20

حضرت امام جواد علیہ السلام کی سیرت طیبہ، اسلامی معاشرے کے تمام نوجوانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے،مولانا کمیل عباس نورانی

  • News cod : 43758
  • 07 فوریه 2023 - 14:47
حضرت امام جواد علیہ السلام کی سیرت طیبہ، اسلامی معاشرے کے تمام نوجوانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے،مولانا کمیل عباس نورانی
مدرسہ امام المنتظر قم جشن ولادت با سعادت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے خطاب میں مولانا کمیل عباس نورانی نے کہاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اے علی خدا نے جو اپنی سنت نبوت میں رکھی ہے وہی سنت امامت میں بھی رکھی ہے یعنی جن چیزوں سے نبوت میں امتحان ہوگا امامت میں ان چیزوں سے امتحان ہوگا۔

وفاق ٹائمز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم جشن ولادت با سعادت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے خطاب میں مولانا کمیل عباس نورانی نے کہاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اے علی خدا نے جو اپنی سنت نبوت میں رکھی ہے وہی سنت امامت میں بھی رکھی ہے یعنی جن چیزوں سے نبوت میں امتحان ہوگا امامت میں ان چیزوں سے امتحان ہوگا کسی کو گہوارے میں نبوت ملے گی کسی کو چالیس سال کے بعد اسی طرح امامت بھی کسی کو کم سنی میں حاصل ہوگی اور کسی کو جوانی میں یہ اللہ کی سنت ہے اور امتحان کا طریقہ ہے: نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۱۹۰ کہ جسے خطبہ قاصعہ کہتے ہیں کہ جس کا معنی ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا ہے اس خطبے کو پڑھنے کے بعد انسان کا غرور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے امام اس خطبے میں فرماتے ہیں وَ لَوْ اَرَادَ اللهُ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ مِنْ نُّوْرٍ یَّخْطَفُ الْاَبْصَارَ ضِیَآؤُهٗ، وَ یَبْهَرُ الْعُقُوْلَ رُوَاؤُهُ، وَ طِیْبٍ یَّاْخُذُ الْاَنْفَاسَ عَرْفُهٗ، لَفَعَلَ، وَ لَوْ فَعَلَ لَـظَلَّتْ لَهُ الْاَعْنَاقُ خَاضِعَةً، وَ لَخَفَّتِ الْبَلْوٰی فِیْهِ عَلَی الْمَلٰٓئِكَةِ. اگر اللہ چاہتا تو آدم کو اس طرح سے خلق کرتا کہ اس کو دیکھ کو سب کی آنکھیں چندھیا جاتی جس کو دیکھنے کی آنکھوں میں تاب نہ ہوتی اور انسان دیکھتے ہی رہ جاتا اسی طرح اللہ اگر چاہتا تو آدم کو اس طرح خلق کرتا کہ اس کی خوبصورتی عقلوں پر چھا جاتی اور اگر اللہ چاہتا تو آدم کو اس خوشبو سے خلق کرتا کہ جو نفوس کو جکڑ لیتی لیکن اگر ایسا ہوتا تو سب کی گردنیں جھک جاتی اور ملائکہ کا امتحان آسان ہوجاتا۔اس کے بعد مولا فرماتے ہیں وَ لٰكِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ یَبْتَلِیْ خَلْقَهٗ بِبَعْضِ مَا یَجْهَلُوْنَ اَصْلَهُ، تَمْیِیْزًا بِالْاِخْتِبَارِ لَهُمْ
لیکن اللہ سبحانہ اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے کہ جن کى اصل و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں تاکہ اس آزمائش کے ذریعے ان کے درمیان امتیاز کر دے

انہوں نے کہاکہ سورہ حجر میں ارشاد خداوندی ہے وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ * فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ * فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ * إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ * قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ * قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ * قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا تھا کہ میں سیاہی مائل نرم کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دوں تو سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا تو تمام ملائکہ نے اجتماعی طور پر سجدہ کرلیا تھا علاوہ ابلیس کے کہ وہ سجدہ گزاروں کے ساتھ نہ ہوسکا اللہ نے کہا کہ اے ابلیس تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو سجدہ گزاروں میں شامل نہ ہوسکا اس نے کہا کہ میں ایسے بشر کو سجدہ نہیں کرسکتا جسے تو نے سیاہی مائل خشک مٹی سے پیدا کیا ہے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا کہ تو مردود ہے۔