21

51واں سالانہ مرکزی تعمیر وطن کنونشن اور کردار

  • News cod : 39049
  • 26 اکتبر 2022 - 9:57
51واں سالانہ مرکزی تعمیر وطن کنونشن اور کردار

تحریر: ارشاد حسین ناصر وطن عزیز پاکستان کا قیام برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ان گنت، عظیم قربانیوں کے بعد معرض وجود […]

تحریر: ارشاد حسین ناصر

وطن عزیز پاکستان کا قیام برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ان گنت، عظیم قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس وطن کے حصول کیلئے جتنی قربانیاں پیش کی گئیں، اس کی بقاء و سلامتی، استحکام و ترقی، اس میں امن و سلامتی کے حصول اور دشمنان پاک وطن کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اس سے کہیں زیادہ قربانیاں گذشتہ 75برس میں پیش کی جاچکی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نو زائیدہ مملکت خداداد میں جو مسائل در پیش ہوئے، ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوا۔ وطن کی محبت سے سرشار اسلامیان پاکستان و فرزندان وطن جن کا تعلق افواج پاکستان سے ہو یا سول اداروں سے، عوام سے ہو یا خواص سے، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو کی قربانی دے کر بھی وطن کی سالمیت کیلئے خود کو پیش کیا ہے۔ ان عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں بھی آج ہمارا پیارا وطن جن مسائل سے دوچار ہے، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

ملکی سیاسی و سماجی حالات، عالمی تعلقات، خارجہ پالیسی، غیر ملکی مداخلت، مہنگائی، آفات، حادثات میں گھرے معصوم و بے گناہ عوام جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور سب سے بڑھ کر ملک کا مستقبل طالبعلموں کے بے شمار مسائل، مہنگی تعلیم، غیر معیاری نظام تعلیم و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار، اسی طرح تعلیم یافتہ، ڈگری ہولڈرز کی افواج ظفر موج اور بے روزگاری کا سیلاب ان جیسے ان گنت مسائل سے دوچار ارض وطن پکار رہی ہے کہ اس کو اسی خط اور راستے پہ تعمیر کیا جائے، جس کا تعین بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا، جس کا خواب علامہ محمد اقبال (رہ) نے دیکھا تھا، جو خواب سجائے ہمارے اجداد نے اس مادر وطن کیلئے ہجرتیں کیں، گھر بار چھوڑے، مال و متاع اور جائیداد کی قربانیاں دیں۔ جس طرح طلباء نے قیام پاکستان کیلئے اپنی توانائیاں صرف کیں، اسی طرح آج اس کی بقا و سلامتی اور تعمیر وطن کیلئے بھی طلباء ویسا ہی جذبہ رکھتے ہیں۔

بالخصوص امامیہ طلباء میں وطن کی تعمیر و سلامتی و استحکام کا جذبہ ہمیشہ شعلہ ور رہا ہے۔ امامیہ طلباء نے ہر دور اور زمانے میں اس دور کی مشکلات، ملکی مسائل،سماجی و دینی تقاضوں اور قومی و ملی معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تئیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ مرکزی کنونشن ایسی ہی جدوجہد اور تحرک و تحریک کا ہی ایک سلسلہ ہوتا ہے، جس کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس کے اپنے ہی عناوین ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اسی جذبہ کے تحت امسال امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنے 51ویں سالانہ مرکزی کنونشن کو “تعمیر وطن کنونشن” کا نام دیا ہے۔ اس تین روزہ کنونشن میں اس کنونشن کے عنوان پر سیاسی، سماجی، دینی شخصیات، اساتذہ، پروفیسرز، علمائے کرام، زعمائے ملت، دانشوران قوم، صحافی برادری، پاکستان بھر سے تشریف لائے ہوئے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو اپنے مفید، موثر، معلوماتی لیکچرز سے مستفید کریں گے اور شرکاء کنونشن کو اپنے اپنے شعبہ جاتی ماہرین دیئے گئے موضوعات کے مطابق اپنے علم و فضل، ٹیکنیکل مہارتوں، لیکچرز، دروس، گروپ ڈسکشنز سے ان کی تربیت کا ساماں کریں گے۔

