6

نرم جنگ (سوفٹ وار) جو قوموں کو تباہ و نابود کرتی ہے!

  • News cod : 53756
  • 15 فوریه 2024 - 17:17
نرم جنگ (سوفٹ وار) جو قوموں کو تباہ و نابود کرتی ہے!
سافٹ وار کے جنگجو سامعین و مخاطبین کے جذباتی و احساساتی نظام اور ان کے رویوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے

دوسرا حصہ!!نرم جنگ کے لیے انجام پانے والے اقدامات!!

اکبر حسین فیاضی

نرم جنگ کا فطری قاعدہ یہ ہے کہ جس قوم پر جنگ مسلط ہوئی ہے وہ خود دشمن کے اغراض و مقاصد پورا کر کے دشمن کے حوالے کریں۔

یعنی دشمن کو اس علاقے میں گسنے، یا وہاں پر حملہ کرنے یا اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے خود سے تگ و دو کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ جس علاقے یا قوم و ملک پر نرم جنگ مسلط ہوئی ہے اس علاقے یا ملک میں رہنے والے، خود اپنے ہاتھوں سے دشمن کے اغراض و مقاصد بڑے احترام اور تکریم کے ساتھ ان کے حوالے کر دیتے ہیں!!

البتہ ایک قوم کو اس کام پر وادار اور آمادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس قوم کا دل و دماغ قبضے میں لیا جائے، دوسرے لفظوں میں جن کے دل و دماغ فتح ہو جائیں اور جن کی فکرو سوچ دشمن کے ہاتھوں اور قبضے میں چلی جائے، وہ قوم اپنی خودی، اپنی ھویت، اپنی شناخت اور اپنی ثقافت و فرھنگ سب کچھ، ہنسی خوشی دشمن کے حوالے کر دیتی ہیں اور یہ قوم بڑی آسانی کے ساتھ دشمن کے اغراض و مقاصد کے مطابق کام کرتی ہے!!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: کسی قوم یا کسی ملت کے دل ودماغ اور فکر و نظر کو اس طرح فتح کرنے کا طریقہ کیا ہے کہ وہ خود اپنے دشمنوں کی خواہشات و اغراض و مقاصد پورا کرنے پر راضی ہوجائیں؟؟

یہ طریقہ بہت آسان ہے اور ساتھ ہی مشکل بھی، چنانچہ کسی بھی قوم کے ذہن اور دل کو متاثر کرنے کے لیے دشمن دو کام انجام دیتا ہے:

پہلا اقدام یہ کہ: دشمن، اس قوم تک معلومات پہنچانے والے زرائع پر کنٹرول کیا کرتا ہے، جیسے اخبارات، میڈیا، سوشل میڈیا، سیاستدان، کھیلوں کے مشھور کھلاڑی، تعلیم یافتہ طبقہ، بعض نادان علما، قوم کے بڑے اور ہر وہ زرائع جن کا اثر رسوخ اس قوم پر ہوتا ہے!!

دوسرا کام : اس قوم کی جذبات و احساسات کو بھڑکانے والے عوامل دشمن اپنے قبضے میں لیتا ہے، جیسے ان کی محرمیت کا ڈھنڈورا پیٹنا ، ان کو مظلومیت کا احساس دلانا، ان کو عقب ماندہ و غیر ترقی یافتہ ثابت کرنا، احساس حقارت، احساس محرومی، احساس تحقیر بھڑکانا۔۔۔

دشمن ان دو اقدامات کے زریعے اس قوم کے دل و دماغ ، فکر و ذھن ، قلب و نظر کو مجروح کرتا ہے اور ان پر قبضہ کرتا ہے اور بہت آسانی کے ساتھ نرم جنگ ان پر مسلط کرتا ہے۔

چنانچہ کسی قوم کی معلوماتی یا ذہنی تبدیلی کے زرائع پر قبضے کا مقصد ذہن و فکر، قلب و نظر پر قبضہ کرنا ہے، کسی بھی قوم کی معلوماتی زرائع کی تبدیلی اور برین واشنگ کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے نرم جنگ کے جنگجو، سامعین کے، خیالات، افکار ، ذہن اور نظریات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس ھدف کی خاطر وہ معلوماتی زرائع کی مدیریت اور ان کو اپنے قبضے میں لیکر خودخواہ مطالب و معلومات جنگ زدہ قوم اور ملک کے باشندوں کو دینے کی روش سے استفادہ کرتے ہیں اور جو دوست ہے ان کو دشمن جو دشمن ہے انہیں دوست ڈکلیئر کرنے میں دشمن کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس طرح دشمن، ہدف والے ملک کے اشرافیہ، تعلیم یافتہ افراد، طلاب، سٹوڈینس، مقتدر افراد اور علماء کو کسی دشمن پسند مسئلے کے بارے میں قائل اور باور کرانے کی کوشش کرتا ہے، ان کے ذھنوں میں مخصوص معلومات ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کے دماغوں پر حکمرانی کے لیے زمینہ فراہم کر سکے۔

