حدیث شریف معراج
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
یا أَحْمَدُ! وَ عِزَّتی وَ جَلالی، ما مِنْ عَبْدٍ ضَمِنَ لى بِأَرْبَعِ خِصالٍ إِلَّا أَدْخَلْتُهُ الجَنَّةَ: یَطْوی لِسانَهُ فَلا یَفْتَحُهُ إِلَّا بِما یُعینُهُ [ظ: یَعْنیهِ]، وَ یَحْفَظُ قَلْبَهُ مِنَ الوَسْواسِ، وَ یَحْفَظُ عِلْمی وَ نَظَری إِلَیْهِ، وَ یَکُونُ قُرَّةُ عَیْنِهِ الجُوع.
اے احمد مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم؛ کوئی ایسا عبد نہیں جس نے میرے لیے چار خصلتوں کی ضمانت کی ہو اور میں اس سے جنت میں داخل نہ کروں (یعنی اگر کوئی شخص ان چار صفتوں کو اپنے اندر پیدا کرے اللہ اسے ہر صورت میں جنت میں داخل کرے گا)
1: اپنی زبان کو فضول نہ چلائے صرف مفید بات کرے۔
2: اپنے دل کو (شیطانی اور نفسانی)وسوسوں سے پاک رکھے۔
3: اس بات پر ہمیشہ توجہ رکھے کہ میں اسے جانتا ہوں اور اسے دیکھ رہا ہوں
4: اس کی انکھوں کا نور بھوک ہو
مطلب یہ ہے کہ پیٹ بھر بھر کرنہ کھائے چونکہ اس سے عبادات میں سستی پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کے قلب کی سیاہی اور سختی کا باعث ہے
یا أَحْمَدُ! لَوْ ذُقْتَ حَلاوَةَ الجُوعِ وَ الصَّمْتِ وَ الخَلْوَةِ وَ ما وَرِثُوا مِنْها! قالَ: یا رَبِّ! ما میراثُ الجُوعِ؟ قالَ: أَلْحِکْمَةُ، وَ حِفْظُ القَلْبِ، وَ التَّقَرُّبُ إِلَىَّ، وَ الحُزْنُ الدّائِمُ، وَ خِفَّةُ المَؤُونَةِ بَیْنَ النّاسِ، وَ قوْلُ الحَقِّ، وَ لا یُبالی عاشَ بِیُسْر أمْ بِعُسْر.
اے احمد کاش تم بھوک ، خاموشی ، تنہائی اور اس کے ثمرات کا مزہ لیتے
یعنی کم غذا اور قلیل لیکن مفید بولنا اور لوگوں کی فضول محفلوں سے اللہ کے لیے دوری اختیار کرنا نہایت بابرکت اور الہی قرب کا باعث ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے میرے پروردگار بھوک کا ثمرہ اور نتیجہ کیا ہے؟
پروردگار نے فرمایا : حکمت و دانائی،
دل کا محفوظ رہنا,
میری قربت ,
(میرے فراق میں) ہمیشہ غمگین رہنا ،
لوگوں میں ہلکا پھلکا رہنا(یعنی لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں کوئی اس سے ناراض نہیں),
حق گو ہونا
اور زندگی کی آسانیوں اور سختیوں کی پرواہ نہ کرنا۔
جاری ہے