3

امامت شیعوں کا اختراع کردہ نہیں ہے بلکہ ایک قرآنی موضوع ہے، حجت الاسلام ڈاکٹر یعقوب بشوی

  • News cod : 45599
  • 30 مارس 2023 - 17:24
امامت شیعوں کا اختراع کردہ نہیں ہے بلکہ ایک قرآنی موضوع ہے، حجت الاسلام ڈاکٹر یعقوب بشوی
امامت عہد خدا ہے خدا کہتا ہے کہ یہ میرا عہد ہے پس ضوابط کے بغیر نہیں ملے گا

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مدرسہ امام المنتظر قم عج میں ماہ مبارک رمضان میں دورہ امامت و خلافت کا انعقاد کیاگیا ہے جس سے استاد حجت الاسلام والمسلمین یعقوب بشوی نے درس دیتے ہوئے کہا کہ موضوع امامت شیعوں کا اختراع کردہ نہیں ہے بلکہ ایک قرآنی موضوع ہے اور قرآن میں اس کی شرائط اور خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے عرض کیا کہ نبوت امامت رسالت ولایت خلافت یہ سب مفاہیم آپس میں فرق رکھتے ہیں اور مصادیق کے لحاظ سے بھی ان میں فرق ہے ہمیں قرآن مجید میں تدبر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ قرآن فہمی نہیں ہوسکتی تفسیر اور تدبر میں فرق ہے تفسیر آئمہ علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور ہم اپنے آپ کو مجازا مفسر کہتے ہیں لیکن تدبر عام ہے تدبر تفسیر بالرای کو نہیں کہتے قرآن ناس کے لئے ہے تو اس میں تدبر بھی کرنا ہوگا اور وجوب تدبر آیات دلالت کرتی ہے۔
ہماری گفتگو سورہ بقرہ کی آیات پر چل رہی تھی اور ان آیات میں امامت کو سمجھنے کے لئے سیاق آیات کو ملاحظہ کرنا ہوگا۔
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانۂ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصلّٰی بناؤ اور ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو۔

جیسا کہ ذکر کیا تھا کہ اہل سنت نے یہاں پر امام سے مراد نبی لیا ہے حالانکہ یہ باطل نظریہ ہے کیونکہ قرآن کی صریح آیات میں موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اولاد بڑھاپے میں ملی حالانکہ وہ جوانی میں ہی نبی تھی جوانی میں انہوں نے بتوں کو توڑا اور توحید کی آواز بلند کی لیکن بعد میں انہیں امامت ملی اور جب امامت انہیں ملی تو اس کی ظرفیت کو دیکھ کر اپنی ذریت کے لئے تقاضا کیا چونکہ امامت معاشرہ سازی کا نام ہے اور نبوت سے زیادہ اس میں ظرفیت پائی جاتی ہے۔
اور آیت میں لفظ من استعمال ہوا ہے کہ جو بعض افراد پر اشارہ ہے یعنی حضرت ابراہیم نے اپنی بعض ذریت کے لئے اسے مانگا یعنی جو ظالم نہیں ہوگا۔
سیاق آیات سے پتہ چلتا ہے کہ گفتگو خانہ کعبہ میں ہورہی ہے کہ جسے بیت مرکزیت اور بیت امن بنایا ہے کیونکہ شناخت کے لئے مرکزیت کی ضرورت ہوتی ہے پراکندگی کی وجہ سے انسان بے شناخت ہوجاتا ہے۔
کعبہ کے دروازے کے سامنے مقام ابراہیم ہے کہ جس کے اندر طواف کرنا جائز ہے لیکن نماز مقام ابرہیم کو سامنے رکھ کر پڑھی جائے اس کا فلسفہ یہ ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ قدموں کے نشان کے ذریعے مجھ تک آؤ یعنی بغیر امامت کی پیروی کے عبادت قبول نہیں ہے قدموں کے نشان کے بغیر صاحب تک پہنچنا ممکن نہیں ہے انہی قدموں کے ذریعے توحید حاصل ہوگی۔
امامت عہد خدا ہے خدا کہتا ہے کہ یہ میرا عہد ہے پس ضوابط کے بغیر نہیں ملے گا ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم روابط کو ضوابط پر ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے بعد امامت کے تقاضوں کو بیان کیا ہے امامت کا پہلا کام مرکزیت کی طرف لانا ہے قرآن کے مطابق نبوت کا کام خدا کی بندگی اور طاغوت سے دوری ہے لیکن بندگی خدا کے لئے طہارت ضروری ہے کہ جو امامت کا کام ہے اسی وجہ سے فرمایا خداوند نے حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے عہد لیا کہ وہ اس کے گھر کو پاکیزہ رکھیں اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہے کہ آئمہ علیہم السلام روح کی تزکیہ کا باعث ہیں پس امامت کا کام مقام عبادت کی طہارت ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=45599