حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
موضوع: منتظر کی ذمہ داری ، امام سے عہدو پیمان باندھنا، امام عصر عج کا شکوہ، امام سب سے بہترین پناہگاہ
خلاصہ:
موضوع گفتگو انتظار ہے اور معرفت کے بعد اہم ترین بحث امام زمانہؑ عج سے عہد و پیمان ہے
قرآن مجید میں سورہ الرعد آیت نمبر 20 میں اہل ایمان کے اللہ کے ساتھ عہد و پیمان کا ذکر کیا کہ:
اَلَّـذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّـٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ (20)
وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پوراکرتے ہیں اور اس عہد کو نہیں توڑتے۔
خدا کے ساتھ عہد و پیمان کیسے ہوگا یعنی اللہ سے عہد و پیمان اور اس کے ولیؑ سے عہد و پیمان کیونکہ اللہ کا ولیؑ اس کی راہ میں ہماری ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں آئمہؑ نے روایات کے اندر خود کو عہد اللہ قرار دیا۔
(سبحان اللہ!)
فرماتے ہیں کہ:
نحن ذمۃاللہ و عھد اللہ فمن و فی بعھدنا فقد و فی بعھد اللہ ومن حفر ھا فقط حفر اللہ عوھدہ
ہم خدا کا عہد ہیں جس نے بھی ہمارے ساتھ ایفائے عہد کیا اس نے خدا سے پیمان کو ادا کیا اور جس نے ہمارا عہد توڑا اس نے خدا کے عہد کو توڑا۔
ایک منتظر اور مومن شخص اپنی روحانی اور باطنی حالت کو بہتر کرتا ہے۔ اور اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرتا ہے اور اس قدر عہد مانگتا ہے کہ پروردگارا میرا جسم ، مال اولاد جو کچھ بھی ہے وہ تیرا ہے میں وہ سب تیرے اور تیرے ولیؑ کی راہ میں خرچ کروں گا۔
اپنے زمانے کے اماؑم کی راہ میں جب وہ پیش ہوتا ہے تو ہم مفاتح الجنان امام زمانہؑ عج کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ
و ابذل مالی و اھلی و نفسی
کہ میں اپنا سب کچھ اپنا مال اہل اور جان آپ کی راہ میں قربان کروں گا یہ میرا عہد ہے۔ اہل انتظار و تقوٰی اپنے امام ؑ کے ساتھ ایسا ہی عہد کرتے ہیں کیونکہ جو کچھ ہمارے پاس ہے جب وہ راہِ خدا میں خرچ ہوگا تو باقی رہے گا اور اگر ہم پر خرچ ہوا تو ختم ہو جائے گا۔
سورہ نحل آیت نمبر 96 میں پروردگار فرما رہا ہے کہ:
مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللّـٰهِ بَاقٍ ۗ
جو تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا، اور جو اللہ کے پاس ہے کبھی ختم نہ ہوگا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے یہ ذخیرہ رہے اور اس کے ولیؑ کی راہ میں خرچ ہو تو جب ہم ایک عام مومن کو قرض دیتے ہیں تو وہ کئی گناہ بڑھ جاتا ہے ۔ تو وہ جب ہم وقت کے ولیؑ کی راہ میں دیں گے تو اللہ اس کا کتنا اجر دے گا اور وہ کتنا بڑھ جائے گا۔
پس مومن منتظر ہر روز اپنے امامؑ کے ساتھ عہد و پیمان باندھتا ہے۔ بلکہ ہم روایات میں دیکھتے ہیں کہ جو بھی اپنے وقت کے امام کے ساتھ عہد کے بغیر مرا تو گویا جہالیت کی موت مرے گا۔
امامؑ عج سے عہدو پیمان کے حوالے سے امام جعفر صادقؑ نے ہمیں ایک بہترین دعا تعلیم کی اور وہ دعائے عہد ہے۔ کہ جو بھی اس دعا کو 40 دن پڑھے گا تو اللہ اسے زندہ بھی کرے گا جب امامؑ کا ظہور ہو گا اور وہ اپنے مولا ؑ کے شانہ بشانہ جہاد کرے گا۔ یہ سب ہماری احادیث میں موجود ہے۔
دعائے عہد:
دعائے عہد ایک قسم کی میثاق ہے ہم اس دعا میں عہد کرتے ہیں کہ اپنے امامؑ پر اپنی جان و مال و اہل فدا کردیں گے۔
انسان اللہ سے اور اس کے ولیؑ سے ہمیشہ میثاق باندھا کرے کہ اس سے دین و تقوٰی کو طاقت ملتی ہے اور وہ پختہ ہوتا ہے۔
ہمارے بہت سارے وعدے تھے جو اب تک ہم نے پورے نہیں کئے اور اس کا شکوہ بھی امام زمانؑ عج سے نقل ہوا ہے جیسے احتجاج طبرسی میں شیخ مفید ؒ کو امامؑ کا وہ خط کہ فرمایا:
لو اشیاعنا وفقھم اللہ لطاعتہ علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بلعھد علیھم لما تاخر عنھم الیمن بلقائنا
“اگر ہمارے شیعہ کہ خدا ان کو توفیق دے وہ ایفائے عہد جو ان کے ذمہ ہے اس پر متحد ہوجاتے تو ہماری ملاقات کی برکت میں اتنی تاخیر نہ ہوتی”۔
اللہ اکبر!
شیعوں نے امامؑ سے عہد باندھا تھا جو پورا نہ کیا اور اس میں ایک چیز آپس میں ہمدلی اور اتفاق تھا۔ جو ابھی تک ہم اس منزل تک نہیں پہنچ رہے۔
پناہ گاہ:
منتظر مشکلات میں پناہ گاہ کی تلاش میں رہتا ہے اور پناہ گاہ ولی ہے۔ اس کا امامؑ ہے۔ یعنی وہ جب بھی کسی مشکل میں پھنسے تو اپنے امام سے توسل کرے۔ یہ انس و محبت امام معصوم ؑ اور اس کے ظہور کے انتظار کے علاوہ کس سے ہو سکتا ہے۔ یہ امامؑ کی شان ہے۔
امام رضا ؑ فرماتے ہیں کہ:
الامام الانیس الرفیق والوالد الشفیق
امام ؑ بہترین دوست ، بہترین ہمنشین، شفیق والد سگے بھائی کی مانند ہے۔ اور لوگ اس طرح امامؑ کی پناہ میں ہوتے ہیں جیسے چھوٹا بچہ آغوش مادر میں ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
کہتے ہیں کہ ایک ماں کو جتنا ایک دودھ پیتے بچے سے پیار ہے امامؑ کو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور امامؑ پناہ دیتے بھی ہیں ۔ اس وقت دنیا میں دیکھیں ہمارے مجاہدین جو ظالمین سے لڑ رہے ہیں وہ کیوں ہمیشہ سرفراز ، زندہ ہیں۔ کیوں دشمن ان سے خائف ہیں بلآخر امامؑ کی پناہ گاہ میں ہیں۔ ہاں ایک تسلسل ہے شہادتوں کا لیکن یہ امام ؑ کی پشت پناہی ہے کہ ہم نے تقیہ چھوڑ دیا ہے اور دشمن سے ٹکرا رہے ہیں۔
اگر امامؑ کی راہ میں اٹھیں تو یقیناً مولاؑ کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس راہ میں قربانیاں بھی ہیں لیکن بطور کلی ہماری حرکت فتح والی ہے۔ ہم آگے ہی بڑھ رہے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹ رہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں انتظار ، اس کی خصوصیات اور وظائف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