8

جنگ نرم جو قوموں کو تباہ و نابود کرتی ہے!!

  • News cod : 53714
  • 13 فوریه 2024 - 16:46
جنگ نرم جو قوموں کو تباہ و نابود کرتی ہے!!
رھبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے دسمبر، 2008 میں ہزاروں بسیجیوں سے ملاقات میں خطاب کے دوران فرمایا کہ: نرم جنگ؛ یعنی لوگوں کے دل و دماغ میں شکوک پیدا کرنا، نرم جنگ کا مطلب، ثقافتی آلات کے ذریعے، اثر و رسوخ بڑھانے کے ذریعے، جھوٹ کے ذریعے، افواہیں پھیلانے کے ذریعے کسی قوم کے خلاف جنگ کرنا ہے۔

پہلا حصہ!! نرم جنگ (سوفٹ وار) کی حقیقت!!
اکبر حسین فیاضی
نرم جنگ دشمنی پر مبنی، جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پانے والے اقدامات پر مشتمل خفیہ اور آشکار کاروائیاں ہیں جو کسی قوم کی ثقافتی شناخت، “بنیادی اقدار اور رویوں” میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور کسی بھی علاقے میں رائج سیاسی، اجتماعی اور اعتقادی نظریات پر مشتمل نظام میں لوگوں کی طرف سے قبول کیے گئے ماڈل نظام اور نظریات و افکار کی غیر موثریتو نابود ہونے کا سبب بنتی ہے۔
یہ جنگ کسی بھی قوم کی دینی اور سیاسی نظام کے تمام سماجی شعبوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے دسمبر، 2008 میں ہزاروں بسیجیوں سے ملاقات میں خطاب کے دوران فرمایا کہ: نرم جنگ؛ یعنی لوگوں کے دل و دماغ میں شکوک پیدا کرنا، نرم جنگ کا مطلب، ثقافتی آلات کے ذریعے، اثر و رسوخ بڑھانے کے ذریعے، جھوٹ کے ذریعے، افواہیں پھیلانے کے ذریعے کسی قوم کے خلاف جنگ کرنا ہے۔
(ملک بھر کے ہزاروں بسیجیوں سے ملاقات میں بیان ۱۳۸۸/۰۹/۰۴)
اس مختصر بیان سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ: نرم جنگ میں ثقافتی یلغار، نفسیاتی جنگ، تخریب، تحریف، افواہیں اور جھوٹ پر مبنی تحریروں و تقریروں کے علاؤہ اور بھی بہت سارے اقدامات شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی مذکورہ تعریف سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ: نرم جنگ جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پانے والی کارروائیاں ہیں۔
نرم جنگ کے اہم ترین میدان ثقافتی، سیاسی اور سماجی میدان ہے۔ نرم جنگ کرنے والوں کا بنیادی مقصد سامعین کے عقائد، رویوں، اقدار اور فکری و نظریاتی رویوں کو متاثر کرنا ہے۔
نرم جنگ کا ہدف صرف دوسرے ممالک، علاقوں اور شہرو و دیہات کے عوام تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا ہدف ریاستوں، حکمرانوں اور اشرافیہ کو بھی کرتی ہے۔
نرم جنگ کے کرنے والے دشمن ، سامعین اور مخاطبین کے کردار، رفتار، نظریات اور طرز عمل، ثقافت و فرھنگ کو طویل مدت اقدامات کے زریعے متاثر اور تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
نرم جنگ کا نظریاتی پس منظر
جنگ، ہمیشہ سے انسانی فطرت کے ایک حصے کے طور پر جانا جاتا ہے جس طرح انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے اور اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور اسی طرح جنگ کی کیفیت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، چنانچہ تاریخ بشریت کے مطابق جنگوں کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ان تقسیمات میں سے سب سے مشہور قسم، جنگوں کو شدت اور ضعف کی مبنا پر تقسیم کیا جانا ہے۔ درجہ بندی کے حساب سے جنگ کی دوسری قسم، ہتھیاروں کے استعمال کے لحاظ سے تقسیم ہے، جو کہ جنگ گرم اور سرد جنگ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اسی طرح جنگ کھلی و آشکار ہے یا خفیہ، اس حساب سے جنگ، کھلی جنگ، نیم پوشیدہ جنگ اور چھپی ہوئی جنگ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سخت اور نرم جنگ میں فرق
نرم جنگ کا دائرہ اور محور سماجی، ثقافتی اور سیاسی ہیں، جب کہ سخت جنگ کا دائرہ فوجی اور نظامی ہے۔
نرم جنگ پیچیدہ ہوتی ہے اور اس کی شدت و ضعف کا اندازہ لگانا مشکل ہوتی ہے جبکہ سخت جنگ محسوس، حقیقی اور آشکار ہوتی ہے اور کچھ معیارات کے مطابق اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سخت جنگ کا طریقہ طاقت اور جبر (مسلح قوت) کا استعمال ہے، جب کہ نرم جنگ میں، محکوم قوم کا اطمینان حاصل کرنا اور ان کے فکر و ذہن پر قبضہ کرکے ان کو غلامی کے لیے آمادہ کرنے کے لیے مختلف مادی و غیر مادی زرائع کا استعمال کیا جانا ہے۔
سخت جنگ میں مخالف قوم کو تباہ اور ان کو جسمانی طور پر ختم کر کے اور ان کی زمینوں پر قبضہ اور کر کے، دشمن قوم اپنی نظریات اور مرضی کے مقاصد ان مسلط کرتا ہے، جبکہ نرم جنگ کے مقاصد، اس قوم کے انتخاب (پسند و ناپسند)، فیصلہ سازی کے عمل اور طرز عمل، سوچ اور فکر پر اثر انداز ہو کر حاصل کیے جاتے ہیں اور آخر کار خود اس قوم کی شناخت و ھویت کو تبدیل کرنا اور دشمن کے مقاصد و اھداف کے مطابق سوچنے پر وادار کرنا ہوتا ہے۔ سخت جنگ ردعمل اور اشتعال کے ساتھ ہوتی ہے۔ نرم جنگ میں چونکہ دشمن کا حملہ غیر محسوس اور غیر قابل ادراک ہونے کی وجہ سے اس کا سمجھنا مشکل ہے اور اسی وجہ سے اس میں زیادہ تر ردعمل کا فقدان ہوتا ہے۔
سخت جنگ، قدیم نوآبادیات (فوجی کارروائی کا دور) کے زمانے میں بنیادی نوعیت کی کار زار تھی۔ تاہم، نرم جنگ کا حربہ، نوآبادیات یا ثقافت کی عالمگیریت (دلوں اور دماغوں کو فتح کرنے کا دور) کے دور میں استعمال ہوتا ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی جنگ سخت اور نرم میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
سخت جنگ میں، جسم خاک و خون میں غلطان ہو جاتے ہیں، لیکن روحیں اس فانی دنیا سے اڑ کر جنت میں جاتی ہیں۔ لیکن نرم جنگ میں، اگر خدا نخواستہ، دشمن جیت جائے تو جسم ترو تازہ اور تندرست رہتے ہیں، لیکن روحیں جہنم کی گہرائیوں میں چلی جائیں گی پس نرم جنگ بہت زیادہ خطرناک ہے۔
(ہزاروں بسیجیوں سے ملاقات میں بیان ۱۳۹۵/۰۹/۰۳)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=53714

ٹیگز