11

نظام ولایت صرف حکومت ظاہری تک محدود نہیں ہے، کائنات پر ان ہستیوں کی ولایت آج بھی موجود ہے، علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی

  • News cod : 13723
  • 20 مارس 2021 - 22:22
نظام ولایت صرف حکومت ظاہری تک محدود نہیں ہے، کائنات پر ان ہستیوں کی ولایت آج بھی موجود ہے، علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی
ماہِ شعبان عبادتوں کا بہترین مہینہ ہے۔ اس سے استفادہ کیجئے۔ کچھ بھی نہ کرسکیں تو درود پڑھتے رہیں، استغفار کرتے رہیں تاکہ جب ماہِ رمضان میں داخل ہوں تو تھوڑے پاک صاف دل کے ساتھ داخل ہوں

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا احترام کیجئے اور اس کے حضور گناہ کرنے سے پرہیز کیجئے۔ اگر گناہ ہوجائے تو توبہ و استغفار کریں کہ وہ بہت معاف کرنے والاہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی شعبان سے ہی ولادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ولادتوں کا پیغام یہ ہے کہ جن ہستیوں نے دین کی حفاظت کی ہے ان کے مقصد کو زندہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سید الشہداء علیہ السلام اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو قرآن مجید کی مختلف آیات کا حصہ بنایا ہے، آیت تطہیر، آیت مودت، آیت مباہلہ، اور دیگر سوروں کی آیات اس پر شاہد ہیں۔ اگر ان ہستیوں کو نکال دیا جائے تو قرآن ناقص رہے گا۔امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت کے بارے میں خود رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“۔ اگر حسین سجدہ کی حالت میں رسول اکرم ﷺ کی پشت پر سوار ہوجاتے تو رسول اکرم ﷺ حکم الٰہی سے سجدہ کو اس وقت تک طول دیتے جب تک حسین علیہ السلام از خود پشتِ رسول اکرم ﷺ سے اتر نہ جاتے۔ یہ چیزیں حضراتِ حسن و حسین علیہم السلام کی فضیلت کو واضح کرتی ہیں۔ہمارے عقیدہ کے مطابق یہ نورانی ہستیاں ہیں اور ان کی زندگی کے تمام پہلو نورانی ہیں۔جبکہ اہل سنت ان چیزوں کو جذباتی تعلق کا عنوان دیتے ہیں۔ایسی عظیم ہستی اگر کوئی کام انجام دے تو اس کام کے فلسفے پر غور ہونا ضروری ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے 25 سالہ صبرکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نظام ولایت صرف حکومت ظاہریہ تک محدود نہیں ہے۔ کائنات پر ان ہستیوں کی ولایت آج بھی موجود ہے۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ معصومین کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو بہت سے اختیارات سے نوازا ہے۔ اسی لئے ہم حضرت عباس علیہ السلام سے بھی مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ شرک نہیں ہے کیونکہ جن ہستیوں کو اللہ نے طاقت عطا کی ہے ان سے مانگنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مانگنا ہے۔اھدنا الصراط المسقیم کی تفسیر میں ہے کہ جو علی علیہ السلام کا راستہ ہے وہ صراطِ مستقیم ہے۔اس لئے کہ نہ کسی لمحے انہوں نے اسلام سے انحراف کیا اور نہ کسی لمحہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا۔ آج ہماری محفلوں میں ذکر کربلا و ذکر امام حسین علیہ السلام تو ہے لیکن ان کے مقصد کو بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔ کربلا میں آخر کیوں قربانی دی گئی؟ کربلاء میں سید الشہداء نے یہ سب قربانیاں دیں، خواتین نے اسیری کی قربانی دی، تاکہ اسلام زندہ ہوجائے۔ اس سے الگ کوئی کچھ بھی کہے ہمیں قبول نہیں ہے۔ آج یزید زندہ باد کہنے والوں کو بھی گالیاں پڑتی ہیں، کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سے ہر دور کی یزیدیت مردہ باد ہوگئی ہے۔

