5

مختصر سوانح حیات حجۃ الاسلام شیخ علی محمد مرتضوی

  • News cod : 59453
  • 05 ژانویه 2025 - 12:00
مختصر سوانح حیات حجۃ الاسلام شیخ علی محمد مرتضوی
مرحوم ایک کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مبلغ،مربی،شاعراور منتظم بھی تھے۔ آپ اپنی مادری زبان بلتی کے علاوہ فارسی اور اردو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ آپ مرثیہ ،نوحہ ،قصائد کے علاوہ کبھی کبھار اصلاح معاشرہ پر بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

وفاق ٹائمز، شیخ علی محمد مرتضوی 1946ء کو سکردو کے نواحی گاؤں گول کے ایک علمی گھرانے میں پیداہوئے ۔پانچویں تک ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول گول سے حاصل کی۔ دینی علوم کا آغازجناب حجۃالاسلام سید عنایت حسن الموسوی کے پاس مدرسہ حسینینہ گول سے کیا۔لمعتین تک وہاں سے مکمل کیا ۔

1981ء میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ایران تشریف لے گئے۔جہاں آپ نے محنت ،لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں تعلیم کے اعلیٰ مدار ج طے کئے۔حوزہ علمیہ مشہد میں آپ نے آیت اللہ صالحی ،آیت اللہ فلسفی اور استاد رضازادہ سے کسب فیض کیا۔حوزہ علمیہ مشہد میں حصول علم کے ساتھ آپ نے تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

1986ء میں آپ تبلیغ دین کی غرض سے وطن واپس تشریف لائےاور گول سمیت قرب وجوار میں وعظ وارشاد میں مصروف رہے۔آپ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین استاد بھی تھے لہذا تبلیغ کے ساتھ جامعہ امام صادق گول میں بحیثیت مدیر تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

1986ء سے لے کر اپنی رحلت تک تقریبا 20سال محمد یہ ٹرسٹ پاکستان کے زیر انتظام مختلف مدارس میں تدریس کا عمل انجام دیتے رہے۔ مرحوم سے کسب فیض کرنے والے طلباء کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

مرحوم ایک کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مبلغ،مربی،شاعراور منتظم بھی تھے۔ آپ اپنی مادری زبان بلتی کے علاوہ فارسی اور اردو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ آپ مرثیہ ،نوحہ ،قصائد کے علاوہ کبھی کبھار اصلاح معاشرہ پر بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

آپ کا پہلاشعری مجموعہ 1984ء میں ’’تصویرعزاء‘‘ کے نام سے چھپ گیا تھاجبکہ دوسرامنتخب بلتی نوحوں کا مجموعہ ’’کھڑاغی چھینا‘‘ جنوری 2010ء میں ان کی رحلت کے بعد شائع ہوا۔

مرحوم شیخ علی محمد مرتضوی ان علماء میں سے ایک تھے جو دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونا، غریب طبقوں کی سرپرستی کرنا، اجتماعی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنا، معاشرے میں موجود مفادپرست افراد کا مقابلہ کرنا ،آپس کے اختلافات کو دور کرنا اور معاشرتی توازن کو برقرار رکھنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔انہی خصوصیات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آج بھی ان کی عٖظمت کا چراغ فروزاں ہے۔

آپ طویل علالت کے بعدیکم رجب المرجب/ 27جولائی2006ء شب جمعہ کو اس جہان آب وگل سے رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ترتیب وپیشکش: علی احمد نوری ،جامعۃالنجف سکردو

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=59453

ٹیگز

مزید خبریں