7

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے علماء نظر آئیں جو خود عالم با عمل ہوں، علامہ سید ارشاد حسین نقوی

  • News cod : 43693
  • 02 فوریه 2023 - 19:37
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے علماء نظر آئیں جو خود عالم با عمل ہوں، علامہ سید ارشاد حسین نقوی
مولانا غلام مہدی نجفی دین کی تبلیغ میں بہت زیادہ حریص انسان تھے اسی وجہ سے ہندو کو بھی تبلیغ کرتے تھے

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ، مدرسہ الامام المنتظر ع قم ایران میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں مکتب اہل بیت ع اور شاگرد پروری میں علامہ غلام مہدی نجفی (رح) کے کردار، خدمات اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے انجمن علمی و مدرسہ الامام المنتظر کی جانب سے ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا ۔

نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید ارشاد حسین نقوی نے کہا کہ دنیا میں ایسے بہت سے نظریات اور شخصیات ہیں کہ جو باطل ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے ان نظریات پر عمل پیرا ہیں تو ان کی معاشرہ پر تاثیر ہے مگر عالم موثر نہیں ہوتا کیونکہ عالم باتیں تو بہت کرتا ہے لیکن کوئی عمل انجام نہیں دیتا جس کی وجہ سے اس کی معاشرے پر تاثیر نہیں ہوتی مولانا غلام مہدی نجفی فقط باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ عمل سے بتاتے تھے۔ آج ہم نے جو کچھ سیکھا ہے وہ ان کے عمل و کردار سے سیکھا ہے وہ مجسم تقوی تھے اور “کن فیکون” کے مصداق بن چکے تھے۔
ایک واقعہ ملتا ہے کہ مدرسے میں توری(سبزی) کی بیل تھے تو کسی کو بھیجا کہ توری لے آئے تو وہ گیا تو اسے نہیں ملی تو خودبسم اللہ پڑھ کر اٹھے تو اس شخص نے کہا کہاں چل دیئے تو فرمایا کہ جو شخص روزانہ ۳۰۰ مرتبہ بسم اللہ کا ورد کرے تو جو وہ چاہے گا تو وہ ہوجائے گا۔
مولانا غلام مہدی نجفی دین کی تبلیغ میں بہت زیادہ حریص انسان تھے اسی وجہ سے ہندو کو بھی تبلیغ کرتے تھے کہ داڑھی رکھو تو ایک دن میں نے پوچھا مولانا آپ کو کسی ہندو کے داڑھی رکھنے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا تو فرمایا کہ اس کے رکھنے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مجھے بتانے کا فائدہ ہوگا۔
علماء حضرات میں ایک عیب پایا جاتا ہے کہ ہمیشہ اپنی سنانے کی کوشش کرتے ہیں اور سنتے کم ہیں لیکن مولانا غلام مہدی نجفی جو بھی بات کرتا اسے غور سے سنتے اسی وجہ سے ان کے جنازے میں ہندو بھی رو رہے تھے
مولانا غلام مہدی نجفی لوگوں کے مسائل کو حل کرتے تھے اس کے علاوہ زہد و تقوی کے مالک تھے اور دنیا سے مکمل طور پر بے رغبتی رکھتے تھے کیونکہ جو دنیا کو طلب کرتا ہے وہ ہمیشہ باقی نہیں رہتا جیسے بادشاہ چلے گئے ہیں ان کی قبروں کے نام ونشان بھی موجود نہیں ہیں لیکن فقراء کی قبریں ابھی بھی موجود ہیں۔
علامہ غلام مہدی نجفی ہر شخص کا احترام کرتے تھے۔
رسول خدا سے ایک روایت ہے : النَّظَرُ في وُجوهِ العُلَماءِ عِبادَةٌ ـ : هُوَ العالِمُ الّذي إذا نَظَرتَ إلَيهِ ذَكَّرَكَ الآخِرَة کہ عالم کی چہرے کو دیکھنا عبادت ہے تو سوال ہوا کہ وہ کونسا عالم ہے تو فرمایا کہ جس کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے۔ واقعا علام غلام مہدی کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔
علامہ غلام مہدی نجفی چونکہ خود عالم با عمل تھے تو اسی وجہ سے لوگ ان کے کردار کی وجہ سے ایک ہی نشست میں تبدیل ہوجاتے تھے۔  عالم با عمل کا معاشرہ میں ہونا بہت ضروری ہے جیسا کہ روایت ہے
العالِمُ بَينَ الجُهّالِ كَالحَيِّ بَينَ الأمواتِ۔ کیونکہ اگر عالم نہیں ہوگا تو معاشرے کے عقائد و اعمال بدبودار ہوجائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام اس وجہ سے کامیاب تھے کہ وہ اپنے ہدف کے عاشق تھے اور ان کا کوئی مطالبہ نہیں تھا آج ہماری ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے ہدف سے عشق نہیں ہے اور مطالبات بہت زیادہ ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43693