اس مقام پر شیطان نے وہی دلیل دی جو مولانے خطبہ میں ذکر کی ہے کہ یہ تو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے تو میں کیسے اس کو سجدہ کرسکتا ہوں۔ایک روایت میں ہے کہ شیطان جان چکا تھا کہ اس کا امتحان ہورہا ہے تو اس نے خدا سے عرض کی کہ مجھے حضرت آدم کے سجدہ سے معاف کردیں تو میں تیری ایسی عبادت انجام دوں گا کہ آج تک کسی نے ایسی عبادت نہیں کی ہوگی تو ارشاد ہوا کہ مجھے ایسی عبادت پسند نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ شیطان کے جس کے بارے میں مولا اپنے اس خطبے میں فرماتے ہیں کہ اس نے چھ ہزار سال عبادت کی اب یہ چھ ہزار سال اِس دنیا کے تھے یا اُس دنیا کے معلوم نہیں ہیں۔اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس نے چھ ہزار سال عبادت کی اس کے لئے یہ ایک سجدہ کرنا مشکل کیوں ہے تو اس کہ وجہ یہ ہے کہ خدا نے ایسا نظام قائم کردیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ “وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ” میں سے ہے۔خدا کا امتحان مجھولات کے ذریعے ہوگا اگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جواہرات ، حوریں و فرشتے ہوتے تو پتہ نہیں چلتا کہ کون ساتھ ہے اور کون ان چیزوں کی وجہ سے آیا ہے خدا اگر خدا چاہتا تو اپنے گھر کو ایسی زمین پر قرار دیتا کہ جس کا موسم اچھا ہوتا اور لوگ اس کی طرف آنے کے لیے مچلتے لیکن پھر معلوم نہیں ہوتا کہ کون سیر وتفریح کے لئے آیا ہے اور کون عبادت کے لئے جس روایت کو سرنامہ کلام پیش کیا اس میں ارشاد نبوی ہے کہ جو بھی امتحان نبوت نے دیئے ہیں وہی امتحان امامت نے بھی دینے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ امامت کا ایک امتحان اس وقت ہوا کہ جب لوگوں کو بتایا گیا کہ سات سال بچہ آپ کا امام ہے عموماً سات سالہ بچے سے کوئی گھر کا کام بھی کروانا پسند نہیں کرتا مگر یہاں امتحان تھا یونس بن عبد الرحمن جو امام رضا علیہ السلام کے بہترین اصحاب میں سے تھا کہ جس سے کثیر روایات بھی ہیں وہ کہتا ہے کہ کیسے ہم ان کے پیچھے نماز پڑھیں کہ جو ابھی بالغ بھی نہیں ہوا پھر یہ بھی کہا کہ کچھ بڑے اصحاب ان کے ساتھ ہوجائیں تاکہ کچھ سیکھ لیں تاکہ ہم ان کی امامت کو مان لیں جیسے ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی آقا زادے کو یہی کہا جاتا ہے کہ چند بڑے لوگ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں تاکہ وہ کچھ سیکھ لے اور کل ادارے کا نظام سنبھال سکے اب یہ امتحان ہورہا تھا کیونکہ جس طرح گہوارے کا عیسی اور پچاس سالہ عیسی میں کوئی فرق نہیں اسی طرح امامت میں کم سنی اور جوانی میں کوئی فرق نہیں اور اگر کوئی فرق قرار دے تو اس نے امامت کو سمجھا نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ علی بن جعفر جو امام صادق علیہ السلام کے سن رسیدہ فرزند تھے وہ یونس کی بات کو سن رہے تھے تو یونس کو کہتے ہیں تجھے امامت سمجھ میں نہیں آئی تو یونس نے کہا کہ آپ سن رسیدہ ہیں تو آپ اگر امامت کا دعوی کریں تو لوگ جلدی قبول کرلیں گے تو اس نے جواب دیا کہ خدا جانتا ہے کہ اس بوڑھے میں وہ صلاحیت نہیں ہے جو اس سات سالہ بچے میں ہے۔ امام صادق علیہ السلام جب بھی احادیث کو بیان فرماتے تھے تو ہمیشہ اس کی سند کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ تک لے جاتے تھے لیکن ایک دن امام علیہ السلام نے سند کو بیان نہیں کیا اور فرمایا “قال رسول اللہ” تو ایک شخص کھڑا ہوگیا کہ آپ نے سند کو بیان نہیں کیا آپ سند کو بیان کریں کیونکہ آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا تو امام نے فرمایا کہ ہم “قال رسول اللہ” تمہاری وجہ سے بیان کرتے ہیں ورنہ مجھے تو “قال اللہ” کہنا چاہیے کیونکہ جو علم رسول کے سینے میں ہے وہی میرے سینے میں بھی ہے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحان کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا اس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ امتحان بھی خدا لے گا اور نتیجہ بھی خدا بتائے گااور امام کی تعیین بھی وہی کرے گا ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بیٹے کی مماثلت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے یعنی جو امتحان انہوں نے دیئے ہیں وہی اسے دینے ہوں گے ان امتحانات میں سے ایک یہ ہے کہ جس طرح حضری عیسی علیہ السلام کی ماں پر بہتان لگایا گیا اسی طرح ان کی والدہ گرامی پر بھی بہتان لگایا گیا چونکہ ان کی والدہ کا تعلق ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تھا کہ جو سوڈانی تھے تو اسی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم کی اپنی ماں کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے مشرکین مکہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان لگایا کہ یہ بچہ آپ کا نہیں ہے لیکن امام کے حوالے سے خود بنو ہاشم یعنی اولاد امام موسی کاظم علیہ السلام نے یہ بہتان لگایا کہ یہ بچہ امام رضا علیہ السلام کا نہیں ہے اور بچہ کے والد کی تعیین کے لئے قیافہ شناس لوگوں کو بلایا گیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس علم کو ختم کردیا تھا۔ جب قیافہ شناس لوگ آئے تو بنو ہاشم نے امام رضا علیہ السلام کے علاوہ باقی ان کے تمام غلاموں کو اکھٹا کیا اور قیافہ شناس لوگوں کے پاس لے گئے اور امام رضا علیہ السلام کو آنے نہیں دیا گیا قیافہ شناس لوگوں نے تمام غلاموں کو دیکھ کر کہا کہ یہ بچہ ان میں سے کسی کا نہیں ہے جب وہ باہر نکلے تو امام رضا علیہ السلام ایک باغ میں کام کررہے تھے تو ان قیافہ شناس لوگوں نے کہا کہ روئے زمین پر اگر وہ بچہ کسی کا ہوسکتا ہے تو وہ اس شخص کا ہے کہ جو باغ میں کام کررہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی جسارت و ظلم تھا ظلم اگر کمیت میں ہو تو اس کو برداشت کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ انسان کے بدن کو مجروح کرتا ہے لیکن اگر کمیت میں ہو تو اس کو برداشت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ انسان کی روح کو متاثر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کو مبارک قرار دیا گیا لیکن امام رضا علیہ السلام اپنے فرزند کے بارے میں فرماتے ہیں هذاالمَولُودُ الّذي لَم يُولَد مَولُودٌ أعظَمُ بَرَكَةً عَلى شيعَتِنا مِنهُ ہمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے بابرکت کوئی مولود دنیا میں نہیں آیا۔ اگر کسی خیر میں کثیر ، دائمی اور عمومی ہونا جمع ہوجائے تو اسے برکت کہا جاتا ہے۔ انسان کو جو بھی لقب دیا جاتا ہے تو اس میں زمان و مکان کا خاص اثر ہوتا ہے جیسے اگر حاتم طائی کے زمانے میں کوئی غریب نہ ہوتا تو اس کی سخاوت کبھی ظاہر نہ ہوتی اسی طرح امام علیہ کو تقی کا لقب دیا گیا تو اس کی دو وجہیں ہیں۔
۱)امام علیہ السلام نے مصلحت اور تقوی الہی کی وجہ سے اپنے والد کے قاتل کی بیٹی ام فضل سے شادی کرلی
۲) جن لوگوں نے امام کی والدہ پر تہمت لگائی تھی امام علیہ السلام نے ان سے تعلق نہیں چھوڑا بلکہ ان کو بھی ساتھ لے کر چلے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=43758