15

تفتان بارڈر۔۔۔ تحقیقاتی کمیشنز کی ضرورت

  • News cod : 47677
  • 30 می 2023 - 15:48
تفتان بارڈر۔۔۔ تحقیقاتی کمیشنز کی ضرورت
2019ء میں بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے میں چودہ اہلکار شہید ہوگئے، جبکہ سیستان بلوچستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر ایک ہی حملے میں ستائیس جوانوں کی لاشیں گرائی گئیں۔

تفتان بارڈر۔۔۔ تحقیقاتی کمیشنز کی ضرورت

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

آج سے کوئی دس دن پہلے کی بات ہے۔ 18 مئی کی تاریخ تھی، وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے صوبہ بلوچستان میں ایک سرکاری ملاقات کی۔ اس ملاقات سے بے روزگار عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ امیدیں اُس وقت مزید بڑھ گئیں، جب ایک سو میگاواٹ گبد-پولان بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا گیا۔ گبد-پولان بجلی کے منصوبے سے بلوچستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا۔یہی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بلوچستان کی صنعت و حرفت میں ترقی کا ضامن ہے۔ اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ اس موقع پر پاک ایران سرحد پر پشین کے مقام پر ایک بارڈر مارکیٹ کا بھی افتتاح کیا گیا۔ افتتاح کے وقت یہ خبر بھی چلی کہ مزید پانچ بارڈر مارکیٹس عنقریب کھول دی جائیں گی۔ ان مارکیٹس کے کھلنے کا سب سے بڑا فائدہ سمگلنگ کی روک تھام ہے۔ اب پتہ نہیں سمگلنگ کی روک تھام سے کسے مسئلہ ہے۔؟

صدر رئیسی کے دورہ بلوچستان کے ٹھیک دو دن کے بعد مغربی بلوچستان کے علاقے سراوان میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملہ ہوا اور چھ اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ بالکل ویسے ہی ہے، جیسے ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران اچانک کلبھوشن نمودار ہوگیا تھا۔ پاک ایران بارڈر پر تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات کا ہونا معمول ہے۔ ان واقعات کا بڑا فائدہ اسمگلر حضرات کو پہنچتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسمگلنگ کرنے والے تنِ تنہا اتنے طاقتور تو ہو نہیں سکتے، لہذا اس کیلئے مختلف ماہرین پر مشتمل کوئی کمیشن بنانا چاہیئے، جو بارڈر پر اسمگلنگ کے قانونی و غیر قانونی طریقوں کی نشاندہی کرے۔ صرف یہ نشاندہی ہی کافی نہیں بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ سمگلر حضرات کس کی چھتری کے نیچے کام کر رہے ہیں، ان کے سہولت کار، سرپرست اور ان سے فائدہ اٹھانے والے کون لوگ ہیں!؟ ہمیشہ چند دنوں کے بعد چپکے سے کبھی پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں کی جان لے لی جاتی ہے اور کبھی ایرانی اہلکاروں کی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر اِن اہلکاروں کے خون کو کون چاٹ رہا ہے۔؟

2019ء میں بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے میں چودہ اہلکار شہید ہوگئے، جبکہ سیستان بلوچستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر ایک ہی حملے میں ستائیس جوانوں کی لاشیں گرائی گئیں۔ اپریل 2019ء میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایران کا دو روزہ دورہ کیا تو سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ایک مشترکہ ریپڈ ایکشن فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ تو بہت اچھا تھا، لیکن کوئی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد تو اسمگلروں کے چوکیدار ہیں۔ اسمگلر خود کسی کے تنخواہ دار اور حصّہ دار ہیں۔ جو چوکیداروں میں تنخواہیں اور اسمگلروں میں حصّے اور علاقے تقسیم کرتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ ان سب سے بڑا ہے۔ جو ان سب سے بڑا ہے، وہی نامعلوم ہے۔ اب نامعلوم کا پیچھا ہونے سے تو رہا، لہذا یہ خون تو بہتا رہے گا۔ کبھی کبھی اس نامعلوم کو مزید چھپانے کیلئے بے چارے سکیورٹی اہلکاروں کے اس خون میں زائرین کا خون بھی ملا لیا جاتا ہے۔

ان دنوں جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے، تفتان بارڈر پر زائرین کی چیخیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ ویسے سخت سردی میں بھی ان چیخوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ بیچ کے درمیانے موسم میں لوگ سب کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ البتہ جب موسم کی گرمی یا سردی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر چیخ و پکار اور واویلا سنائی دینے لگتا ہے۔ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے، اس کے پیشِ نظر ہم بارڈر پر کھڑے اور ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اہلکاروں کی زندگیوں کی حفاطت اور اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔اس مطالبے کے ساتھ ہی سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام کی خدمت میں ہماری یہ درخواست بھی ہے کہ تفتان بارڈر پر جن اہلکاروں کو تعینات کیا جائے، انہیں اگر شہریوں کا احترام سکھانا ممکن نہیں تو انہیں صرف اتنا بتا دیا جائے کہ سخت گرمی میں انسانوں کو پیاس لگتی ہے۔

انہیں دھوپ میں سائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو تپتے صحرا میں جلتی ہوئی زمین پر بٹھانا والدین کیلئے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے اور۔۔۔ اگر اعلیٰ حکام کے ماتحت کچھ پڑھے لکھے اور سمجھدار افراد موجود ہیں تو اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک مختصر اور مفید فارم ہی بنوا کر ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو بھیج دیں، تاکہ زائرین جلدی سے وہ فارم پُر کرکے بارڈر عبور کرلیا کریں۔ اس کے ساتھ ہی یہ گزارش بھی نتھی کر لیں کہ اگر ڈیٹا ریڈنگ ٹیکنالوجی کا بندوبست ہو جائے تو یہ مسافر آپ کو دعائیں دیں گے۔ اسی طرح مسافروں میں سے تاجروں اور طالب علموں کو الگ الگ لائنوں میں کھڑا کر دیا جائے تو لوگوں کو دی جانے والی اذیّت اور تکلیف میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

ممکن ہے کہ اعلیٰ حکام میں سے کسی کا دل پسیج جائے، ہوسکتا ہے کہ کوئی لوگوں کی دعائیں لینے کا ارادہ کر لے، لہذا ایسے فرشتہ صفت اعلیٰ افسر کی بارگاہ میں آخری گزارش یہ بھی ہے کہ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ اہلکار حضرات ماضی کی طرح لوگوں کو الگ الگ بلا کر ہدیہ، عیدی، تحائف، کمیشن اور قیمتی پتھر انیٹھنا شروع نہ کر دیں۔ جہاں ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ بارڈر پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کی حفاظت اور اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے ایک بااختیار کمیشن بنایا جائے، وہیں ہماری یہ بھی گزارش ہے کہ بارڈر عبور کرنے والے لوگوں کو بھی انسان سمجھا جائے۔سکیورٹی اہلکاروں کا خون ِناحق ہو یا مسافروں کو اذیّت دینے کا عمل، یہ دونوں طرح کی کارروائیاں رُکنے میں نہیں آ رہیں، لہذا ان کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیئے اور تحقیقاتی کمیشن بننے چاہیئے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=47677