ماہ رمضان نوید ظہور صغری، اہل انتظار کی تیاری کا مہینہ
حجت الاسلام علی اصغر سیفی
مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّـٰهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا (23)
سورہ الاحزاب کی 23 نمبر آیت میں پروردگار فرما رہا ہے کہ ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس پر ثابت قدم رہے، پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے (جام شہادت پیا) اور بعض منتظر ہیں (شہادت کے) اور عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
یعنی! یہ وہ سنت الہیٰ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ہم نے عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت کا تشیع نماز جنازہ دیکھا کہ جن کی زندگی کا ہر لحظہ بابرکت اور ہمارے لیے سب سے بڑا درس۔ اور یہ جو تحریک اٹھی کہ
انا علی العھد
کہ جس کا آغاز اسی سید بزرگوار سید حسن نصراللہ رضوان اللہ نے کیا یہ ہمیشہ جاری ہے تا ظھور انشاءاللہ!
ویسے بھی مومن کی زندگی بھی انا علی العھد ہے اور ایک مومن امامؑ غائب کے زمانے میں مولاؑ عج کے ظہور کا منتظر ہے اور وہ کبھی بھی عہد سے دور نہیں ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا زمانہ غیبت میں جو وظیفہ ہے وہ ہر روز امامؑ عج سے عہد باندھنا ہے کہ جس کی تعلیم امام صادقؑ نے ہمیں دعائے عہد کی شکل میں دی۔ البتہ انہوں نے فرمایا کہ کم از کم چالیس دن تک مومن دعائے عھد کی تلاوت کرے۔ لیکن! چالیس دن دعائے عھد کی تلاوت اپنے وجود میں ملکہ پیدا کرنے کے لیے ہے یعنی ایک صفت راسخ کو اپنے اندر اجاگر کرنے کے لیے ہے۔
اور ایسا نہیں ہے کہ جو شخص چالیس دن دعائے عھد کی تلاوت کرے وہ اکتالیسویں دن نہیں کرے گا۔ یہ تو ایک عھد بھری زندگی کا آغاز ہے جو ہمیں امام صادقؑ نے دیا کہ ہرروز اپنے امامؑ عج سے عھد کرو اور ہر روز امام زمانؑ عج سے بیعت کرو۔ اور اپنی زندگی کو عہد کی شکل میں شروع کرو۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اساتیدِ اہل معرفت یہ کہتے ہیں کہ ہر مومن کی زندگی اسی طرح ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عہد مشارطہ ہے ، مراقبہ ہے اور محاسبہ ہے۔ ہر روز اپنے امام عج سے بیعت کرو اور پھر پورا دن اس عھد و پیمان پر توجہ کریں اور رات کو اپنا محاسبہ کریں اور یہ عہد وہی اپنے پروردگار سے عہد ہے یعنی اس کی راہ میں حرکت کا عھد ہے۔
آنے والا مہینہ ماہ رمضان ہے۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک پرنور حرکت کا آغاز کریں تو ماہ رمضان سب سے بہتر ہے۔ اور عھد و پیمان والی زندگی کے لیے بہترین مہینہ ہے اور اس مہینے کے حوالے سے احادیث میں آیا ہے کہ شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔
بعض لوگ سوال کرتے ہیں؟؟
کہ شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن لوگ پھر بھی گناہ کرتے ہیں؟
جواب :
وہ نفس امارہ ہے جو گناہ کرواتا ہے وگرنہ ابلیس اور اس کا لشکر تو باندھ دیا جاتا ہے۔ اور ایک دشمن کے باندھے جانے سے یہ ماہ رمضان بہترین فرصت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں۔ البتہ! یہ دشمن کوئی چھوٹا دشمن نہیں بلکہ! بڑا ہی خطرناک دشمن ہے۔ جیسا کہ ہماری روایات میں آتا ہے کہ جب امام زمانؑ عج ظہور فرمائیں گے تو ابلیس اور اس کے لشکر کا خاتمہ کریں گے کیونکہ یہ بھی ظالم ہے اور اس نے جو قیامت تک مہلت مانگی تھی تو پروردگار نے وقت معلوم کہا۔ اور اس کے ذیل میں جو احادیث ہیں وہ یہ کہتی ہیں کہ وقت معلوم سے مراد روز ظہور ہے۔ امام زمانؑ عج کی جو جنگ اپنے وقت کے ظالمین کے ساتھ ہو گی تو اس میں ابلیس بھی ہے۔ وہ اور اس کے لشکر امامؑ عج کے ہاتھوں قتل ہونگے۔ شیطان نے دنیا میں بڑے بڑے ظلم ڈھائے اور ہم دیکھتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس شیطان کے زیر اثر ہیں اور اس کا نظام چل رہا ہے۔ بظاہر دنیا میں شیطان کا نظام چل رہا ہے لیکن! حقیقت میں تو ولی اللہ ہیں ، حجت خدا ہیں۔ درست ہے کہ وہ تکوینیات میں ہیں لیکن! ظاہری نظام شیاطین کا ہے کہ جو یہ فیصلے کر رہے ہیں اور جو ہزاروں لوگوں کو مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہی ہیں۔ لیکن! وہ تو خدا ایک دن واضح کرے گا کہ وہ خدا بزرگ و برتر ہے اور درست ہے کہ اس نے دنیا کو آزادی دی ہے اختیار دیا ہے لیکن! حکومت تو اللہ کی ہی ہے۔
یہی ماہ رمضان ایک دن امام زمانؑ عج کے ظہور کی نوید بنے گا کہ جب 23 رمضان المبارک کو وہ ندائے آسمانی آئے گی۔ اور اللہ کرے کہ ہم سب وہ ندائے آسمانی سنیں۔ انشاءاللہ!
اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷽
اگر یوں کہہ دوں کہ یہ ماہ رمضان ماہ مہدیؑ عج ہے تو مبالغہ نہیں ہے۔ کیونکہ ماہ رمضان میں امام زمانؑ عج کی بے پناہ مناسبتیں ہیں۔
جی ھاں! ماہ رمضان کے اندر ایسی بے پناہ چیزیں ہیں کہ جو قائمؑ عج سے منسوب ہیں۔
ندائے آسمانی:
یہ آئمہؑ طاہرین سے روایات میں تواتر کی حد تک ہیں۔ کتاب شریف غیبت نعمانیؒ میں ساٹھ احادیث ہیں جو ماہ رمضان میں ندائے آسمانی کو بیان کر رہی ہیں۔
حضرت جبرائیلؑ نے ماہ رمضان میں ظہور کی بشارت دینی ہے۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ایک ظہور صغریٰ ہوگا اور پھر ایک ظہور کبریٰ ہوگا ، یہ ہمارے بعض علماء کی استنباطی صطلاح ہے۔ اور احادیث میں ظہور کبریٰ اور ظہور صغریٰ نہیں آیا بلکہ ایک نظریہ ہے۔ اور وہ اس اعتبار سے یہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں جب ندائےآسمانی آئے گی تو ظہور صغریٰ شروع ہو جائے گا۔
کیونکہ!
اس ندائے آسمانی کے بعد وہ لوگ جو اپنے زمانے کے امامؑ عج سے عھد و پیمان باندھتے ہیں اور اسی شہید قائد سید حسن نصراللہ رضوان اللہ کی مانند اپنی جانوں کو اپنے امامؑ عج کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لیے آمادہ ہونگے۔ جو لحظہ شماری کر رہے ہونگے۔ جب یہ ندا سنیں گے تو پوری دنیا سے اپنے مولاؑ کی جانب سرزمین مکہ کی طرف چل پڑیں گے۔
کہتے ہیں کہ دنیا دو عجیب حالتوں میں بٹ جائے گی۔ اہل باطل کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور ان پر لرزا طاری ہوگا۔ کیونکہ ندائے آسمانی بہت بڑی نشانی ہے بہت بڑا معجزہ ہے۔
یہ آسمانی آواز ہوگی کہ یہ سوئے ہوئے آدمی کو جگا دے گی اور جو جاگ رہا ہوگا اس پر حالت لرزا طاری ہو جائے گا۔ اور لوگوں پر خوف طاری ہو جائے گا۔ حتی بیٹھا ہوا آدمی خوف کے مارے اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا اور خواتین اس وقت اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں گی اس قدر دنیا پر خوف و ہراس کی کیفیت ہوگی کہ یہ کیا آواز ہے۔ لیکن! یہ خوف و ہراس دوسروں کے لیے ہوگا۔
شیعان حیدر کے چہرے اس ندائے آسمانی کو سننے کے بعد چمکیں گے۔ اور یہ ان کے عقیدے اور مکتب کی اور اصل اسلام کی حقانیت کا اعلان ہوگا۔ اس ندائے آسمانی میں پیغام ہونگے۔
1۔ حق شیعان علیؑ ابن ابی طالبؑ کے ساتھ ہے۔
2۔ امام قائمؑ عج کے ظہور کی بشارت دے گا۔
اس کے بعد ابلیس زمین سے بولے گا اور کہے گا کہ یہ آواز باطل ہے اور حق عثمان ابن عفان(سفیانی کے ساتھ) ہے۔
(یہ جملے روایات میں ہیں)
اب ہمارے علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ یہ زمینی آواز میڈیا کی آواز ہے۔ یعنی یہ وہ زمینی ذرائع ابلاغ ہیں جو شیاطین کا آلہ کار ہیں۔
