8

تشیع کا سیاسی نظریہ (۷)

  • News cod : 4641
  • 01 دسامبر 2020 - 11:58
تشیع کا سیاسی نظریہ (۷)
حوزہ ٹائمز| قرآن کریم کی اہم صفات میں سے ایک اس کا جامع ہونا ہے۔ امت اسلامیہ متفق ہے کہ قرآن کریم متعدد اور گوناگوں معارف پر مشتمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام جوانب کو شامل ہے۔ انہی اہم ترین ابحاث میں سے ایک دین اور سیاست کا باہمی تعلق۔

تشکیل حکومت کی ضرورت

قرآن کریم کی اہم صفات میں سے ایک اس کا جامع ہونا ہے۔ امت اسلامیہ متفق ہے کہ قرآن کریم متعدد اور گوناگوں معارف پر مشتمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام جوانب کو شامل ہے۔ انہی اہم ترین ابحاث میں سے ایک دین اور سیاست کا باہمی تعلق۔
اور حکومت کی تشکیل سے متعلق مباحث ہیں۔

دین اور سیاست کا باہمی تعلق کو قرآنی معارف میں واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
سیاست کے موضوع پر قرآنی معارف مختلف آیات میں بکھرے ہوئے ہیں۔
انہی میں سے ایک موضوع تشکیلِ حکومت کی ضرورت کا بیان ہے۔
زیر نظر سطور میں قرآن کریم کی نگاہ میں عالمی سطح پر بین الاقوامی روابط، شوری اور مشاورتی نظام جیسے موضوعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

تشکیلِ حکومت کی ضرورت

قرآن کریم کی نظر میں حکومت دین سے جدا نہیں اور دین اور سیاست کا باہمی تعلق اس گہرے طور پر ہے جو کسی صورت ٹوٹ نہیں سکتا۔ آیت‌ اللھ مکارم شیرازی بیان کرتے ہیں:
(سورھ حدید، آیت ۲۵ کے مطابق)
انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔
دین اس لیے آیا ہے کہ انسان کو اسارت و قید و بند سے چھٹکارا دلائے اور بشر کو خواہشات نفسانی کے زندانوں اور ذلت و پستی کے مقامات سے آزادی عطا کرے۔
سورھ اعراف، آیت ۱۵۷ کے مطابق دین کی آمد کا مقصد مستضفعین کو ظالمین اور ستمگروں کے چنگل سے نجات دینا اور ظالمین کی برتری کو ختم کرنا ہے۔
واضح سی بات ہے کہ دین کے یہ اہداف حکومت کی تشکیل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر دین اور سیاست کی ہاہمی جدائی کے قائل ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دین آنے کے جو اہداف تھے وہ حاصل نہیں کیے جا سکتے اور دین اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتا۔
پس اگر دین اور سیاست کا باہمی تعلق ختم کر دیا جائے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا جائے تو دین تخریب کار انسان کی فقط خواہشات و ذاتی اہداف کے حصول کا ایک آلہ و ہتھیار بن کر رہ جائے گا۔

شہید مطہری فرماتے ہیں:
دین اور سیاست کا باہمی تعلق عام فہم بنا کر ہمیں پیش کرنا چاہیے اور عوام کو باور کرانا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔
جمال الدین افغانی نے بھی دین اور سیاست کی جدائی کی فکر کے خلاف مبارزہ کیا۔
ان کا نظریہ تھا کہ اسلام دینِ سیاست ہے۔
اسلام اجتماعیات کا دین ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4641