4

پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کا اسرائیلی جن

  • News cod : 46350
  • 18 آوریل 2023 - 23:15
پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کا اسرائیلی جن
پاکستان میں امریکی ایماء اور امریکی مالی امداد کی بنیاد پر چلنے والا بین المذاہب ہم آہنگی کا پروگرام ملک دشمنی پر مبنی ہے۔ حکومتوں کو چاہیئے کہ اقلیتیوں کو آئین کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

جدید دور کی گلوبل ولیج بنتی دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے دو قسم کی آراء موجود ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ معاشروں کی اہم ترین ضرورت ہے جبکہ دوسری اور اہم ترین رائے کے مطابق بین المذاہب کے نام پر مذہب کو خلط ملط کیا جانا اور دین محمدی (ص) کو خلط ملط کرنا ہے۔ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بات سابق صدر پرویز مشرف کے زمانہ میں اس وقت متعارف کی گئی، جس زمانہ میں انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ گرایا تھا۔ نہ صرف اصطلاح استعمال ہوئی بلکہ باقاعدہ طور پر مشرف نے پارلیمنٹ کے اندر زبید جلال کو بین المذاہب ہم آہنگی کا قلم دان سونپ دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس معاملہ کو سرکاری پروٹوکول حاصل ہونے لگا۔ مشرف کے زمانہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ الائن ہوچکی تھی۔ کسی بھی قسم کی سیاسی پیشرفت امریکی سرکار کی مرضی کے بغیر ناممکن تھی۔ اس سب کے عوض امریکی حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بھاری معاوضہ بھی ادا کر رہی تھی۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس بھاری معاوضہ کا ایک بڑا حصہ ملک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھی خرچ کیا جاتا رہا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے سب سے پہلے پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانوں نے مختلف مذہبی رہنماؤں کی تربیت کا کام شروع کیا اور مطلوبہ تربیت کی فراہمی کے بعد مختلف علماء اور اسکالرز کو ملک بھر کے شہروں میں کام کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا۔ ظاہری طور پر یہ کام انسانیت اور محبت کے فروغ کا علمبردار نظر آتا ہے، لیکن اس کی حقیقت سیاہ ترین ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا نعری ایجاد کرنے والے چاہتے تھے کہ مذاہب کو خلط ملط کیا جائے۔ اس عنوان سے اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچنا ہے تو وہ اسلام ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے اس جن نے اپنے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا مخلوط مذہبی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی، جس میں غلط کو غلط نہ کہا جائے اور حق کو حق نہ کہا جائے۔

ایک عام مثال کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے کام کرنے والے مختلف مسیحی، ہندو اور دیگر اقلیتی عناصر سے امریکہ میں مقیم اسرائیل کی حمایت یافتہ خاتون انیلہ علی نے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا خلاصہ صرف اور صرف یہ تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی آڑ میں پاکستان میں اسرائیل کے لئے لابنگ کی جائے۔ اب یہاں پاکستان کی مسیحی برادری سے خاص طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں چرچ اور مسیحی عبادتگاہوں کا یہی کام ہے کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کے لئے کام کریں۔؟ کراچی سمیت لاہور کے مختف چرچ اس کام کے لئے ٹاسک لئے ہوئے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا سہارا لیتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ کی بات کی جا رہی ہے۔

لاہور میں چرچ کے رہنماء فادر جیمز اس وقت باقاعدہ طور پر پاکستان میں اسرائیل کے لئے سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے نے بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے بلائی گئی کچھ میٹنگز میں باقاعدہ اسرائیل کے لئے لابنگ کی کوشش کی۔ بعد ازاں ان کے یہ پروگرام پاکستان کے دشمن اسرائیل کے سوشل میڈیا پر نشر کئے جاتے ہیں۔ کراچی کے چرچ میں بھی بشپ خادم بھٹو اس عنوان سے سامنے آچکے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے جن کا سہارا لیتے ہوئے انہوں نے ایک این جی او بنائی ہے، جس کے مونو گرام میں اسرائیل کا جھنڈا شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح مسیحی برادری میں پاسٹر امجد پاکستان میں اسرائیل کے لئے سرگرمیوں میں ملوث رہنے والے اہم ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ماضی قریب میں پاکستان کے مختلف چرچ میں صہیونیوں کے تہوار بھی منا کر پاکستان کی نظریاتی اور آئینی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے اسرائیلی جن کا سہارا جہاں پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی مسیحت لے رہی ہے، وہاں مسلمانوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کیا ہے۔ شہر کراچی میں عالم نما شخصیت قاری احسان صدیقی بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے اسرائیل کے لئے کام کرنے میں کوشاں ہیں۔ انہوں نے بھی ملک کے مختلف علاقوں میں فادر جیمز، پاسٹر امجد اور انیلہ علی کے ساتھ مل کر صہیونیوں کے تہوار منائے ہیں اور پاکستان کے نظریاتی تقدس کو پامال کیا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا جن جو امریکہ نے مشرف کے زمانہ میں پیدا کیا تھا، آج وہ بیس سال بعد اپنا رنگ دکھانے میں مصروف ہے۔ ظاہری طور پر سہانے نظر آنے والے معاملات ملک کی ترقی اور نظریاتی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے اور قونصلیٹ باقاعدہ بین المذاہن ہم آہنگی کے فورمز کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور ان فورمز میں کام کرنے والے مذکورہ بالا افراد کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ کا اس کام میں کیا فائدہ ہے؟ کیا بین المذاہب ہم آہنگی کے اس طرح کے ادارے امریکہ میں بھی کام کر رہے ہیں یا فقط امریکی عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی رقم کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے اداروں کی نشو و نما کی جا رہی ہے۔؟ ہاں یہ بات واضح رہنی چاہیئے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ اب سمجھ سے بالا تر بات یہ ہے کہ آخر بین المذاہب ہم آہنگی میں اسرائیل کون سا مذہب ہے، جس کے لئے پاکستان کے چند مسیح رہنماء اور کچھ مسلمان نما افراد اس گھناؤنی سازش میں شامل ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں امریکی ایماء اور امریکی مالی امداد کی بنیاد پر چلنے والا بین المذاہب ہم آہنگی کا پروگرام ملک دشمنی پر مبنی ہے۔ حکومتوں کو چاہیئے کہ اقلیتیوں کو آئین کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے، لیکن یہ اجازت نہیں دیتا کہ اقلیتی برادری پاکستان کی نظریاتی اور آئینی اساس کے تقدس کو پائمال کریں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا اسرائیلی جن پاکستان میں آزاد نہیں رہنے دیا جائے گا۔ یہ پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات ہیں، جو فلسطین کاز کے ساتھ ہیں اور کسی کو پاکستان کے خلاف سازشوں پر معاف نہیں کریں گے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=46350