حتی روایات میں ہے کہ ابلیس اپنے آپ کو زمین سے اٹھائے گا اور آسمان میں بلند ہو کر بولے گا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ بھی آسمانی آواز ہے جبکہ وہ زمینی آواز ہوگی۔ اور اس زمانے میں سفیانی جو کہ ابوسفیان کی نسل سے ہے اس کا ظالمانہ خروج شروع ہو چکا ہوگا اور کئی ممالک کے نقشے بگڑ چکے ہونگے۔ سر زمین شام ، اردن، فلسطین، لبنان جنگوں کا مرکز ہوگی۔ اور جنگیں مکہ مدینہ تک پھیل چکی ہونگی۔ اور ادھر سے یمن سے مکتب اہلبیتؑ کا پرچم اور وہ یمنی سردار کہ جن کے بارے میں معصومؑ فرماتے ہیں کہ قائمؑ عج کے ظہور سے قبل جتنے بھی پرچم ہونگے ہم اہلبیتؑ کا پرچم اہل یمن کا پرچم ہوگا۔ اس کی مدد کرو اور اس کی طرف جاؤ۔ پھر ادھر سے خراسانی کی تحریک بھی شروع ہو چکی ہوگی اور کئی ممالک کو اس نے بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہوگا۔
خراسانی وہ خراسان ہے جو امام صادقؑ کے زمانے والا ہے۔ تو دنیائے اسلام عجیب حالات سے گذر رہی ہوگی۔
اور دنیائے مسیحت کے اندر 70 دجال ظاہر ہو چکے ہونگے۔ کہ جو لوگوں کو حضرت عیسیٰؑ اور جو رہبر مشرق سے آنا ہے ان کے خلاف اکٹھا کر رہے ہونگے اور فتنہ و فساد اور تباہی کا بازار گرم ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماہ رمضان میں جن لوگوں نے عھد کیا ہوگا وہ حرکت میں آجائیں گے۔ یعنی وہ لوگ جو شہید قائد کی طرح انا علی العھد پر ہونگے۔ وہ لوگ جو سورہ الاحزاب کی آیت کا مصداق ہیں
مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّـٰهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا
کہتے ہیں کہ روایات میں ہے کہ اللہ نے جو امام زمانؑ عج کو ناصر دینے ہیں وہ روایات میں ہے کہ ان کی نشانی جو بیان ہوئی ہے کہ وہ مسلسل جانیں قربان کریں گے لیکن! اس بات پر فخر نہیں کریں گے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان دیں گے لیکن! اس بات پر فخر نہیں کریں گے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان دی ہے اور نہ ہی اس بات کی کوئی قیمت مانگیں گے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان دی ہے۔ یعنی تواضع اختیار کریں گے کہ پروردگارا ہمارے پاس اس جان کے علاوہ کچھ نہیں تھا اگر وہ بھی ہوتا تو تیرے ولیؑ عج کی خدمت میں پیش کر دیتے۔
اللہ اکبر!
یعنی! شہادت کا سفر ہے اور کوئی فخر نہیں بلکہ تواضع ہے۔ اور کہتے ہیں کہ جو ناصرین اللہ نے امام زمانؑ عج کو عطا کرنے ہیں وہ کسی کو نہیں کئے۔ امام حسینؑ کے بہتر ناصر امام زمانہؑ عج کے ناصرین کی شبیہ ہیں۔
اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ
کہتے ہیں کہ جب آسمانی آواز آئے گی اس وقت دنیا تشیع میں ایک عجیب بات سامنے آئے گی جو آج تک نہیں آئی۔ ہم نے مقتل میں پڑھا ہے ۔ جناب مسلم بن عقیلؑ کہ جن کا ذکر بھی ماہ رمضان میں ہونا چاہیے کیونکہ جب جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں داخل ہوئے تھے تو نصف ماہ رمضان گذر چکا تھا۔ جب جناب مسلم کی ابن زیاد سے ایک فیصلہ کن مرحلہ آیا تو جناب مسلم کے پیچھے ہزاروں لوگ تھے اب ابن زیاد نے جو چالیں چلیں یعنی شام سے آنے والے جھوٹے لشکر کی خبر دی اور اس کے علاوہ اس نے کہا کہ میں تمھارا بیت المال سے حصہ ختم کردوں گا اور تمھارے گھروں کو گراؤں گا اگر ایک قبیلے سے بھی کوئی حضرت مسلمؑ کے ساتھ کھڑا ہوا تو پورے قبیلے پر اس کا عذاب نازل ہوگا۔
