18

نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل 11

  • News cod : 13846
  • 22 مارس 2021 - 12:47
نہج البلاغہ صدائے عدالت سیریل 11
حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’عاجز ترین انسان وہ جو بھائی (دوست) حاصل کرنے سے عاجز آجائے۔ اور اس سے بھی عاجز وہ جو پائے ہوئے کو کھو دے۔‘‘

اثر: محمد سجاد شاکری

ترجمہ و تفسیر کلمات قصار نمبر ۱۱

وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اکْتِسَابِ الاِخْوَانِ، وَأَعْجَزُ مِنْهُ مَنْ ضَیَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِهِ مِنْهُمْ.

حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’عاجز ترین انسان وہ جو بھائی (دوست) حاصل کرنے سے عاجز آجائے۔ اور اس سے بھی عاجز وہ جو پائے ہوئے کو کھو دے۔‘‘

حصہ اول: شرح الفاظ

۱۔ أَعْجَزُ: عاجز ترین، درماندہ تر، ناتوان تر۔

۲۔ اکْتِسَابِ: کسب کرنا، حاصل کرنا، پانا۔

۳۔ الاِخْوَانِ: برادر، دوست۔

۴۔ ضَیَّعَ: ضائع کیا، کھو دیا۔

۵۔ ظَفِرَ: کامیاب ہوا، پایا۔

حصہ دوم: سلیس ترجمہ

حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ’’عاجز ترین انسان وہ جو بھائی (دوست) حاصل کرنے سے عاجز آجائے۔ اور اس سے بھی عاجز وہ جو پائے ہوئے کو کھو دے۔‘‘

حصہ سوم: شرح کلام

جہان ہستی میں قدم رکھنے سے لیکر فنا کی بستی کا مسافر بننے تک انسانی شخصیت کی تعمیر، اخلاقی تربیت، ذہنی اور فکری ارتقاء، اطراف کے ماحول اور شخصیات سے وابستہ ہیں۔ یہ وابستگی کبھی والدین کی محبت و شفقت کے روپ میں انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے اور کبھی استاد کی کوشش و تربیت کے نتیجہ میں آگے بڑھنے کا انداز بتاتی ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر و تربیت میں والدین اور اساتذہ کا کردار بنیادی نوعیت کا ہونے کے باوجود محدود وقت پر محیط ہوتا ہے اورا سکے مقابلے میں ایک وابستگی اور رشتہ ایسا بھی ہے جو ہوش کی وادی میں قدم رکھتے ہی انسان کا ہاتھ ہمیشہ کے لئے تھام لیتا ہے۔

جی ہاں !’’ دوست اور دوستی ایک ایسارشتہ ہے جو نسبی طور پر دور ہونے کے باوجود قریبی ترین افراد سے بھی قریب تر ہوتا ہے‘‘(مکتوب/31)

یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام دوستی کو قرابت داری و رشتہ داری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’المودة قرابة مستفادة‘‘

یعنی’’دوستی انتہائی مفید رشتہ داری و قرابت ہے ‘‘ (حکمت/211)

دوستی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لئے آ پ علیہ السلام فرماتے ہیں :’’رشتہ داری و قرابت ،دوستی کے بغیر بر قرار نہیں رہ سکتی جبکہ دوستی کے لئے رشتہ داری کاہونا ضروری نہیں ہے‘‘؟ (شرح ابن میثم/ج5ص674)

اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دوست اور دوستی انسان کی زندگی کا بہت بڑا اور قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ نہ فقط تنہائی دور کرنے کے لئے ہے بلکہ مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد، زندگی کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کے نظریات اور تجربات سے استفادہ کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اچھے دوست کا حصول نہ مال و دولت کی طرح طاقت فرسا کوشش کا طالب ہے اور نہ ہی مقام و منزلت کی مانند تاثیر گزار اجتماعی روابط کا محتاج۔ بلکہ خوش روئی، حسن ادب اور اخلاق حسنہ جیسے مختصر سرمائے کا محتاج ہے:

امیر المومنین علیہ السلام حکمت نمبر۶ میں دوستی کے اسی سرمائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

’’ وَالْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ‘‘  ’’خوش روئی محبت و دوستی کا جال ہے۔‘‘

پس یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام نے اس شخص کو کمزور اور عاجز کیوں فرمایا جو کسی کو اپنا دوست نہیں بنا سکتا؟ کیونکہ جو شخص اپنے چہرے پر مسکراہٹ نہیں سجا سکتا، جو ادب سے بات نہیں کرسکتا، اور مسکرا کر مل نہیں سکتا یقینا وہ سب سے عاجز انسان ہے۔ اسی لئے کوئی اس کا دوست بھی نہیں بنتا۔ جس کا کوئی دوست نہیں ہو عاجز و ناتوان اور درماندہ ہے۔ دوست بنانے سے عاجز ہونے کا مطلب ہے اس کے پاس مسکراہٹ جتنا مختصر سرمایہ بھی نہیں ہے۔ لہذا مولا ایک اور کلام میں فرماتے ہیں:

’’مَنْ لا صَديقَ لَهُ لا ذُخْرَ لَهُ‘‘، ’’جس کا کوئی دوست نہیں اس کا کوئی ذخیرہ نہیں‘‘ دوستی انسان کے لئے نہ فقط ایک سرمایہ ہے بلکہ دوست انسان کی زینت بھی محسوب ہوتا ہے۔ امام صادق فرماتے ہیں:

’’لِکُلِّ شَىْء حِلْيَةٌ وَ حِلْيَةُ الرَّجُلِ أوِدّائُهُ‘‘، ’’ہر چیز ایک زینت ہوتی ہے اور انسان کی زینت اس کے دوست ہیں۔‘‘

کسی بزرگ سے سوال کیا: بھائی بہتر ہے یا دوست؟ تو انہوں نے جواب دیا: وہ بھائی بہتر ہے جو انسان کا دوست ہو۔

یعنی اگر دوستانہ رابطہ برقرار نہ ہو تو وہ بھائی بھی اچھا نہیں ہے۔ بھائی وہی اچھا ہے جس کے ساتھ انسان کا دوستانہ رابطہ برقرار ہو۔

پس جو دوست نہیں رکھتا ہو بہت ہی کمزور اور عاجز انسان ہے اور اس سے بھی عاجز تر امام نے اس شخص کو قرار دیا جو پائے دوستوں کو بھی کھو دے۔ کیونکہ کسی کے دل میں اپنی محبت بٹھانے کے بعد اسے برقرار نہ رکھ سکے تو اس کا مطلب ہے یہ انسان نہایت ہی ضعیف ہے۔ کہ جو حاصل شدہ محبت کی حفاظت بھی نہ کر پائے۔

ایک حکیم کا کہنا ہے:

’’عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے اِردگِرد کے لوگوں سے تعلقات خراب ہونے پر آپس میں پیدا شدہ بدمزگی کو جلد از جلد دورکر کے نئے سرے سے دوستی قائم کرنا جانتا ہو۔ اس سے بھی زیادہ عقلمندشخص وہ ہوتاہے جواتنا محتاط رہتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی ناچاقی پیدا ہی نہ ہو۔‘‘

مندرجہ کلمات میں دوست اور دوستی کی اہمیت اور دوست جذب کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا لیکن اس کے علاوہ دوست کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ کن لوگوں سے دوستی کی جائے؟ کن لوگوں سے دوستی نہ کی جائے؟ دوستی کے فوائد کیا ہیں؟ اور دوستی کی حدیں کیا ہیں؟ وغیرہ جیسے بعض سوالات باقی رہتے ہیں جسے دوست اور دوستی سے متعلق آنے والے دیگر فرامین میں بیان کریں گے۔ انشاء اللہ

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13846