تحریر :ندیم عباس شہانی ضلع بھکر
مولانا محمد حسین جعفری 1953 میں معموری ضلع ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہوئے آپ کا تعلق کھوسہ قبیلہ سے تھا
مڈل سکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1965 میں علامہ محمد علی فاضل کے پاس ابتدائ تعلیم حاصل کی
بعد میں معرف مدرسہ مخزن العلوم شیعہ میانی ملتان تشریف لے گئے اور استاذالعلماء زین الاتقیاء حضرت علامہ سید گلاب علی شاہ صاحب قبلہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اپکے علمی بحر ذخار سے اخذ فیض کیا اور قبلہ کے فرزند سید العلماء علامہ سید محمد تقی نقوی صاحب سے بھی درس پڑھتے رہے
مخزن العلوم سے فاصل کرنے کے بعد فن مناظرہ کا شوق دامن گیر ہوا تو معروف شیعہ مناظر مولانا محمد اسماعیل کے پس درس آل محمد فیصل آباد چلے گئے مگر مولانا اسماعیل سے کچھ عقائد پر اختلاف ہونے کے باعث زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور واپس آگئے
آپ عربی ادب میں مہارت رکھتے تھے محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی صاحب قبلہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر ایک عربی عبارت کا ترجمہ کرنے پر محسن ملت سے ایگل کا پین بھی وصول کیا یہ خود مجھے مولانا مرحوم نے بتایا
1983 میں آپ نے گورنمٹ ملازمت اختیار کر لی اور بطور عربی ماسٹر تعینات ہوئے اس پر آیتہ اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی صاحب قبلہ نے فرمایا کہ آپ ملازمت نہ کرتے تو ہم اپکو جامعتہ المنتظر میں بطور مدرس دعوت دینا چاہتے تھے کیونکہ آپ ایک قابل ترین شخصیت ہیں
ملازمت کے ساتھ خدمت دین خدا بھی جاری رکھی اور عربی فارسی کتب کا ترجمہ شروع کر دیا اور سب سے پہلے آیتہ اللہ مشکینی کی کتاب ۔۔یدیتہ الشیعہ کا ترجمہ کیا اور یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور دو سو کے قریب کتابوں۔ کا ترجمہ کر دیا اور 120 کے قریب شائع ہو گئ ہیں جن میں معروف کتاب تفسیر نورالثقلین کی دس جلدیں ہیں اس کے علاؤہ کشکول ۔۔قلب سلیم ۔گناہان کبیرہ۔اور تصوف اور تشیع کا فرق۔۔نمایاں ہیں جب آپ نے تصوف کی تردید میں لکھی گئی آیتہ اللہ ہاشم لبنانی کی کتاب کا ترجمہ بنام ۔۔تصوف و تشیع کا فرق ۔۔کیا تو مقدمہ لکھنے کے لئے حضرت آیتہ اللہ العظمی الشیخ محمد حسین نجفی ڈھکو صاحب قبلہ رضوان اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں پیش کی اور مقدمہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی قبلہ ڈھکو صاحب نے کئ صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا مگر جس ادارے نے کتاب شائع کی تو نجفی صاحب کے قلم کا لکھا مقدمہ کتاب میں شائع نہ کیا تو مولانا جعفری صاحب مرحوم نے اسے خیانت قرار دیا مجھے خود جعفری صاحب قبلہ کئی مرتبہ یہ فرمایا کہ انشااللہ اب یہ کتاب دوبارہ خود شائع کراؤں گا تو ڈھکو صاحب قبلہ کے قلم کا لکھا مقدمہ ساتھ شائع کراؤں گا مگر مالی حالت اس قابل نہ تھے