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ جب جناب مسلمؑ نے نماز شروع کی تو ان کے پیچھے ہزاروں لوگ تھے لیکن جب نماز ختم کی تو پیچھے کوئی نہ تھا۔ اور پھر کوفہ کی وہ گلیاں اور سفیر حسینؑ ابن علیؑ کی عجیب غربت تھی۔
ہم یہاں اس چیز کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ پھر یہ ہوا کہ کوفی خواتین گھروں سے نکلیں اور ہر خاتون نے آکر اپنے محرم مرد کا ہاتھ پکڑا مثلاً بیٹی نے باپ کا ، بیوی نے شوہر کا، بہن نے بھائی کا کہ ہمارے بچے اور ہماری زندگی کا کیا بنے گا اگر تم مارے گئے۔ تم ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو۔ دیکھو وہاں مسلمؑ کے ساتھ لوگ ہیں یہ خود ہی کچھ کر لیں گے۔ تم واپس گھر چلو۔
جیسے ہم کہتے ہیں کہ اللہ خود ہی امام زمانؑ عج کو ظاہر کر لے گا۔ حالانکہ یہ حقائق نہیں ہیں۔ اگر خدا نے کچھ کرنا ہوتا تو غیبت نہ ہوتی بلکہ اللہ بارہ سو سال پہلے ہی کر چکا ہوتا۔ اللہ نے ہمیں ایک پیشوا دے دیا ہے۔ وہ پیشوا جیسے اپنے الہیٰ علوم اور طاقتوں سے نواز دیا ہےکہ جو حضرت محمدؐﷺ کی مثل ہیں جو عدل میں مولا علیؑ کی مثل ہیں۔ جو استقامت میں مولا حسینؑ کی نسبت ہیں کہ ان میں ساری خصوصیات ہیں لیکن! بالآخر یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ اگر کسی پیغمبرؑ اور ولیؑ کے ساتھ ناصر نہ ہوں تو اسے ظلم سہنے پڑتے ہیں ، اسے غربت سہنی پڑتی ہے اور اسے ہجرت کرنی پڑتی ہے۔اور جب ناصر ملتے ہیں تو وہ جو تو نبیؐ کریمﷺ جو حبیبؐ کائنات ہیں ان جیسی عظیم ترین ہستی کہ جو مکہ میں پتھر کھاتے ہیں وہ مدینہ میں حکومت تشکیل دیتے ہیں ۔ وہ اتنے سالوں کی مولاؑ کی غربت اور تنہائی اور جب ناصر ملتے ہیں تو مولا علیؑ جیسی ہستی خلافت پر متمکن ہو جاتی ہے اور دنیا پھر عدل مصطفیٰؐ کو دیکھتی ہے اور ایسا عدل دیکھتی ہے کہ جس کی نظیر ہی نہیں ملتی۔
انا علی العھد کا مطلب یہ ہے کہ جو ہم نے اپنے آئمہؑ سے وعدے کئے ہیں وہ پورے نہیں کئے۔
شیخ مفیدؒ نے اپنی آخری توقیع میں جب امامؑ عج سے پوچھا کہ مولاؑ کیا وجہ ہے کہ ظہور نہیں ہورہا۔ فرمایا:
شیعہ ہم سے اپنے کئے ہوئے وعدے نہیں نبھارہے۔ اور وہ وعدہ کیا ہے؟
یعنی!
انا علی العھد
یہ وہی عھد ہے کہ جو ہمیں شہید قائد سید حسن نصر اللہ نے بتایا۔ امام صادقؑ نے ہمیں دعائے عھد کی شکل میں تعلیم فرمایا۔
عرض خدمت ہے کہ:
خواتین اپنے محرموں کو واپس گھروں کی جانب لے کر جارہی تھیں اور مسلمؑ تنہا ہوگئے جیسے آج امامؑ تنہا ہیں۔ لیکن! کہتے ہیں کہ جب یہ آسمانی آواز ماہ رمضان میں آئے گی۔ تو اس وقت ہماری کیفیت کیا ہوگی؟
ندائے آسمانی کے بعد مہدوی تحریک میں خواتین کا کردار:
کہتے ہیں کہ اس وقت کچھ جگہوں پر مرد تھوڑے سے پریشان ہونگے کہ گھر میں خواتین ہیں میں کیسے جاؤں کیونکہ یہ سفر شہادتوں کا سفر ہوگا۔ سب اپنے گھر کی خواتین کی فکر میں ہوں گے لیکن! اس پربرکت آواز کا نتیجہ یہ ہوگا (غیبت نعمانیؒ باب 13) اور خواتین کا جذبہ یہ ہوگا کہ وہ پکڑ پکڑ کر اپنے محرموں کو گھر سے باہر نکالیں گی۔ کہ اب ہماری پرواہ نہ کرو جاؤ اور فرزند زہرا عج کی نصرت کرو۔ انہیں تمھاری ضرورت ہے ہم تو اپنی زندگیاں گذار لیں گی۔
اللہ اکبر!