علامہ ڈاکٹر میثمی نے کہا کہ مولائے کائنات کی ولادت پر گانوں کی ٹیون اور میوزک کے ساتھ جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، کیا واقعاً اسے قبول کیا جاسکتا ہے؟ ہم تو شادیوں میں منع کرتے تھے، اب یہ چیز جشن میں آنے لگی ہے۔ تین شعبان پر جو چیزیں میری نظروں سے گزریں یا سننے میں آئیں، اس پر میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں اور قسم کھاتا ہوں کہ یا اللہ میں ان چیزوں کا حصہ نہیں ہوں۔ ہمارے اپنے مکتب کے لوگ ان غلط حرکتوں پر ہم سے شکوہ کرتے ہیں کہ آپ داد نہیں دیتے۔ میں تعجب کرتا ہوں ان شعراء پر جنہوں نے شیعہ عقائد پڑھے نہیں ہیں ، وہ شعر لکھ رہے ہیں، منبر پر جا رہے ہیں۔ ایک طرف ہم حضرت عباس کی وفاداری دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام سے کہتے ہیں مجھے خیمے میں نہ لیجائیے گا، مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ ان ہستیوں نے اسلام کی بقاء کی خاطر اپنی گردنیں کٹوادیں۔ آج میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی شعائر پر عمل کہاں ہے؟ اگر نہیں ہے تو ان پر عمل شروع کریں۔ اگر حر کو معافی مل سکتی ہے تو ہمیں بھی مل سکتی ہے۔ بس اپنے طریقے اور عمل پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ پندرہ شعبان پر خصوصی توبہ و استغفار کریں۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مجھ سے اور میری اہل بیت سے محبت کرے گا، سات مقامات پر ہماری محبت ان کے کام آئے گی: (۱) موت کے وقت (۲) قبر میں(۳) میدانِ قیامت میں (۴)نامہ اعمال کے وقت(۵) حساب کتاب کے وقت (۶) میزان کے وقت (۷) پل صراط سے گزرتے وقت۔ بہتر ہے ہم اُن راستوں پر چلنا چھوڑ دیں جن پر چلنے کے بعد واپسی کے دروازے بند ہونے لگتے ہیں۔ آنکھ بند ہونے سے پہلے بیدار ہوجائیں۔ خدارا دین کے اصولوں کو مت چھوڑئیے۔ شعراء سے درخواست کیجئے کہ اگر آپ مکتب کے عقائد سے ہٹ کر بات کریں گے تو ہم سب کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ماہِ شعبان عبادتوں کا بہترین مہینہ ہے۔ اس سے استفادہ کیجئے۔ کچھ بھی نہ کرسکیں تو درود پڑھتے رہیں، استغفار کرتے رہیں تاکہ جب ماہِ رمضان میں داخل ہوں تو تھوڑے پاک صاف دل کے ساتھ داخل ہوں اور ماہِ رمضان کی نورانیت ہمارے دلوں پر چمکے اور ہم ان مراحل میں داخل ہوجائیں جن کا ذکر مناجات شعبانیہ کے آخر میں ہے کہ پالنے والے میرے گناہوں کو معاف فرما دے تاکہ میں تیرے نور تک اپنی نظروں کو پہنچا سکوں۔پاکستان کی سیاسی صورتحال آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ میں اس پر گفتگو نہیں کروں گا۔ یہاں نہ کسی کو مہنگائی کی فکر ہے، نہ لوگوں کی پریشانی کی فکر ہے، نہ کورونا کی فکر ہے۔ بجلی مہنگی ہوتی جا رہی ہے، چیزیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے۔ غیر مسلمانوں کے ہاں خوشی کا زمانہ آتا ہے مثلاً کرسمس آتی ہے، نیو ایئر آتا ہے، باکسنگ ڈے آتا ہے تو چیزیں 50 فیصد تک سستی ہوجاتی ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں خوشی کے دنوں میں چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ اس میں برکت نہیں ہوتی۔ دو کروڑ زیادہ کما لیں گے لیکن چار کروڑ جیب سے نکل جائیں گے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما نے مزید کہا کہ اس ہفتے میری نظر میں جو پولیٹکل سرگرمی ہوئی ہے اور جو ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ روس نے افغانستان کے الگ الگ گروپوں کو بلایا ہے۔ ان کو عزت دی ہے۔ ان کا احترام کیا ہے۔ اور گفتگو کا ایک باب کھلا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ روس افغانستان میں آیا اور مار کھا کر چلا گیا۔ پھر ایک طاقت کو کھڑا کیا گیا، اس نے اپنے کھیل کھیلے۔ پھر امریکہ آیا ۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ پہلے ایک گروہ کو بھیجتا ہے پھر اس کو پکڑنے کے لئے اسلحہ استعمال کرتا ہے۔ جو کچھ روس اور امریکا کے ساتھ ہوا اس میں دونوں کی ذلت و رسوائی ہوئی۔ جب تم خود کو سپر پاور سمجھتے ہو تو حقیقی سپر پاورتمہیں چیونٹی کی طرح رگڑ دیتا ہے۔ بہت بڑی ذلت ہے کہ روس طالبان کو ریڈ کارپٹ ویلکم دے رہا ہے۔ ہم اپنے مفادات کا خیال نہیں کرتے لیکن وہ اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ ورنہ اس بات کا امکان ہی نہیں تھا۔ طالبان کو موقع ملا اور وہ ایران، چین اور روس سے اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے۔ میڈیا ان مطالب کو آپ تک نہیں پہنچاتا لیکن ہم دینی نکتہ نظر سے آپ تک ان باتوں کو پہنچا رہے ہیں۔ یہ خود کو سپرپاور سمجھ کر حملہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں جن کے پاس باقاعدہ اسلحہ بھی نہیں ہوتا۔ بڑی طاقتوں کی ان ریشہ دوانیوں نے افغانستان کا بیڑہ غرق کردیا ۔ ماہِ شعبان و رمضان المبارک میں پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے لئے بھی دعا کیجئے اس لئے کہ اگر انڈیا کے وہاں پر کھیل شروع ہوئے تو پھر یہاں پر امن نہیں رہے گا۔ طالبان نے یہ بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے اس پورے علاقے پر بہت بڑے اثرات ہوں گے۔ ہم اس وقت یہ دیکھ رہے ہیں کہ مکتب تشیع نے خاموشی سے اپنی ایک جگہ بنالی ہے۔ ایک عزت بنالی ہے۔ پہلے امریکہ نے ایران سے کہا کہ تمہاری شرائط اس وقت مانیں گے جب نیوکلیئر ڈیل میں آؤ گے۔ ایران کے انکار پر امریکہ نے بیک ڈور رابطوں کے بعد کچھ پابندیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ کسی طرح ایران کو مذاکرات کی میز پر لاسکے۔ یہ ہیں مولائے کائنات کے چاہنے والے کہ جب مکتب کی عزت پر بات آئی تو کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ تکلیفیں برداشت کرنا تو ہم نے اہل بیت علیہم السلام سے سیکھا ہے۔ آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مکتب دنیا کے کسی بھی ظالم کے سامنے نہیں جھکا۔ ہمیں اسی فکر اور جذبہ کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ ہماری قیادت اور مومنین کہیں بھی جھکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ الحمدللہ ساری ایف آئی آریں ختم ہوگئی ہیں۔ ہمیں لانگ مارچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ جب تک پاور شو نہ کی جاتی یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں تھا۔ میں ان تمام لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے ان ایف آئی آروں کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے کہ پالنے والے انہیں دنیا و آخرت کی سعادت نصیب فرما۔ یاد رکھیں ہر وقت پاور شو نہیں ہوتا۔ لیکن اصل مکتب کی حفاظت ضروری ہے۔ تاکہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کو کہہ سکیں کہ جو ہمارا حصہ تھا ہم نے ڈال دیا، باقی مسائل کو آپ اپنے طریقہ سے حل فرمائیں۔مکتب کی خاطر دی جانے والی شہادتیں اور لاپتہ افراد ہماری کمزوری نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری مضبوطی ہے اور ان شاء اللہ ہم انہی چیزوں پر آگے بڑھتے جائیں گے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13723