28

ولادت حضرت علی ؑ پیغام اور تقاضے

  • News cod : 11597
  • 25 فوریه 2021 - 9:00
ولادت حضرت علی ؑ پیغام اور تقاضے
آپؑ کی مثال انسانیت کے لئے انسانِ کامل کی ہے۔ہر انسانی و اخلاقی قدر آپ ؑ کی ذات میں اتم طور پر موجود ہے۔

تحریر: یاور عباس یوسفی
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت علی ؑ کی ولادت با سعادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔اس سے پہلے یہ شرف کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔آپ ؑ کی ذاتِ گرامی پوری انسانیت کے لئے منارہ ہدایت ہے۔غیر مسلم دانشوروں نے بھی آپ کو خراج عقیدت پیش کی ہے اور آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ ؑ کی ذات سے کسبِ فیض کیا ہے۔آپکی ذات گرامی صرف ایک پہلو کا حامل نہیں ہے بلکہ آپ ؑ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں اسی لئے ہر ایک نے اپنی بساط اور ظرف کے مطابق آپ کی ذات سے کسب فیض کیا ہے۔کوئی آپ ؑ کی جوہرِ شجاعت سے متاثر ہوا تو اس نے آپ ؑ کی شجاعت کو موضوعِ سخن بنایا کوئی آپؑ کی قضاوت سے متاثر ہواتو اس نے آپ ؑ کی قضاوت کو اپنی کتاب میں جگہ دی۔ کسی نے آپ ؑ کے ایثار و قربانی پر قلم اٹھایا تو کوئی آپ ؑ کی فراست کا عاشق ہوا۔غرض آپؑ کی ذات کو ایک پہلو سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
آپؑ کی مثال انسانیت کے لئے انسانِ کامل کی ہے۔ہر انسانی و اخلاقی قدر آپ ؑ کی ذات میں اتم طور پر موجود ہے۔ علم، حلم، شجاعت، صدق، اخوت، بصیرت، فراست، ایثار، فداکاری،اخلاص اور تقوی جیسی صفات میں آپؑ کا کوئی ثانی نہیں گویا آپؑ کی ذات نمونہ عمل ہے۔
آپؑ کی ولادت با سعادت کے موقعے پر بھی دیگر ائمہ کی طرح روایتی انداز میں محفل جشن منعقد کی جاتی ہے۔اس انداز میں عام طور پر محفل منعقد کی جاتی ہے اور اس کی ابتدا کلام الہی سے ہوتی ہے اس کے بعد منقبت خواں حضرات کلام پیش کرتے ہیں اور آخر میں مقررین کو خطابت کی دعوت دی جاتی ہے اور محفل ختم!اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس محفل میں یقینا ذکر اہلبیت ہوتا ہے جو بذاتِ خود ایک عبادت ہےالبتہ اس روایتی انداز میں کچھ تبدیلی کر کےمزید بہتری لانا ممکن ہے۔
بانیانِ محفل اور انتظامیہ اس محفل کو مزید بہتر بنانے اور پیغام پہنچانے کے لئے پروگرام کے طریقہ کار سے استفادہ کر سکتے ہیں۔روایتی انداز میں عام طور پر نعت خواں ، منقبت خواں اور مقررین کی کوشش ہوتی ہے کہ محفل جھوم اٹھے اور انہیں دادِ تحسین ملے اس کےساتھ ساتھ اگر مقرر سنجیدہ نہ ہو بلکہ جذباتی انداز میں تقریر کرتا ہو تو اس سے پوری تقریر واہ واہ اور سبحان اللہ کی گونج میں ہی ختم ہو جاتی ہے اور اصل پیغام اوجھل ہو کر ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔البتہ بات حوصلہ افزائی کی مخالفت میں نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اصل پیغام کے بارے میں بات کی جارہی ہے کہ سامعین تک پیغام ضرور پہنچنا چاہیئے۔جو حوصلہ کا مستحق ہو اسے ضرور حوصلہ ملنا چاہیئے۔
اس سلسلے میں بانیان اور انتظامیہ منقبت خواں حضرات سے التماس کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے کلام کا انتخاب کرے جو سنجیدہ ہونے کےساتھ پیغام کا بھی حامل ہو۔منقبت خواں حضرات بھی ایسے کلام کو ترجیح دیں جو اقوالِ ائمہ پر مشتمل ہو تاکہ ذکر بھی ہوجا ئے اور پیغام بھی ملے۔ا س کے علاوہ مقررین کی ذمے داری ہے کہ ائمہ کی ولادت کے پروگرام میں کم از کم ان کی سیرت کو فوکس کریں،سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنےکے ساتھ ساتھ سیرت کی عملی نمونے پیش کریں اور خاص طور پر اس بات کی وضاحت کریں کہ موجودہ زمانے میں بھی سیرتِ ائمہ قابلِ عمل و تقلید ہے۔چونکہ بعض اوقات سیرت اہلبیت کے بارے میں کچھ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ائمہ کی سیرت آج کے اس جدید دور میں کیسے قابلِ عمل ہو سکتا ہے جبکہ دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے اس قسم کے سوالات کا جواب دینا علماء و مبلغین کی ذمے داری ہے۔ائمہ کی سیرت ہر دور میں قابل عمل ہے یہاں تک کہ ان چیزوں میں بھی سیرت ائمہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جو ائمہ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں! ایک مولانا صاحب آم اس وجہ سے نہیں کھاتے تھے کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے آم کھایا تھا یا نہیں۔آم نہ کھاناسیرت پر عمل نہیں بلکہ ائمہ کی طرح استعمال کرنا سیرت پر عمل شمار ہوگا۔ ائمہ کے زمانے میں گاڑی موجود نہیں تھی اگرآج کوئی سفر کے لئے گاڑی استعمال کرے تو کیا اس نے سیرت کی مخالفت کی؟بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ اہم نہیں ہے کہ ائمہ کے زمانے میں گاڑی موجود تھی یا نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اگر بالفرض موجود ہوتی تو ائمہ کیسے استعمال کرتے؟ لہذا سیرت ِ ائمہ(Life style) ہر دور میں قابلِ عمل ہے۔پیغامِ سیرت عام کرنے کےسلسلے میں بانیانِ ِمحفل اور انتظامیہ مشترکہ طور اشتہار دینےکے حوالے سے نیا انداز اپنا سکتے ہیں کہ ہر مقرر کو سیرت کے حوالے سے موضوع دے دیں اور سیرت سے متعلق مختلف موضوعات کو اشتہار میں تذکرہ بھی کریں۔اس طرح محفل میں ذکر اہلبیت کے ساتھ پیغام بھی پہنچے گا اور سامعین اس محفل سے کچھ نہ کچھ حاصل کر کے جایئں گے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11597