یعنی! ظہور سے قبل دنیا میں اتنا کام ہوا ہو گا کہ خواتین اپنے گھر کے مردوں کو خود نصرت امام کے لیے بھیجیں گی۔
روایات میں آیا ہے کہ اس تحریک کے آغاز میں خواتین کا بہت بڑا نقش ہے یعنی اپنے مردوں کو تیار کرنا اور درس وفا دینا یہ بہت بڑا نقش ہے۔
دعائے افتتاح:
ایک اور چیز جو ماہ رمضان میں اس ماہ کو مہدوی رنگ دیتی ہے وہ دعائے افتتاح ہے کہ جس کو ہر روز پڑھنے کا حکم ہے اور یہ دعا کہ جس کو روز پڑھنے کا حکم ہے۔ امام زمانؑ عج کے دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان عمری رضوان اللہ
اللھم صلی اللہ محمدؐ ﷺ و آل محمدؑ
یہ دعا ان کی جانب سے ہمیں ہدیہ ہوئی اور اس دعا کو خود امام زمانؑ عج نے ہمیں ہدیہ دیا ہے۔ اور دعائے افتتاح ہماری مہدوی زندگی ہے۔
کہ ہماری توحید کیسی ہونی چاہیے
ایک مومن کی عبادت کیسی ہونی چاہیے
معاشرت کیسی ہونی چاہیے۔
گویا ایک منتظر کی تصویر ہے
اور ایک جملہ کہ جس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے جمعہ کے خطبے میں پڑھنا چاہیے۔
اَللّٰھُمَّ إنَّا نَرْغَبُ إلَیْکَ فِی دَوْلَةٍ کَرِیمَةٍ، تُعِزُّ بِھَا الْاِسْلامَ وَأَھْلَہُ وَتُذِلُّ بِھَا النِّفاقَ وَأَھْلَہُ،
اے معبود! ہم ایسی برکت والی حکومت کی خاطر تیری طرف رغبت رکھتے ہیں جس سے تو اسلام و اہل اسلام کو قوت دے اور نفاق و اہل نفاق کو ذلیل کرے
یعنی! ایک منتظر اشتیاق رکھے اس دولت کریمہ کا کہ جس سے اسلام اور اسلام والوں کو حقیقی عظمت حاصل ہوسکے۔
منافقین سے جنگ:
پوری دنیا میں فقط دین اسلام اور مسلمان ہیں کہ جو عظمت حاصل کریں گے۔ وَتُذِلُّ بِھَا النِّفاقَ وَأَھْلَہُ، کہ جس میں منافقین ذلیل ہو جائیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔ امامؑ عج کی اصل جنگ منافقین سے ہے باقی ملتیں تو بڑی آسانی سے تسلیم ہوجائیں گی کیونکہ وہ تو منتظر تھیں۔ وہاں البتہ! حضرت عیسیٰؑ کا کردار بھی ہے کہ جو ملت مسیح پر کام کریں گے اور امامؑ عج کے ساتھ ہونگے۔ لیکن! خود امامؑ عج کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسی مشرق وسطیٰ میں منافقین ہیں۔ جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا کہ اس زمانے میں مجتہدین اور فقہا امام زمانہؑ کے خلاف فتویٰ دیں گے البتہ! یہاں مراد منافقین تھے۔ ہمارے بعض ذاکر اور خطیب اس روایت کو ہمارے فقہا اور مجتہدین سے تطبیق کرتے ہیں۔
یہ غلط ہے
فرمایا : کہ یہی فقہاء جو مجھ امام صادقؑ کے سامنے کھڑے ہیں اور اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں تو اس زمانے میں انہیں کے لشکر قائمؑ عج کے مدمقابل کھڑے ہونگے اور امامؑ عج لشکر کے لشکر ان کے خلاف نکالیں گے اور یہ منافقین سے جنگ حتمی ہے۔
مولاؑ عج جب ظہور فرمائیں گے تو بے پناہ مزاحمت ہو گی مکہ میں ، مدینہ میں اور سرزمین عرب پر۔ یہ سب چیزیں ہماری روایات میں ہیں کہ یہ مولاؑ عج سے اتنا کینہ اور بغض رکھتے ہوں گے لیکن! اللہ امام مہدیؑ عج کے ذریعے تمام اہل نفاق کو ذلت کا راستہ دکھائے گا
انشاءاللہ !
اسلام اور مسلمان مہدیؑ عج کے ذریعے عزت پائیں گے۔ انشاءاللہ!
شب قدر:
سورہ القدر 4
تَنَزَّلُ الْمَلٰۤئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ
اس میں ملائکہ اور روح القدس اذنِ خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں
قرآن یہ کہتا ہے کہ اس رات میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور روح الامین نازل ہوتے ہیں اور فقط پیغمبرؐ کے دور میں نہیں ہوئے بلکہ یہ قیامت تک نازل ہونگے۔
تَنَزَّلُ
یہ صیغہ مضارع ہے استمرار اور جاری رہنے پر دلالت کررہا ہے ۔یہ آیت ہر زمانے کے امامؑ پر نازل ہونے والے ملائکہ کو بیان کررہی ہے۔
اسی لیے ہمارے آئمہؑ فرماتے ہیں کہ
ہمارے مخالفین کے پاس اس آیت کا جواب تک نہیں ہے وہ آیت جو مکتب تشیع کی حقانیت کی سب سے بڑی سند ہے ۔
اگر مخالفین سے سوال کریں؟؟
کہ اب بعد از پیغمبرؐﷺ ملائکہ کس پر نازل ہو رہا ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں کیونکہ اس سے سلسلہ امامت ثابت ہوتا ہے۔
نبیؐ کریم ﷺ نے فرمایا تھا
کہ یہ مجھ پر اور میرے بارہ اوصیاؑ پر تاقیامت نازل ہونگے۔
تفسیر علی بن ابراہیم قمی اور بحارالا نوار میں سوال ہوا کہ یہ ملائکہ کس پر نازل ہوتے ہیں ؟؟
فرمایا : کہ پیغمبرؐﷺ کے بعد یہ وقت کے امامؑ پر نازل ہوتے ہیں۔
امام محمد باقرؑ سے پوچھا گیا کہ لیلتہ القدر کونسی رات ہے
فرمایا:
لیلتہ القدر وہ رات ہے کہ جس میں ملائکہ ہمارا طواف کرتے ہیں۔
سبحان اللہ!
