6

ہمیں بصیرت کے ساتھ تبدیلی کا بھاری اور دشوار کام شروع کرنا چاہیے، رہبر معظم

  • News cod : 45253
  • 22 مارس 2023 - 12:27
ہمیں بصیرت کے ساتھ تبدیلی کا بھاری اور دشوار کام شروع کرنا چاہیے، رہبر معظم
ہر تبدیلی کے لیے اللہ سے توسل اور طلب کے ساتھ ہی سعی و کوشش اور استقامت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں زائرین اور مقامی لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مضبوط پہلوؤں کی تقویت اور کمزور پہلوؤں اور خامیوں کے خاتمے جیسی تبدیلی کو ملک کی بنیادی ضرورت بتایا۔

انھوں نے دشمنوں کے پوری طرح سے تبدیلی مخالف اہداف اور خواہشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ٹھوس ارادے، قومی خود اعتمادی پر بھروسے، امید اور بصیرت کے ساتھ تبدیلی کا بھاری اور دشوار کام شروع کرنا اور کمزور پہلوؤں کو، جو زیادہ تر معیشت سے متعلق ہیں، نمایاں اور درخشاں پہلوؤں میں تبدیل کر دینا چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے نئے سال کے آغاز کے موقع پر اپنے حالات کو بہترین حالات میں تبدیل کرنے کی ایرانی قوم کی عمومی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر تبدیلی کے لیے اللہ سے توسل اور طلب کے ساتھ ہی سعی و کوشش اور استقامت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی جانب سے پیش کردہ تغیر اور تبدیلی کی تعریف اور حقیقی تبدیلی اور تغیر کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہا کہ دشمن، تبدیلی کا موضوع پیش کر کے، پوری طرح سے تبدیلی مخالف خواہشات اور نظام کے اہداف کے خلاف ارادے رکھتے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ ان کی پیروی یا نقل کر کے یا پھر دوسرے محرکات کے ساتھ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ وہی باتیں دوہراتے ہیں اور آئين یا نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی، انھیں باتوں میں شامل ہے۔

انھوں نے دشمنوں کی جانب سے بنیادی تبدیلی، انقلاب اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ پیش کرنے کا اصل ہدف، اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو تبدیل کرنا بتایا اور کہا کہ دشمن کا ہدف، ملک اور نظام کے مضبوط پہلوؤں کو ختم کرنا، ان اصلی مسائل کو بھلانا، جو لوگوں کو انقلاب اور اصلی حقیقت اور انقلابی اسلام کی یاد دلاتے ہیں جن میں امام خمینی کا نام دوہرایا جانا، ان کی تعلیمات کو پیش کیا جانا، ولایت فقیہ کا مسئلہ، بائيس بہمن (گيارہ فروری، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تاریخ) اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت جیسی باتیں شامل ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوری نظام کو ایک آمرانہ اور پٹھو حکومت میں یا پھر بظاہر جمہوری لیکن بباطن مغرب والوں کی فرمانبردار حکومت میں تبدیل کرنا، سامراجیوں کی بظاہر تبدیلیوں پر مبنی باتوں کا اصلی ہد ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ کسی بھی طرح سے ایران پر سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کرنا اور اسے لوٹنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے ایرانی قوم کی اندرونی مضبوطی کی نمایاں نشانیوں کی تشریح کرتے ہوئے، عالمی سامراجیوں کی دسیوں برس کی لگاتار دشمنی پر غلبے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ کون سا ملک اور کون سا انقلاب ہے جو عشروں تک دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کے لگاتار حملوں کے سامنے ڈٹا رہ پایا اور اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے؟

رہبر انقلاب اسلامی نے بغاوت، پابندیوں، سیاسی دباؤ، عدیم المثال تشہیراتی حملوں، سیکورٹی کے خلاف سازشوں اور عدیم المثال معاشی پابندیوں کو دشمنوں کی مسلسل سازشوں کے کچھ پہلو بتایا اور کہا کہ ان دشمنیوں کے حالیہ مرحلے میں امریکا اور بعض یورپی ملکوں کے سربراہان نے ان ہنگاموں کی، جنھیں بہت ہی معمولی تعداد میں کچھ لوگوں نے شروع کیا تھا، کھل کر پشت پناہی کی اور اسلحہ جاتی، سیاسی، مالی، سیکورٹی اور میڈیا سمیت طرح طرح کی حمایت اور مدد کی تاکہ اسلامی جمہوریہ کو کم از کم، کمزور ہی کر سکیں لیکن عملی میدان میں اس ہدف کے بالکل برخلاف بات سامنے آئي اور اسلامی جمہوریہ نے اس عالمی سازش پر فتح حاصل کی اور دکھا دیا کہ وہ ٹھوس اور مضبوط ہے۔

انھوں نے گيارہ فروری سنہ 2023 (کے جلوس) کو نظام کی ٹھوس اندرونی بنیاد کا مظہر، گزشتہ برسوں کے جلوسوں سے کہیں زیادہ پرجوش اور زیادہ تعداد والا بتایا اور کہا کہ مختلف میدانوں میں ایران کی زبردست ترقی و پیشرف، اس اندرونی مضبوطی کی کچھ اور علامتیں ہیں۔
انھوں نے معاشی محاصرے اور ممکنہ حد تک شدید ترین دباؤ کے حالات میں پیشرفت کو، قوم کی درخشاں کارکردگي بتایا اور کہا کہ امریکیوں نے اپنی تمام تر دروغگوئي کے ساتھ یہ بات سچ کہی کہ ایرانی قوم پر ان کے معاشی دباؤ، پوری تاریخ میں عدیم المثال رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت، نینو اور بایو ٹیکنالوجی جیسے میدانوں میں دنیا کے برتر ملکوں میں شمولیت اور حفظان صحت، ایرواسپیس، ایٹمی، دفاعی، انفراسٹرکچرل، طبی و معالجاتی مراکز، ریفائنریز اور دیگر میدانوں میں پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خارجہ تعلقات کے میدان میں بھی ایران کو الگ تھلگ کرنے کی دشمن کی کوششیں ناکام رہیں اور اسلامی جمہوریہ ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط بنانے کے ساتھ ہی اب اس علاقے کے اہم ملکوں کے ساتھ سیاسی، معاشی، سائنسی اور تکنیکی رابطوں کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گي۔

انھوں نے کہا کہ بعض اہم علاقائي معاہدوں میں رکنیت اور افریقا اور لاطینی امریکا سے تعلقات کی مضبوطی بھی خارجہ تعلقات کے میدان میں ایک پیشرفت ہے اور اسی کے ساتھ یہ یاد رہے کہ ہم یورپ والوں سے خفا نہیں ہیں اور اگر وہ امریکا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں تو ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایمان، قومی عزت کے احساس اور ملکی توانائي پر بھروسے کو ایرانی قوم کی پیشرفت کے عناصر اور راہوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ جمہوریت اور اسلامیت جیسے نظام کے دوسرے مضبوط پہلوؤں کی بھی مزید تقویت ہونی چاہیے۔

انھوں نے ملک کے مضبوط پہلوؤں کا ذکر کرنے کے بعد کمزور اور تبدیلی کے لائق پہلوؤں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ سارے کمزور پہلوؤں میں سرفہرست، معیشت اور معاشی پالیسیوں کا مسئلہ ہے جن میں سے بہت سی پالیسیاں انقلاب سے پہلے کا ورثہ ہیں جبکہ ان میں سے بعض کا تعلق انقلاب

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45253

ٹیگز

آپکی رائے

تبصرے بند ہیں.