7

یحیى ابن اکثم سے امام محمدتقی علیہ السلام کا مناظرہ

  • News cod : 29467
  • 13 فوریه 2022 - 13:54
یحیى ابن اکثم سے امام محمدتقی علیہ السلام کا مناظرہ
جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی بیٹی کی شادی، امام محمدتقی علیہ السلام سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔ عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے "یحییٰ بن اکثم”کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد علیہ السلا م کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔ یحییٰ نے امام محمدتقی علیہ السلا م سے اجازت لی۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔

علامہ شیخ شفا نجفی

جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی بیٹی کی شادی، امام محمدتقی علیہ السلام سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔ عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے “یحییٰ بن اکثم”کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد علیہ السلا م کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔ یحییٰ نے امام محمدتقی علیہ السلا م سے اجازت لی۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔
یحیی نے کہا: یہ فرمایئے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م اس کے جواب میں فرمایا: اے یحیی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طورپر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحییٰ بن اکثم حیران وششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اورشکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امامعلیہ السلا م کےسامنےاس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اورگنگ ہوگئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مناظرےکےختم ہونے کے بعد جب سبھی لوگ چلے گئے اور مجلس میں صرف خلیفہ کے قریبی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام محمدتقیعلیہ السلا م کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے (ع) نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اوراگر ہرن ہے تواس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکارحل میں کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہےتو یہی کفارے دگنے ہوں جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو “منیٰ ” میں قربانی کرے گا،اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو “مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکارکے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں(کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ)گنہگاربھی ہے،لیکن بھولے سے شکارکرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوربالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جوشخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔
مامون نے کہا:احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیى بن ¬اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ علیہ السلا م سے سوال کیا ہے۔ امام علیہ السلا م نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہوجاؤں،اگر مجھ سے ہوسکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی علیہ السلا م نے سوال کیا:
اس شخص کےبارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی،عصرکے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔
امامعلیہ السلا م کےسوال کو قاضی القضاة یحیی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام علیہ السلا م نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لیا، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے “ظہار” کیا۔ جس کی وجہ سے پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بناپر پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہوگئی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=29467