اور اس کے بعد امام سید سجادؑ کا فرمان ہے کہ
اے شعیوں! سورہ القدر کے ساتھ مخالفینِ امامت سے مناظرہ کیا کرو۔ اور ان پر حجت تمام کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
فرماتے ہیں کہ یہی سورہ پیغمبرؐ اسلام کے بعد لوگوں پر سب سے بڑی حجت ہے یہی سورہ تمھارا دین بیان کر رہی ہے وہ تمھارے علم کا اظہارہے
سورہ الدخان 2
حٰمٓ وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ
حم۔ اس روشن کتاب کی قسم۔ بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔
ان آیات کے ساتھ مخالفین سے مناظرہ کریں۔
رسولؐ کریمﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ شب قدر پر ایمان لاؤ کیونکہ یہ شب علیؑ اور اس کے گیارہ بیٹوں کی شب ہے۔
سبحان اللہ!
آج گیارہ سو سال گذر چکے ہیں یہ ملائکہ امام زمانؑ عج پر آتے ہیں۔ امام زمانؑ عج ملائکہ کے میزبان ہیں۔ وہ جو ہماری تقدیریں لے کر آتے ہیں وہ امام زمانؑ عج کےپاس آتے ہیں کون ہے جو امت کے حالات سے واقف ہیں وہ ہمارے مولا عج ہیں۔
اسی طرح ایک اور دعا جو ہر روز پڑھنے کا حکم ہے۔
اَللّٰھُمَّ أَدْخِلْ عَلٰی أَھْلِ الْقُبُورِ السُّرُورَ،
اے معبود ! قبروں میں دفن شدہ لوگوں کو شادمانی عطا فرما
اَللّٰھُمَّ أَغْنِ کُلَّ فَقِیرٍ،
اے معبود! ہر محتاج کو غنی بنا دے
اَللّٰھُمَّ أَشْبِعْ کُلَّ جائِعٍ،
اے معبود! ہر بھوکے کو شکم سیر کر دے
اَللّٰھُمَّ اکْسُ کُلَّ عُرْیانٍ،
اے معبود! ہر عریان کو لباس پہنا دے
اَللّٰھُمَّ اقْضِ دَیْنَ کُلِّ مَدِینٍ،
اے معبود! ہر مقروض کا قرض ادا کر
اَللّٰھُمَّ فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوبٍ،
اے معبود! ہر مصیبت زدہ کو آسودگی عطا کر
اَللّٰھُمَّ رُدَّ کُلَّ غَرِیبٍ،
اے معبود! ہر مسافر کو وطن واپس لا
اَللّٰھُمَّ فُکَّ کُلَّ أَسِیرٍ،
اے معبود! ہر قیدی کو رہائی بخش دے
اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ کُلَّ فاسِدٍ مِنْ ٲُمُورِ الْمُسْلِمِینَ،
اے معبود! مسلمانوں کے امور میں سے ہر بگاڑ کی اصلاح فرما دے
اَللّٰھُمَّ اشْفِ کُلَّ مَرِیضٍ،
اے معبود! ہر مریض کو شفا عطا فرما
اَللّٰھُمَّ سُدَّ فَقْرَنا بِغِناکَ،
اے معبود! اپنی ثروت سے ہماری محتاجی ختم کر دے
اَللّٰھُمَّ غَیِّرْ سُوءَ حالِنا بِحُسْنِ حالِکَ،
اے معبود! ہماری بد حالی کو خوشحالی سے بدل دے
اَللّٰھُمَّ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنا مِنَ الْفَقْرِ، إنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۔
اے معبود! ہمیں اپنے قرض ادا کرنے کی توفیق دے اور محتاجی سے بچا لے بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ دعا بھی دعائے امام زمانؑ عج ہے۔ یہ دعا عصر ظہور کو بیان کر رہی ہے۔ پورا ماہ رمضان مہدوی ہے اور اس دعا کے لیے آیا ہے کہ اسے ہر فرض نماز کے بعد پڑھیں اور اگر ہم اس کے متن پر غور کریں تو اس آغاز اس دعا سے ہو رہا ہے:
اَللّٰھُمَّ أَدْخِلْ عَلٰی أَھْلِ الْقُبُورِ السُّرُورَ،
پروردگار ! تو قبروں میں دفن شدہ لوگوں پر شادمانی عطا فرما۔
اب آپ سے سوال ہے کہ
کس دور میں اہل قبور کو شادمانی ملے گی اور ان کی قبور میں سرور داخل ہوگا تو یہ فقط اور فقط عصر ظہور ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:
میں دیکھ رہا ہوں کہ جب قائم قیام کریں گے اور پیغمبرؐ ﷺ کا پیراہن پہنے ہوئے ہوں گے۔ اس وقت میں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی قبر ایسی نہیں ہوگی کہ جہاں مومنین خوشحال نہ ہونگے ۔ مومنین ایک دوسرے کی زیارت کر رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کو بشارتیں دے رہے ہوں گے۔