دوسرا کام جو دشمن کسی قوم کے خیالات و نظریات، افکار و اعتقادات پر قبضہ کرنے کے لیے انجام دیتا ہے وہ اس قوم کی عاطفی اور احساساتی پہلو پر قبضہ کرنا تھا، جس کا مقصد، لوگوں کو اکسانا، جذبات میں لے آنا، مظلومیت کا احساس دلانا اور اس طرح خود کو اس قوم کا خیرخواہ ثابت کرکے اس قوم کے دل و دماغ پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو مخصوص اقدامات کی طرف ترغیب دینا ہوتا ہے۔

سافٹ وار کے جنگجو سامعین و مخاطبین کے جذباتی و احساساتی نظام اور ان کے رویوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پہلے جنگ نرم کے ماہرین، اپنے کارندوں اور دست پروردہ افراد کے زریعے ایک قوم کو حقوق سے محروم کرتے ہیں، ان پر ظلم و ستم کرواتے ہیں، ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھواتے ہیں جب ان اقدامات کے زریعے اس قوم کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں تو وہ ماہرین اپنے سامعین یا مورد نظر قوم کو اپنی حکومت، اپنے علماء اپنے بڑوں، اپنے دین و اقدار، اپنی ثقافت و فرھنگ کے خلاف یہ کہتے ہوئے بھڑکاتے ہیں کہ ان ساری محرومیوں، مظالم اور حقوق سے محرومی کا شکار رکھنے والے یہی علماء ہیں، دینداری کی وجہ سے تم حقوق سے محروم ہو!! فلان مخصوص ثقافت و فرھنگ کی وجہ سے تم حقوق سے محروم ہو!! فلان مخصوص آداب و رسوم کی وجہ سے تم ترقی نہیں کر رہے ہو!! فلان اسلامی نظریات تمہاری راہ میں رکاوٹ ہے۔۔۔اس طرح جنگ نرم کے ماہرین اس قوم کے اندر اپنے ہی علماء، زعماء، اقدار و اطوار، دین و ثقافت کے خلاف نفرت بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قوم کی محبت اور دلچسپی کو دوستوں، اپنوں اور اقدار و روایات سے ہٹا کر دشمن کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای، خانہ بدوش برادری کے شہداء کی تکریمی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

آج ملک میں مذہبی روایات اور مذہبی مقدسات کے خلاف جو کچھ بھی کیا یا کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے (دشمن) کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس بات کو نہ جانتا ہو، لیکن وہ لوگ اس غلط راستے پر چل پڑے ہیں اور ان کو اس طرف لے جایا گیا تھا۔ مذہب کو کمزور کرنا، مذہبی روایات کو کمزور کرنا، مذہبی شعائر اور رسومات کو کمزور کرنا، ان پر سوال اٹھانا، انہیں غیر منطقی ظاہر کرنا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جنہیں دشمن استعمال کرتا ہے۔ اب، یہ کام کرنے والوں کو شاید معلوم نہ ہو، توجہ نہ ہو، ہاں البتہ بعض اوقات کچھ لوگ غفلت میں یہ کام کرتے ہیں۔

پس معلوم ہوا دشمن، نرم جنگ کی ابتدا، کسی بھی قوم کے دلوں پر قبضہ، ان کو کسی مسئلے پر مطمئن اور خود ان کو ذھنی طور پر آمادہ کرنے کے ساتھ کرتا ہے۔ اور لوگوں کا کسی موضوع یا مسئلے پر مطمئن ہونا، ان کے دلوں پر قبضہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اس ھدف کی خاطر دشمن ٹارگٹڈ سوسائٹی کو ورغلانے کے لیے مناسب مضامین، بیانات اور مواد تیار کرکے نفسیاتی جنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں اور بڑے آرام سے اس قوم کے اقدار، دین، ثقافت و فرھنگ، دینی شعائر اور مذھبی رسومات کو ملیامیٹ کرکے اس قوم پر قابض ہو جاتا ہے اور وہ قوم دشمن کو دوست دوست کو دشمن سمجھ بیٹھتی ہے لیکن اس قوم کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا!!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=53756

ٹیگز