2

تفسیر سورہ حجرات – درس 5 – تیسری آیت

  • News cod : 53303
  • 13 ژانویه 2024 - 20:17
تفسیر سورہ حجرات – درس 5 – تیسری آیت
اہل ایمان کی نشانی انکی آواز رسول کریم ص کی بارگاہ میں نیچی ، ادب اندرونی تقوی کا اظہار ، قرآن میں کلام کے آداب ، پہلے مغفرت پھر اجر ، اہل انتظار باادب ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

خلاصہ :

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـٰهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوٰى ۚ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)

بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ کے حضور دھیمی کر لیتے ہیں یہی لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔

تفسیر :
عربی میں غضو کا معنیٰ کسی چیز کو نیچے لانا اور عام طور پر یہ آواز کو نیچے کرنے کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور قرآن مجید میں نامحرم کے مد مقابل اپنی آنکھوں کو نیچے کرنے کے لیے بھی یہی لفظ غضو آیا ہے۔
فرمایا :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ

تو جس طرح نامحرم کو دیکھ کر انسان اپنی آنکھیں جھکائے اسی طرح بزرگوں کی محفل میں اور بلخصوص جس محفل میں نبیؐ کریم ہوں وہاں ادب و احترام کے ساتھ اپنی آواز کو نیچے رکھے۔

جس طرح اللہ ہمیں آواز میں ادب کا حکم دے رہا ہے تو کردار میں ادب اس سے زیادہ بڑھ کر ضروری ہے۔ انسان کا آہستہ اور آواز کو نیچے رکھ کر گفتگو کرنا یہ ایک مودب ، باادب اور متواضع اور باوقار انسان کی نشانی ہے۔

اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ پروردگار دلوں کو آزماتا ہے۔ ان کی پاکیزگی اور انسان کے اندر چھپا ہوا تقویٰ ظاہر ہو۔

متقی شخص کی نشانیوں میں سے یہ ایک نشانی ہے۔ ویسے تو تقوٰی ایک ایسی صفت ہے جو ظاہر سے نظر نہیں آتی انسان کے اندر ہوتا ہے لیکن اس کی جو نشانی ہے وہ اس کا ادب ہے ۔ جو شخص اپنی رفتار و گفتار میں دوسروں کے ادب کا خیال رکھے وہ گویا متقی ہے۔ البتہ یہاں توجہ رکھنی چاہیے کچھ لوگ بظاہر مودب اور متواضع ہوتے ہیں۔ یعنی ریاکار ہوتے ہیں اور اندر سے متکبر اور مغرور ہوتے ہیں۔ تو وہ آہستہ آہستہ پہچانے جاتے ہیں۔

پروردگار قرآن کریم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اپنی جزا کو بیان فرماتا ہے کہیں اجر کریم، اجر عظیم، اجر کبیر، اجر غیر ممنون۔۔۔ یہ تمام الفاظ قرآن پاک میں آئے اور اس کا منبع اور سرچشمہ خدا کی رحمت ہےاور اس کا بے پناہ لطف ہے کہ اللہ نے اس شخص کو اپنی بے پناہ رحمت سے نوازنا ہے۔

اس آیت میں گفتار کے اندر ادب کو محور قرار دیا گیا ہے۔ تو یہاں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام نے مختلف آیات میں جو بیان کیا ہے اس کو بھی یہاں بیان کیا جائے۔

مثلاً ایک مقام پر قرآن کہہ رہا ہے کہ انسان کی گفتگو جھوٹی نہ ہو۔ بلکہ گفتگو ایک حقیقت کی جانب اشارہ کرے اور جاذب اور دلپسند ہونی چاہیے۔ اسی طرح گفتگو شفاف ہو اس کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملایا جائے ۔ اور پیچیدہ گفتگو سے پرہیز کیا جائے اور جھگڑے کے ساتھ گفتگو نہ ہو۔ اور گفتگو کے اندر اپنی بزرگی اور بڑائی کے اندر لحاظ رکھا جائے تاکہ دوسروں کو پتہ چلے کہ گفتگو کرنے والا کتنی بڑی ہستی ہے۔ قولاً کریما

گفتگو ایسی ہو کہ جسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ قولاً محصورا اور ایسی گفتگو ایسی ہو کہ جس میں جھوٹ ، بیہودگی اور باطل چیز نہ ہو۔ اور گفتگو کے اندر انسان کا کردار بھی انسان کی ہمراہی کرے یعنی جو کہہ رہا ہے اس پر عمل کرے۔

یہ بنیادی نکات ہیں جو قرآن مجید نے گفتگو کے حوالے سے بیان کیے۔

اہم پیغامات:
یہ آیت ہمیں کئی پیغامات بھی دے رہی ہے۔

پچھلی آیت میں اللہ نے بے ادبی کرنے والوں کو تنبیہ کی تھی اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ ادب کرنے والوں کو اجر کی بشارت دے رہا ہے اور حوصلہ افزائی فرما رہا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ :
اہل ادب کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ادب ہمیشہ ہو۔ یعنی وقتی طور پر چند لحظوں کے لیے نہ ہو۔
مغفرت اور پھر اجر۔ یعنی سب سے پہلے انسان گناہوں سے پاک ہوگا پھر وہ خدا کی رحمت اور لطف اسے حاصل ہوگا۔ اس لیے اللہ پہلے ان کو لطف دیتا پھر رحمت سے نوازتا ہے۔

یہاں لفظ مغفرت کے ذریعے یہاں پروردگار عالم واضح کر رہا ہے کہ کبھی کبھی اہل تقوٰی سے بھی خطا ہو جاتی ہے لیکن اہل تقویٰ کو بھی پروردگار اپنی مغفرت اور بخشش سے نوازتا ہے۔

اس آیہ مجیدہ نے ہمیں بنیادی طور پر ادب کا درس دیا ہے۔

اہل انتظار:
اہل انتظار اہل ادب ہیں۔ اور ہمیشہ پروردگار کی بارگاہ میں خود کو پاتے ہیں اور اپنے ولیؑ کے روبرو ہیں اور اسی لیے ان کی گفتار و کردار و افعال کے اندر ادب و تواضع ہے اور وہ ریاکار نہیں ہیں۔

پروردگار عالم ہم سب کو اسی طرح مخلصین ، متواضع اور باادب منتظرین میں سے قرار دے۔
آمین۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=53303