یہ عصر ظہور ہے کہ جس میں مومنین ایک دوسرے کی زیارت کر رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کو بشارتیں دے رہے ہوں گے۔
اَللّٰھُمَّ فُکَّ کُلَّ أَسِیرٍ،
یہ عصر ظہور ہے کہ جس میں دنیا میں کوئی فقیر نہ ملے گا۔ لوگ صدقہ و خیرات لے کر فقیروں کو ڈھونڈیں گے۔ لوگ اگر کسی کو زکوٰۃ دینا بھی چاہیں گے تو وہ کہے گا کہ میں مستحق نہیں ہوں۔ کیونکہ امامؑ عج ہر مہینے دو بار اور ہر سال میں دو بار اتنا کچھ دنیا کو دیں گے کہ پوری دنیا غنی ہو جائے گی۔ زمین اس دور میں اپنے خزانے اگلے گی اور آسمان سے ایسی باران رحمت ہوگی کہ زمین سے بیماریاں دھل جائیں گی اور ایسا سبزہ اور نبادات پیدا ہوگا کہ دنیا سے قحط ختم ہو جائے گا۔ معصومؑ فرماتے ہیں کہ زمین اتنی نعمات دے گی کہ اس سے قبل نوع بشر نے نہ دیکھی ہوگی۔
اَللّٰھُمَّ أَشْبِعْ کُلَّ جائِعٍ،
اے معبود! ہر بھوکے کو شکم سیر کر دے۔ عصر ظہور ہے کہ جس میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔
اَللّٰھُمَّ اکْسُ کُلَّ عُرْیانٍ،
عصر ظہور ہے کہ جس میں لوگوں کے پاس ضرورت زندگی فراوان ہوگا۔
اَللّٰھُمَّ اقْضِ دَیْنَ کُلِّ مَدِینٍ،
یہ امام مھدیؑ کا زمانہ ہوگا کوئی مومن مقروض نہیں رہے گا۔ اور اگر کوئی اس حالت میں مر گیا کہ مقروض ہو تو امام زمانؑ عج خود آکر اس کا قرض ادا کریں گے۔
اَللّٰھُمَّ فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوبٍ،
یہ مہدیؑ عج کا زمانہ ہے کہ امت کی ساری مشکلات ان کے ذریعے حل ہوں گی۔
روایات میں ہے
یہ دعائے مہدوی ہے اور عصر ظہور کی عکاسی کر رہی ہے۔ ہمارا پورا ماہ رمضان مہدوی اور بہترین زمان ہے اپنے آپ کو تیار کرنے گا یعنی! تہذیب نفس کا ، اصلاح کا اور مولاؑ کے قیام کی تیاری کا ۔
بسا اوقات! ہمارے پاس جاننے کے لیے چیزیں ہوتی ہیں لیکن! ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آغاز کیسے کریں تو بہترین مہینہ ماہ رمضان ہے کہ جس میں توفیقات الہیٰ در حد کمال ہوتی ہیں۔
سبحان اللہ!
اللہ نے تمام دعائیں سننے کا عھد کیا ہوا ہے ۔ شیاطین باندھ دیے گئے ہیں اور نفس امارہ سے جنگ کرنے کا بہترین وقت ہے۔ الہیٰ لشکر ہمارے ساتھ ہے اور اس وقت ہمارے لیے بہترین وقت ہے خود کو مہدوی رنگ میں رنگنے کا۔
ہمیں چاہیے کہ ماہ رمضان المبارک سے استفادہ کریں اور خود کو ظہور حجت خدا کے لیے آمادہ کریں۔
چونکہ حضرت مسلم کا ذکر ہوا تو چند جملے انکے مصائب پر بیان کرتے ہیں ان سے عرض ارادت کے لیے
مصائب حضرت مسلم کے جانب اشارہ:
جناب مسلم بن عقیل مولاؑ کی اہم ترین ذمہ داری کو لے کر کوفہ گئے۔
کہتے ہیں کہ جب جناب مسلمؑ چھوٹے تھے۔ پیغمبرؐ اسلام ﷺ نے مولا علیؑ سے فرمایا کہ میں تمھارے بھائی عقیلؑ سے بہت محبت کرتا ہے ایک تو اس لیے کہ یا علی وہ آپ کا بھائی ہے اور دوسرے اس لیے کہ فرزند ابو طالبؑ ہیں اور تیسری وجہ محبت یہ ہے کہ اس عقیلؑ کا ایک بیٹا ہوگا مسلمؑ جو تیرے بیٹے حسینؑ کی محبت میں قتل ہوگا۔
حضرت مسلم بن عقیلؑ کہ جن کے زیارت نامے میں امام صادقؑ نے سلام کیا
السلام عَلَیْکَ یَا مُسْلِمَ بْنَ عَقِیلِ بْنِ أَبِی طالِبٍ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَبَرَکاتُہُ۔
آپ پرہر صبح وشام اے مسلم(ع) بن عقیل(ع) بن ابی طالب(ع) آپ پر خدا کی رحمت اور برکتیں ہوں
یہ سلام امامؑ کر رہے ہیں۔
مصائب :
جب جناب مسلمؑ کو دارالامارہ کی چھت پر لے کر گئے۔ تو حالت یہ تھی کہ مسلمؑ زخمی تھے پورا بدن تیروں اور نیزوں سے زخمی تھا اور دندان مبارک بھی شہید تھے۔ بزرگان دین کہتے ہیں کہ:
مسلمؑ وہ عاشق حسینؑ ہیں کہ جنہوں کہ کربلا میں ہونے والے تمام مصائب دیکھے ایک ہی دن میں دیکھ لیے ، زخمی بھی تھے، اسیر بھی تھے، پیاسے تھے جب مسلمؑ کے سامنے پانی لایا گیا تو دہن مبارک اسقدر زخمی تھا خون جاری تھا مسلمؑ پانی نہیں پی سکے۔
شہدائے کربلا میں پہلے شہید تھے لیکن! صفات میں 72 جیسے۔
شہدائے کربلا اور اسیران کربلا کی ساری مصیبتوں کا چہرہ جناب مسلمؑ ہیں۔
جب جناب مسلمؑ کو دارالامارہ کی چھت پر لایا گیا۔ تو لعین نے کیا منظر دیکھا کہ مسلمؑ گریہ کر رہے ہیں۔
قاتل نے کہا کہ مسلمؑ : اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ مسلمؑ کون تھا تو میں کہتا کہ سرزمین عرب کا شجاع ترین شخص ہے (اور اس میں کوئی شک نہیں)
ہمارے علماء کہتے ہیں کہ اگر جناب مسلمؑ ، جناب محمد حنفیہ اور جناب عباسؑ کربلا میں اکھٹے ہوتے تو کربلا کا اور رنگ ہوتا۔
جناب مسلمؑ اس قدر شجاع تھے کہ جب لڑے تو لعینوں کو اچھال اچھال کر دو حصے کر کے پھینکا۔ لیکن! آج تو موت سے ڈر رہا ہے۔
فرمایا: کہ میں موت سے نہیں ڈرتا۔ لیکن! میں نے اپنے مولاؑ سے کہا کہ مولاؑ کوفہ کے حالات سازگار ہیں آپ تشریف لے آئیں لیکن! کوفہ تو بدل چکا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی رونا نہیں آرہا کہ وہ بھی شہید ہو جائیں گے۔ شہادت ہماری میراث ہے ہمارا افتخار ہے۔
مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ میرے مولا ؑ کے ساتھ رسولؐ زادیاں بھی ہیں۔
جب سر مسلمؑ قلم ہوا اور ان کے جسم اقدس کو چھت سے پھینکا گیا اور ان کے جسد مبارک کو کوفہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور جب یہ روایت سید الشہداءؑ کو راستے میں بتائی گئی کہ آنے والے نے کہا۔
آقا: میں نے اس حالت میں کوفہ کو ترک کیا کہ مسلمؑ اور ہانیؑ کے لاشے رسیوں سے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
آقا نے اسوقت سورہ الاحزاب کی اسی آیہ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔
مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّـٰهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْـهُـمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٝ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا
جناب مسلمؑ وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جو خود بھی شہید ہیں اور جن کے فرزندان اور دختر بھی شہید ہیں
ایک مرتبہ سید الشہداؑ اٹھے اور خیمے میں تشریف لائے۔
اور فرمایا: بہن زینبؑ مسلمؑ کی دختر کو لے آئیے۔ جناب عاتکہ ماموں کے پاس آئیں۔ امامؑ مظلوم بار بار بی بی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں۔ اور گریہ کرتے ہیں۔ اب خواتین بھی حیران تھیں اور وہ بچی بھی حیران تھی۔ پھر بی بی نے ایک جملہ کہا:
ماموں جان : آپ تو یوں شفقت فرما رہے ہیں جیسے یتیموں پر نوازش کی جاتی ہے۔ میرے بابا کی تو خیر ہے۔
مولاؑ نے فرمایا: عاطقہ آج کے بعد میں تمھارا باپ ہوں۔
بعض مقاتل میں لکھا ہے کہ
امامؑ نے فرمایا: بہن زینب دو گوشوارے لے آئیں۔
امامؑ نے بی بی عاطقہؑ کے کانوں میں گوشوارے پہنائے
یہ شفقت بھرا منظر بی بی سکینہ ؑ دیکھ رہی تھیں۔
میرا سلام ہو اس معصومہ پر جس کے رخساروں کا رنگ کربلا سے شام تک بدلتا رہا۔ جس کے رخسار بھی زخمی تھے جس کے کان بھی زخمی تھے۔
شام غریباں جب خیمے جل گئے۔ اور سیدہ زینب عالیہ اپنی بہن کے ساتھ بچوں کو ڈھونڈنے نکلیں کیا منظر دیکھا عاتکہ کا جنازہ ۔۔۔
لـــعنت الـلّـه عـــلی القـــوم ظالــــمین
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
عالمی مرکز مہدویت قم ایران