14

معاشرتی مشکلات اور ان کےراه حل امیرالمومنین حضرت علی(علیه السلام)کی نظر میں

  • News cod : 7123
  • 04 ژانویه 2021 - 15:25
معاشرتی مشکلات اور ان کےراه حل امیرالمومنین حضرت علی(علیه السلام)کی نظر میں
امت مسلمه پر جوآفتیں اور مصیبتیں پڑھ هی هیں ان کےذمه دار خود مسلمان هی هے۔حرام خوری هرجگه نظرآتی هےدهوکه دهی،فراڈ،خیانت مسلمان معاشرےکی پهچان بن چکی هے

همارا معاشره هرروز اخلاقی سقوط اور بےعملی اور عدم برداشت کی طرف بڑھ رهاہے۔اس کی بنیادی وجه تعلیم اور تهذیب میں جدائی هے۔چوده سوبرس گزرنےگزرنےکےباوجود تعلیم و تربیت کی اصلی کتاب قرآن مجید کےفردی اور اجتماعی قوانین سےهم بےبهره هیں۔بدکرداری اور سوءعمل میں ہمارا کوئی ثانی نهیں ہے۔امت مسلمه پر جوآفتیں اور مصیبتیں پڑھ هی هیں ان کےذمه دار خود مسلمان هی هے۔حرام خوری هرجگه نظرآتی هےدهوکه دهی،فراڈ،خیانت مسلمان معاشرےکی پهچان بن چکی هے۔فحاشی کےاڈےاور زنا کےمراکز اور زناکی دعوتیں عام هوچکی هیں۔
شراب عام اور هرجگه دستیاب اور تاجر بےرحم اور ناپ تول میں کمی اور اسی طرح بهت سارےاخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں اضافه هورهےہیں۔ رشوت اورکرپشن میں همارا نمبرپهلا هے۔ آج مرد عورت بن رهاهےاور عورت مرد بن رهی هے۔عبادتوں میں اپنی مرضی اور خواهشات اور بدعات کااضافه کیاگیا هے۔عیدالفطرکومذاق بنایاهےاور لوگ یاتوعیدسےپهلےعیدمنارهےهیں یاعیدکےدن بھی روزه رکھ رهےہیں!انهی اجتماعی اور معاشرتی مسائل اورحقیقتوں کی طرف چوده سوسال پهلےمیرےمولاو اقاامام علی(علیه السلام)نےانسانیت کی رهنمائی فرمائی هے۔مشکلات کی نشاندهی کےساتھ ساتھ آپ نےراه حل اور بچنےکاطریقه بھی سکھادیا۔یه خطبه دو اهم ترین حصوں پر مشتمل هےپهلاحصه،معاشرتی مشکلات کابیان اور دورسرا حصه،ان کےراه حل اور کچھ اهم بنیادی نکات پر مشتمل هے۔
علامه مجلسی آخرالزمان سےمتعلق انتهائی اهم حدیث نقل کرتےہیں۔

اس روایت کو امیرالمومنین حضرت علی المرتضی(علیه الصلاه و علیه السلام)کاخاص صحابی جناب اصبغ بن نباته یوں بیان کرتےہیں:

عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ أَبِي الْجَوْزَاءِ الْمُنَبِّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُلْوَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتِ بْنِ هُرْمُزَ الْحَدَّادِ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ عَنِ الْأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ:«يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَرْتَفِعُ فِيهِ الْفَاحِشَةُ وَ لَتُصَنَّعُ‏ وَ يُنْتَهَكُ فِيهِ الْمَحَارِمُ وَ يُعْلَنُ فِيهِ الزِّنَا وَ يُسْتَحَلُّ فِيهِ أَمْوَالُ الْيَتَامَى وَ يُؤْكَلُ فِيهِ الرِّبَا وَ يُطَفَّفُ فِي الْمَكَايِيلِ وَ الْمَوَازِينِ وَ يُسْتَحَلُّ الْخَمْرُ بِالنَّبِيذِ وَ الرِّشْوَةُ بِالْهَدِيَّةِ وَ الْخِيَانَةُ بِالْأَمَانَةِ وَ يَتَشَبَّهُ الرِّجَالُ بِالنِّسَاءِ وَ النِّسَاءُ بِالرِّجَالِ وَ يُسْتَخَفُّ بِحُدُودِ الصَّلَاةِ وَ يُحَجُّ فِيهِ لِغَيْرِ اللَّهِ‏ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ الزَّمَانُ انْتَفَخَتِ الْأَهِلَّةُ تَارَةً حَتَّى يُرَى هِلَالُ لَيْلَتَيْنِ وَ خَفِيَتْ تَارَةً حَتَّى يُفْطَرُ شَهْرُ رَمَضَانَ فِي أَوَّلِهِ وَ يُصَامُ الْعِيدُ فِي آخِرِهِ- فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ حِينَئِذٍ مِنْ أَخْذِ اللَّهِ عَلَى غَفْلَةٍ فَإِنَّ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ مَوْتَ ذَرِيعٍ يَخْتَطِفُ النَّاسَ اخْتِطَافاً حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصْبِحُ سَالِماًوَ يُمْسِي دَفِيناً وَيُمْسِي حَيّاًوَيُصْبِحُ مَيِّتاً۔فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ الزَّمَانُ وَجَبَ التَّقَدُّمُ فِي الْوَصِيَّةِ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلِيَّةِ وَ وَجَبَ تَقْدِيمُ الصَّلَاةِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا خَشْيَةَ فَوْتِهَا فِي آخِرِ وَقْتِهَا۔
فَمَنْ بَلَغَ مِنْكُمْ ذَلِكَ الزَّمَانَ فَلَا يَبِيتَنَّ لَيْلَةً إِلَّا عَلَى طُهْرٍ وَ إِنْ قَدَرَ أَنْ لَا يَكُونَ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِهِ إِلَّا طَاهِراً فَلْيَفْعَلْ‏ فَإِنَّهُ عَلَى وَجَلٍ لَا يَدْرِي مَتَى يَأْتِيهِ رَسُولُ اللَّهِ لِقَبْضِ رُوحِهِ ۔وَ قَدْ حَذَّرْتُكُمْ إِنْ حَذَرْتُمْ وَ عَرَّفْتُكُمْ إِنْ عَرَفْتُمْ وَ وَعَظْتُكُمْ إِنِ اتَّعَظْتُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي سَرَائِرِكُمْ وَ عَلَانِيَتِكُمْ‏ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ‏ وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ‏ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرِين‏»ا(محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 96، ص303، باب 37)؛
لوگوں پر ایک ایسا زمانه آنےوالاهےکه جس میں بےحیائی اور برےکام آشکار وظاهر هونگےناموس اورمحارم کےساتھ بےعفتی و تجاوز اور زناعلنی هوجائےگا۔جس زمانےمیں یتیم کےمال کوحلال سمجھاجائےگااور اس زمانےمیں سود کھائےگا اور ناپ تول میں کمی هوگی اور شراب کو نبیذ(جوکاپانی)اور رشوت کو هدیه کهکرحلال سمجھاجائےگا اورخیانت کو امانت سمجهی جائےگی۔ اس زمانےمیں مرد حضرات عورتوں کےشبیه اور خواتین مردوں کےشبیه هونگی یعنی مرد ،عورت اور عورت، مرد کی طرح نظرآئےگی!
نماز کےاوقات وحدود کی رعایت نهیں کی جائےگی اور اس کواهمیت نهیں دی جائےگی۔ اور اس زمانےمیں حج غیرالله اور دنیوی مفادات کےلئےکیاجائےگا۔ پس جب ایسا زمانه آئےتوهلال مخفی هوجائےگایهاں تک کی پهلی کا چاند دوسری رات کونظرآئےگااورلوگ ماه رمضان کی پهلی تاریخ کو آخر شعبان سمجھ کر افطارکریں گےگااورعید فطرکےدن چاند نظر نه آنےکی وجه سےروزه رکھیں گے۔
پس خبردار،خبردار! اس وقت الله اچانک ان کوعذاب دےگااورغفلت کی حالت میں ان پرعذاب آئےگاپس اس کےپیچھے موت لوگوں کو اچک لےگی اور بلاان کوگیرلےگی۔آدمی صبح سالم هوگااورتندرست اٹھےگالیکن شام کو دفن هواهوگااور شام کو صحیح وسالم هوگالیکن صبح دفن هوچکاهوگایعنی اتنی سرعت سےان لوگوں کو گناهوں کی وجه سےموت آئےگی۔جب ایسا زمانه آئےتو بلامیں گرفتار هونےسےپهلےوصیت لکھناضروری هےاور نماز کو اول وقت پڑھناواجب هےکیونکه اس بات سےڈرتےهوئےکه آخر وقت تک شاید زنده نه رهےاور نماز کاوقت هی نه ملے!
تم میں سےجو شخص اس زمانه کوپالےتواسےوضو و طهارت پرهوناچاهیےاوراسےهروقت باوضو هوناچاهیےتاکه موت آبھی جائے وه حالت طهارت پر هواور پاکیزگی کی حالت میں روح پرواز کرجائے۔اسےیه خوف لاحق هوکه کب موت کافرشته اس کی روح قبض کرکےلےآئےاور اسےخبر نه هو۔اگرتم ڈرنےوالےهوں تو میں نےتم کوڈرایاهےاوراگرتم پهچاننےوالےہوں تو میں نےتم کومعرفت کرائی هےاور تم نصیحت پکڑنےوالےهوں توتمهیں نصیحت کی هے۔تم اپنےباطن اور ظاهر میں الله سےڈرو اور تقوا اختیارکرو۔اور خبردار!تمهیں کسی اور حالت میں موت نه آئے،بلکه اسی حالت میں آئےکه تم مسلمان هواور جس نےاسلام کےعلاوه کسی اور دین کو طلب اور قبول کیاتو وه اسےهرگز قبول نهیں کیاجائےگااور وه آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےهوگا۔
همارا مولا، همارا آقا،همارا امام ایساهی هیں جوقیامت تک هونےوالےواقعات کودیکھ رهےهیں اور خبربھی دےرهےهیں اور ان حوادث کی علتوں کوبھی بیان فرمارهےهیں اور ساتھ ساتھ نجات اور بچنےکاراسته بھی دکھلارهےهیں۔قرآن گواهی دیتاهے:

«وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ»(سوره توبه،آیت105)؛

اور آپ(اےپیغمبر!) ان سے کہہ دیجیے کہ تم عمل کرو‘ اب اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان تمہارے عمل کو دیکھیں گے۔ائمه طاهرین (علیهم السلام)سےمتعددروایات موجود هیں که اس آیت میں «وَالْمُؤْمِنُونَ »سےمراد هم هیں هم هی تمهارےاعمال دیکھتےهیں(محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، ج 23، ب20، ص333 تا 353)۔

تحریر:علامہ ڈاکٹر محمدیعقوب بشوی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=7123