اس وقت جب ملک میں مختلف قسم کے تفرقات، سیاسی و سماجی خلفشار، فرقہ وارانہ تعصبات، معاشرتی و معاشی مسائل کے انبار میں گھرا ہوا دیکھا جا رہا ہے، ملک کی بہت بڑی آبادی سیلاب سے بدترین متاثر ہو کر ہمارے اجتماعی کردار کی متقاضی ہے اور ایک قومی جذبہ و سوچ و فکر کا تقاضا کر رہی ہے۔ یہ کنونشن ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، ریاست آزاد جموں و کشمیر اور سابق قبائلی علاقہ جات جو اب ڈسٹرکٹس بن چکے ہیں، سے آنے والے طلباء کی شرکت سے باہمی محبتوں اور اور احساسات کے فروغ کا باعث بنے گا۔ ہمارے اجتماعی مسائل کے حل کی جانب بھی ایک قدم آگے بڑھنے کا باعث بنے گا، طلباء کی بھرپور شرکت سے ایک تربیت یافتہ معاشرہ کی تشکیل کا اہم ذریعہ بھی بنے گا۔ اس سے تربیت پانے والے شرکاء وطن عزیز پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید بن کر معاشرے سے تاریکیوں کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ وطن کی تعمیر میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اسی دوران امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے شعبہ طالبات کا کنونشن بھی ہو رہا ہے، جس میں ملک کے تمام ڈویژنز سے برادران کی طرح خواہران بھی شریک ہونگی، ان کا بھی ایسے ہی تربیتی، تعلیمی، تنظیمی ایجنڈا ہوتا ہے، جہاں برادران کی طرح خواہران کی تنظیمی تربیت اور احتساب بھی ہوتا ہے، جبکہ نئی مرکزی صدر کا انتخاب بھی ہونا ہوتا ہے، خواہران کا کنونشن بھی لاہور میں ہی ہو رہا ہے۔ مرکزی کنونشن برس ہا برس کی روایت کے طور پر اس برس بھی لاہور میں ہی منعقد ہو رہا ہے جبکہ اس میں شرکت کرنے والے طلباء ملک کے گوش و کنار سے تشریف لاتے ہیں، جو ایک تنظیمی نیٹ ورک اور اتحاد و وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ جو ایک نظریہ کی بنیاد پر متحد و منظم ہیں۔ ملت کے مخلصین اور سنجیدہ طبقات کو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ان طلباء کی بھرپور معاونت کرنا چاہیئے، یہی ہماری قوم و ملت کا مستقبل ہیں، انہوں نے ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیر وطن کنونشن کا عنوان ہی ان کی وطن سے، اس ارض پاک سے فطری محبت کی علامت اور گہری وابستگی کا بین ثبوت ہے۔

مرکزی کنونشن میں آنے سے پہلے ڈویژنز و مرکز کی طرف سے ایک دور میں سخت احتساب و آڈٹ کی نشست کی تیاری کی جاتی تھی، اب بھی کسی حد تک ڈویژنز کو موقعہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے احتساب کیساتھ ساتھ مرکز کا احتساب کرسکیں، احتساب کے بغیر کنونشن کا رنگ پھیکا سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ یہ تنظیم اب تک اپنے دستوری و تربیتی ایجنڈے نیز احتساب کی بدولت ہی مضبوطی سے قائم ہے۔ کوئی بھی تنظیم بالخصوص دینی بنیادوں پر قائم تنظیموں میں اگر احتساب و پوچھ گچھ کا ںطام نہ ہو یا وقت کی رفتار سے ختم ہو جائے، وجوہات کچھ بھی ہوسکتی ہیں، تنظیم اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ اس بارے میں ذمہ داران کو متوجہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ چاپلوس، موقعہ پرست یا ابن الوقت تنظیم میں احتساب کا نظام درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امامیہ طلباء کا تنظیمی دورانیہ یا سیشن ایک سال ہوتا ہے، اس لئے سال بھر میں عمومی اجلاسوں، عاملہ و نظارت کے اجلاسوں میں ایک سرکل چل رہا ہوتا ہے، جس سے احتساب کا نظام بھی چل رہا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ذمہ داران کو متوجہ رہنے کی شدید ضرورت پیش آتی ہے۔ کنونشن میں سب سے دلچسپ اور اہم پروگراموں میں مزاحیہ تربیتی خاکہ جات اور سب سے آخری نشست جس میں نومنتخب مرکزی صدر کا انتخاب و اعلان کیا جاتا ہے، شرکت کے لحاظ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ عرصہ سے مزاحیہ خاکہ جات نہیں ہو پاتے، مرکزی کنونشن کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ بہت سے سینیئرز و بزرگان کو مل بیٹھنے اور باہمی روابط کو مستحکم کرنے نیز حالات جانچنے کا موقعہ میسر آتا ہے، یہ روابط کی بحالی اگلے برسوں میں تنظیمی امور کی انجام دہی میں معاون بنتے ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=39049