22

ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصائدی کون تھے؟

  • News cod : 36908
  • 04 آگوست 2022 - 15:31
ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصائدی کون تھے؟
ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ جب ابو ثمامہ نے روز عاشورہ دیکھا کہ سورج زوال کے مقام پر آگیا ہے اور جنگ بھی نہیں رکی تو آپ نے امام عالی مقام (ع) کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا ابا عبداللہ میری جان آپ پہ نثار! میرے دیکھنے کے مطابق یہ لوگ آپ کو شہید کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

تحریر و تحقيق: سویرا بتول

ایام عزا ہر سال بھرپور جوش و جذبے اور عقیدت سے منائے جاتے ہیں۔ ہر پیرو جواں، شیعہ سنی حتی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان اپنے اپنے مخصوص انداز میں نواسہ رسول سبط پیغمبر کو خراج عقیدت پیش کرتا دکھاٸی دیتا ہے۔ اس موقع پر معاشرے کے خواص، مفکر، دانشور اور محقیقین پر دوہری ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ مختلف تواریخ کا مطالعہ کریں اور حق بات عام عوام الناس تک پہچاٸیں۔ امسال دل الگ طریقہ سے رنجیدہ ہے۔ امام عالی مقام (ع) سے توسل کیا کہ آپ خود رہنماٸی فرماٸیں۔ شاید یہ سبط پیغمبر کا احسان تھا کہ خیال آیا کہ امام کے باوفا اصحاب پر تحقیق کرکے کچھ قلم بند کیا جاٸے۔ یہ مکتب کی ادنیٰ طالبہ کی حقیر سی کاوش ہے اور کوشش ہے کہ ان ایام میں قارٸین کو امام عالی مقام کے باوفا اصحاب سے متعارف کرواٶں۔ امام کے وہ ساتھی جو دشت نینوا میں شہید ہوٸے، ہم اُن سے بہت کم آشنا ہیں۔ ہم فقط اٹھارہ بنو ہاشم کے ناموں سے واقف ہیں اور شاید مشکل سے ہی ہم سب اُن اٹھارہ کے نام جانتے ہوں۔ امام کے باوفا اصحاب کا آغاز امام کے ایک مخلص ساتھی ابو ثمامہ الصاٸدی سے کرتے ہیں، جو آل ہمدان میں سے تھے۔

آپ کا پورا نام عمرو بن عبداللہ الصاٸدی تھا۔ آپ قبیلہ ہمدان کے بہادروں، امام علی علیہ السلام کے جانثار شیعوں اور تابعین میں سے تھے۔ آپ تمام جنگوں میں مولاٸے کاٸنات کے ہمراہ رہے اور بعد از شہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا۔ جس وقت امیر شام کی موت ہوٸی، آپ کوفہ میں رہتے تھے۔ امیر شام کی موت کی خبر سارے کوفہ میں پھیل گٸ تو کوفہ کے تمام شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوٸے، ان میں آپ بھی شامل تھے۔ سب نے مل کر امام عالی مقام (ع) کے نام خطوط لکھے، جس کی بناء پر سفیر حسین مسلم بن عقیل کوفہ تشریف لاٸے۔ارشاد میں شیخ مفید لکھتے ہیں کہ ابو ثمامہ حضرت مسلم کے لیے اسلحہ اور دیگر جنگی سامان مہیا کرتے تھے۔ آپ نے اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں، نیز جناب مسلم کے لیے لایا جانے والا مال بھی آپ ہی کے پاس جمع ہوتا تھا، آپ کو اسلحہ خریدنے میں بہت مہارت حاصل تھی۔

کامل میں ابن تاثیر سے مروی ہے کہ ابن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا اور حضرت مسلم کے ساتھیوں نے اس کے خلاف قیام کیا تو جناب مسلم (ع) نے اپنے لشکر کا چوتھا حصہ ابو ثمامہ کی قیادت میں ابن زیاد کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کے محل کا محاصرہ کیا۔ ابو ثمامہ ثابت قدم رہے۔ پھر جب لوگوں نے جناب مسلم ابن عقیل (ع) کا ساتھ چھوڑا تو آپ کہیں روپوش ہوگئے۔ ابن زیاد ملعون نے آپ کو کافی تلاش کیا۔ لیکن آپ چھپ چھپا کر امام عالی مقام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوگئے۔ جناب نافع بن ہلال جملی بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ ان دونوں نے راستے میں امام (ع) کے قافلے کو پا لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔

ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ جب ابو ثمامہ نے روز عاشورہ دیکھا کہ سورج زوال کے مقام پر آگیا ہے اور جنگ بھی نہیں رکی تو آپ نے امام عالی مقام (ع) کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا ابا عبداللہ میری جان آپ پہ نثار! میرے دیکھنے کے مطابق یہ لوگ آپ کو شہید کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مگر خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں انہیں آپ (ع) تک پہنچنے نہیں دوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ آخری نماز آپ کی اقتدإ میں ادا کروں جس کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ ابو ثمامہ کی بات سن کر امام عالی مقام (ع) نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: تو نے نماز کو یاد رکھا خدا تجھے نمازیوں اور اپنا ذکر کرنے کرنے والوں میں سے قرار دے۔ ہاں یہ نماز کا اول وقت ہے۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: “ان لوگوں سے کہو کہ کچھ دیر کے لیے جنگ روکیں، تاکہ ہم نماز ادا کر لیں۔” چنانچہ جب لشکر حسینی سے جنگ روکنے کی استدعا کی تو حصین بن تمیم لعنتی کہنے لگا کہ حسین (ع) کی نماز قبول نہ ہوگی۔
یہ سن کر حبیب ابن مظاہر نے بآواز بلند کہا: یا ابن الخمارہ! تیری نماز قبول ہوگی اور رسول خدا کے فرزند کی نماز قبول نہ ہوگی؟ امام حسین (ع) کے ساتھیوں نے اسے سخت جواب دیا۔ اس گفتگو کیوجہ سے شدید جنگ ہوٸی، جس میں جناب حبیب ابن مظاہر شہید ہوٸے۔ راوی کہتا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نماز کی امامت کروا چکے تو ابو ثمامہ نے امام کی خدمت میں عرض کی: “اے ابا عبداللہ! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ پر قربان ہو کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جاٶں، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ آپ (ع) کو اور آپ (ع) کے اہل بیت کو تنہا چھوڑ دوں۔” امام نے فرمایا: “اے ابا ثمامہ! قدم بڑھاٶ، عنقریب ہم بھی تمہارے ساتھ ملحق ہو جاٸیں گے۔”

ابو ثمامہ سیلاب کی موجوں اور خطرناک شیر کی طرح دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوٸے۔ آپ نے لشکر یزید کے داٸیں اور باٸیں حملہ کیا اور کئی دشمنوں کو واصل جہنم کیا، جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔ آپ کے چچا زاد بھاٸی قیس بن عبداللہ صاٸدی نے جو کہ آپ کا دشمن تھا، آپ کو شہید کیا۔ حضرت ابو ثمامہ صاٸدی کی شہادت جناب حر علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہوٸی۔ امام زمانہؑ سے منسوب زیارت ناحیه مقدسہ میں انہیں ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے: “السلام علی ابی ثمامة عمر بن عبدالله الصائدی” یہ سلام زیارتِ رجبیہ میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

ہمارا درود و سلام ہو
فرزند زہرا کے باوفا ساتھی
ابو ثمامہ الصاٸدی پر۔۔۔
جنہوں نے اپنی جان
فرزند رسول پر قربان کی
ہمارا سلام ہو اے قبیلہ ہمدان کے شیر دل شجاع دلاور پر
ہمارا سلام ہو علی مرتضی کے اکابر صحابی پر
ہمارا سلام ہو باوفا ساتھی ابو ثمامہ پر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(شجاعان کربلا)
آیت اللہ شیخ ذبیح اللہ محلاتی
مترجم: مولانا ذولفقار علی سعیدی
(ابصار العین فی انصار الحسین)
تالیف الشیخ محمد بن طاہر سماوی
مترجم: مولانا سید عدنان نقوی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=36908