12

شہدائے(APS) کو ہمارا سرخ سلام

  • News cod : 5938
  • 19 دسامبر 2020 - 9:46
شہدائے(APS) کو ہمارا سرخ سلام
حوزہ ٹائمز | جب تک نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور اس میں موجود کمزوریوں کا ازالہ کرکے ایک جامع حکمت عملی کے تحت پرعزم ہوکر آگے نہیں بڑھا جاتا، اس وقت تک ایسے واردات کا اعادہ کسی بھی وقت ممکن ہے

تعلیم و تربیت دو ایسے پر ہیں کہ جن کے ذریعے انسان کمالات کا سفر طے کرتا ہے۔ گھرانے کے بعد تعلیمی ادارے ہی انسانی شخصیت کو تشکیل دینے کا بنیادی عنصر ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور بھی ایک انسانیت ساز ادارہ ہے۔ جس نے زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ پیراستہ باکمال انسان پیدا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
16دسمبر2014 کا دن اس ادارے کے لئے بادخزاں بن کر آیا۔ اس دن طالبان دہشت گردوں نے دن دیہاڑے اس ادارے پر حملہ آور ہوکر
ڈیڑھ سو نونہالان ملت کو خاک خوں میں غلطیاں کر دیا، ان کے بہت سارے اساتذہ کرام بھی اس سانحے میں جام شہادت نوش کر گئے، آج کل ان کی چھٹی برسی کے ایام ہیں، ان شہیدوں کی یادوں کو باقی رکھنا ہمارا فریضہ ہے، کیونکہ ایک بہت بڑے اسلامی روحانی پیشوا کے بقول شہیدوں کی یادوں کو باقی رکھنا شہادت سے کم نہیں۔ ان ڈیڑھ سو طلبا میں سے ہر ایک ملت کے مقدر کا ستارا تھا، ان میں سے کسی نے ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مداوا بننے تھے، کسی نے انجنیئر بن کر ملک و ملت کی تعمیر ترقی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے تھے، کسی نے بیوروکریٹ بن کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے تھے، کسی نے سیاست دان بن کر ملکی سیاسی میدان میں خاطر خواہ اقدامات اٹھانے تھے، کسی نے استاد بن کر تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھانے تھے تو کسی نے سائنس دان بن کر نت نئے ایجادات کے ذریعے ہمارے لئے تابناک مستقبل فراہم کرنے تھے، ان میں سے بہت سارے گھر کے اکلوتے بیٹے تھے، جنہوں نے اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بننے تھے، بہت سارے اکیلی بہن کے لئے امیدوں کی کرن تھیں، جنہوں نے اپنی بہنوں کی امیدوں پر پورا اترنے تھے۔ لیکن یہ ساری امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں جب امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں کے لئے آلہ کار بن کر طالبان دہشت گرد ٹولے نے دن دیہاڑے آرمی پبلک سکول پر بھاری اسلحوں سے حملہ کیا، کہاں چھوٹی چھوٹی کلیاں اور کہاں وہ جدید اسلحے!!! اس کیفیت کو صفحہ قرطاس پر اتارتے ہوئے نوک قلم کندھ ہوجاتی ہے، ہاتھ لرزنے لگتا ہے اور آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگ جاتی ہیں، مگر کتنے شقی القلب تھے وہ انسان نما درندے جن کے دلوں میں ان معصوم پھولوں کو مرجھاتے ہوئے دیکھ کر ذرہ برابر بھی رحم نہیں آیا، جن کے ہاتھ میں ان ننھے کلیوں کو توڑتے ہوئے معمولی سی بھی تھرتھراہٹ محسوس نہیں ہوئی، آخر ایسا کیوں؟! کیونکہ ان کے لئے یہ قتل و غارت گری نہ پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی آخری بلکہ ایسے واردات کرتے کرتے ان کے دل مردہ ہوچکے تھے، ان کے ضمیر کا سودا کافی پہلے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہوچکا تھا، وہ ایسے واردات کے ذریعے تقریبا 70000ہزار پاکستانی بے گناہ مسلمانوں کے خون سے بھی ہولی کھیل چکے تھے۔
اگرچہ پاک فوج نے بروقت کاروائی کرکے ان حملہ آوروں کا خاتمہ کر دیا اور ملک میں موجود ضیاء الحق کی باقیات کا خاتمہ اور
دہشتگرد ساز فیکٹریوں کو تباہ کرنے کے لئے ضرب عضب اور ردالفساد کے نام سے بڑے آپریشنز بھی کئے، شدت پسندانہ سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے جمہوری حکومت اور پاک فوج نے مل کر 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان بھی ترتیب دئیے اور اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علما کو اکٹھا کرکے ان کو اعتماد میں لے کر 1800 علما سے اس پر دستخط بھی لئے، ان کوششوں کے باعث اگرچہ مسلحانہ دہشت گردی پر کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا لیکن پھر بھی ٹارگٹ کلینگ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، علاوہ ازیں ابھی تک اس پلان کی بہت ساری شقوں پر عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ جن میں سرفہرست اس پلان کی پہلی شق یعنی سزایافتہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کرانا ہے۔ مزید برآں ایسے واردات انجام دینے والوں کا مائنڈ سیٹ اپ ابھی تک تبدیل نہیں ہو پایا ہے، مسلکی شدت پسندی کا لاوا اب بھی پک رہا ہے، تکفیری سوچ ابھی تک تبدیل نہیں ہوپائی ہے۔ ایسے لوگوں کی مائنڈ سیٹ تبدیل کرانے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بنابریں جب تک نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور اس میں موجود کمزوریوں کا ازالہ کرکے ایک جامع حکمت عملی کے تحت پرعزم ہوکر آگے نہیں بڑھا جاتا، اس وقت تک ایسے واردات کا اعادہ کسی بھی وقت ممکن ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف ایک مرتبہ علمائے کرام اور مفتیان مذاہب کو جمع کرکے ان سے دستخط لینا کافی نہیں بلکہ وزارت مذہبی امور کی وساطت سے تواتر کے ساتھ ایسے پروگراموں کو تشکیل دیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے ملت کے اندر زیادہ سے زیادہ مذہبی رواداری کو فروغ دیا جاسکے، وسعت نظری ایجاد کی جاسکے، منفی سوچ کا خاتمہ اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے اقدامات کئے جاسکیں، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کو پابند بنایا جائے کہ جس طرح کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ریاست کے اس ستون نے بہترین انداز سے مہم چلائے، اسی طرح شدت پسندی کے وائرس، تکفیریت کے وائرس، نفرت کے وائرس، تنگ نظری کے وائرس اور عدم برداشت کے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور ان موذی امراض کے مکمل خاتمے کے لئے بھی بنیادی کردار ادا کرے۔ علمائے کرام جمعے کے خطبوں اور دیگر مذہبی اجتماعات میں اتحاد بین المسلمین اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہیں تو ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں کہ مملکت خداداد پاکستان امن کا گہوارہ بن کر ابھرے گا، ہم پوری دنیا میں سروخرو ہوجائیں گے اور روز قیامت ان ننھے پھولوں سے بھی ہم کھلے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کرسکیں گے۔

تحریر: ایس ایم شاہ

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=5938