آیتہ اللہ العظمی علامہ محمد حسین ڈھکو نجفی صاحب قبلہ نے 1999میں اپنی فقہی کتاب قوانین الشریعہ کے آخر میں جب خمس و زکوات پر لمحہ فکریہ لکھا تو تو جفری صاحب مرحوم نے مجھے بتایا کہ ڈیرہ غازیخان میں تین جمادی الثانی کی مجالس پر ملاقات کے دوران شیخ الجامعہ آیتہ اللہ علامہ اختر عباس نجفی صاحب رح کی موجودگی میں ۔میں (جعفری صاحب) نے ڈھکو صاحب قبلہ کو درخواست پیش کی کہ آپ ان مسائل پر اجتہاد کریں تو قبلہ نے فرمایا کہ میں اس موضوع پر قلم کو جولان دے رہا ہوں تو علامہ اختر عباس نجفی صاحب کا اس موضوع پر لطیفہ بھی سنایا
آیتہ اللہ العظمی آقای خوئ رح کے ادارہ کی طرف سے آپ کو پیشکش ہوئ کہ کراچی تشریف لائیں ہم ہمارے پاس کتابوں کے تراجم کریں ہم اپکو ماہانہ معاوضہ اور دیگر اخراجات بھی دیں گے مگر آپ نے ملازمت چھوڑنا مناسب نہ سمجھا
آپ دروان ملازمت بھی اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی ترجمہ کرتے رہے 2013 میں آپ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے
آپ ایک بہترین خطیب بھی تھے مگر ہماری قوم ایسی علمی شخصیات کو ہمیشہ نظر انداز کرتی آئی ہے میرے سوال پر کئ مرتبہ بتایا کہ مہینہ میں دو چار مجالس کبھی پڑھتا ہوں میں نے ایک بار سوال کیا کہ قبلہ۔۔اپ اپنا وقت قوم کی خدمت میں صرف کر رہے ہیں کبھی کسی نے تعاون کیا کہ آپ ہر وقت ترجمہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں فرمانے لگے عزیزم۔۔۔ہماری قوم کو علم سے دلچسپی کب ہے کہ وہ میرا تعاون کریں کبھی کسی نے میرے پاس آ کر حوصلہ افزائی تک نہیں کی ماسوائے چند علماء بزرگان کے میری بہت سی ترجمہ شدہ کتابیں پڑی ہیں کوئ شائع کرانے کو تیار بھی نہیں جبکہ ذاکر کا چالیس منٹ کا ساتھ ہزار اسی ہزار لاکھ تک دے دیتے ہیں اور مجھے کتاب چھپوانے کے لیئے دس روپے نہیں دیتے
ادارہ تعلیمات اسلامی ۔منہاج الصالحین ۔نے آپکی ترجہ شدہ کتابیں شائع کرائیں
مولانا صاحب قبلہ سے ہمارا بہت قریبی تعلق تھا جب بھی تشریف لاتے تو دو شب ہمارے پاس گزارتے اور ہم انکے علم وعمل سے استفادہ کرتے ہمارے گاؤں نوانی میں 1999سے مجالس پڑھتے آئے ہمارے ملحقہ گاؤں جھمٹ۔اور بندہ گلحیدر شاہ جھنج میں محرم بھی پڑھے جھنج کے سادات جو کہ بڑے زمیندار ہیں سے مولانا صاحب کا بہت گہرا تعلق تھا
میرے بہت شفیق مہربان تھے اکثر فون کرتے تو کبھی گھنٹہ سے کم بات نہ ہوئ کئ مرتبہ بھکر کے کسی مقام پر مجلس پر تشریف لاتے تو مجھے اطلاع کرتے میں حاضر ہوتا کئ بار مجلس پڑھ کر میرے پاس تشریف لائے اور رات گزاری
مولانا صاحب گزشتہ دو سال سے جگر کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے اور کئ ہسپتالوں سے علاج کرایا اور بالآخر آج 25 دسمبر 2024 بروز بدھ دنیائے فانی سے انتقال فرما گئے اللہ تعالی اپکی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اپنی کتابوں کو اپکے لئے اساتذہ کرام اولاد خاندان دوست احباب قارئین کے لیئے باعث شفاعت قرار دے اور اپکے درجات عالی و متعالی فرمائے