون کا امام کو اپنا ولیعہد بنانا تین مقاصد کے حصول کےلئے تھاپہلامقصد یہ تھاکہ لوگوں کے سامنے امام کے تقدس کو کم کرنا اور یہ ظاہر کروانا تھا کہ دیکھو علی بن موسی بھی ہماری طرح حکومت اور منصب چاہتاہے۔ امام رضا(ع) مأمون کے ارادوں سے واقف تھے چنانچہ آپ نے خود مأمون سے کہا: تم چاہتے ہو کہ لوگ کہنا شروع کریں کہ “علی بن موسی دنیا اور اقتدار کی طرف بےرغبت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ہے کہ اس کی طرف رغبت نہيں رکھتی؛ کیا تم نہيں دیکھتے کہ کس طرح اس نے اقتدار کے لالچ میں ولیعہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!” 4۔
دوسرا مقصد یہ تھاکہ علویوں اور ہاشمیوں کی طرف سے جو تحریکیں اٹھ رہی تھیں ان کو روکناتھا کیونکہ اسی زمانے میں خاندان آل علیؑ سے زیدنامی ایک شخص نے مامون کی حکومت کےخلاف قیام کرکے مامون کا بہت کچھ نقصان کیاتھا اس خطرے کو دیکھ کر مامون نے آئندہ کے خطرات سے بچنےکےلئے امام کو اپنا ولیعہدبنایا تاکہ اپنی حکومت پر امام کی تائید ثبت ہوجاے۔
تیسرامقصد یہ تھا کہ مامون یہ سمجھ چکاتھا کہ دن بہ دن امام لوگوں کو اپنی طرف جذب کررہاہے اور عوام ان سے رابطہ بڑھارہی ہے۔جیسےمامون کایہ کہناکہ “یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا، اور لوگوں کو اپنی طرف بولاتاتھا اسی بناپر ہم نے فیصلہ کیاکہ وہ ہماراولیعہد بنےتاکہ وہ ہرچندلوگوں کواپنی جانب بلائے سب کچھ ہمارے حق میں ہوجائے۔ امام کےاس اثر واسوخ کو روکنے کےلئے مامون کےپاس دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔لہذا اس نے خود امام کی فعالیتوں اور امام سے رابطہ رکھنے والے تمام افراد تک رسائی حاصل کرنے کےلئے امام کو زبردستی اپنا ولیعہد مقررکردیا۔لیکن امام نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی کہ مامون کو مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو سکے۔جس کی بناپر اسےامام کو شہیدکرناپڑا، مامون کااپنےناپاک عزائم کامیاب نہ ہونےکی بہترین دلیل امام علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت ہے۔ کیونکہ اگر ولیعہد رکھ کر مامون کے مطلوبہ مقاصد پورے ہورہےہوتے تو وہ امام کوہرگز قتل نہ کرتا۔
حوالہ جات
1۔ سید علی خامنہ ای ،کتاب انسان 250سالہ
2۔ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع) ج 2،ص 309
3۔ سید علی خامنہ ای ،کتاب انسان 250سالہ
4۔ علی ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا ج 2، ص 314

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=18860