11

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟ (قسط 1)

  • News cod : 14393
  • 28 مارس 2021 - 21:19
کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟ (قسط 1)
قارئین محترم نابغہ بچے ایسے دماغ کے حامل ہوتے ہیں کہ کم عمر میں ہزاروں قسم کی چیزیں یاد کرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں کو حل کرتے ہیں اوران کی محیّر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بہ دندان کردیتی ہے.

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟

(قسط 1)

تحریر:حجت الاسلام ڈاکٹر محمود حسین حیدری مرحوم

مہید:یہ بات واضح ہے کہ امام مہدی موعود(عج) ایک مخصوص ومعین فرد ہیں جو کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے گیارہویں امام ، حسن العسکری (ع) الخالص کے فرزند ارجمند بلافصل ہیں ، اور پندرہ (۱۵)شعبان ۲۵۵ھ یا ۲۵۶ھ کو سامراءمیں پیدا ہوئے اور ۲۶۰ھ تک اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری (ع) سے تربیت حاصل کرتے رہے ، ایک قول کے مطابق چار ۴ سال کی عمر میں امامت وخلافت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے .

کچھ لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ اگر حضرت امام مہدی(ع) اپنے والد کے وفات کے وقت طفل تھے جن کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی ، اوروہ اس عمر میں اپنے والد سے فکری اور دینی تربیت حاصل نہیں کرسکتے تھے تو اپنی دینی فکری اور علمی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے وہ کیسے تیار ہوئے ؟؟

دوسرے لفظوں میں ” کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟

ہمارا جواب: 

جو لوگ سوچتے ہیں کہ ایک کمسن بچے کا امامت وخلافت کے مرتبہ پر فائز ہونا صحیح نہیں ہے ، یہ لوگ اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہیں. وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ پیغمبر اولیاءالہیٰ اور ائمہ ہدیٰ عام لوگوں کی طرح ہیں یعنی انہیں بھی بالغ ہونا چاہئے تاکہ مقام نبوت وامامت کے لائق ہوسکیں یہ ان کی کم علمی ہے.

کیونکہ مقام نبوت وامامت کے لئے بلوغ شرط نہیں ہے ، مشاہدے کی بات ہے کہ ہزاروں لوگ اس دنیا میں بالغ ہوتے ہیں اورہوتے رہیں گے ، لیکن بالغ ہوکر بھی ایک بچے کی حدتک فہم وادراک نہیں رکھتے ادھر نہ جانے کتنے ایسے نابالغ بچے ہیں جو عقل وفراست میں کسی رشید سے کم نہیں ۔

مختصر یہ کہ بلوغ وبزرگی شرط امامت ونبوت نہیں ہے ۔ لہذا اس قسم کے استبعاد یاوہم وگمان کا راستہ باالکل مسدود ہے بلکہ قرآن مجید کی بھی مخالفت ہے .

کیونکہ قرآن مجید کی نظر میں یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یابزرگی کے زمانے میں ہوتا ہے، تو کبھی عہد طفولیت میں ، جیسا کہ حضرت عیسی(ع) نے گھوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی اور کہا:

” انّی عبداللّہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیّاً “ میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اورنبوت عطا کی ہے میں جہاں بھی رہوں گا بابرکت ہوں اور تاقیامت مجھے نماز وزکوٰة کی وصیّت کی ہے !! (مریم/30)

اس آیہ مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع)بچپنے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے اسی بناپرکہ پانچ سال کے بچے کا عالم غیب سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام جیسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس امامت کے عہدہ برآہونے اور اپنی پوری ذمہ داری کو ادا کرنے کی الہیٰ طاقت رکھتے ہیں ۔

اسی سورہ مبارکہ کی آیت 12میں ایک اور پیغمبرخدا کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

یایحیٰ خذالکتاب بقوة وآتیناہ الحکم صبیاً و حناناً من لدنا وزکوٰة وکان تقیّاً۔

اے یحیٰ کتاب ( تورات ) مضبوطی کے ساتھ لو اورہم نے انہیں بچپنے ہی میں اپنی بارگاہ سے نبوت اور رحمدلی اور پاکیزہ گی عطا فرمائی اور وہ خود بھی پرہیز گار تھے ۔

آپ ہی فیصلہ کیجئے آخر اس میں کیا فرق ہے کہ خداوند متعال اپنے ایک بندہ کو بچپنے میں نبوت عطا کرے ، اورایک کو امامت ، علماءاوراہل سنت کے بزرگ دانشمند بھی ہماری اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت یحیٰ(ع) کو بچپنے میں نبوت عطا ہوسکتی ہے تو حضرت امام مہدی(ع) یادوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام کو منصب امامت کے عطا ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں اسی لئے امام مہدی(ع) کے بارے میں پانچ سالہ سن وسال میں درجہ امامت پر فائز ہونے کا صریحاً اقرار کیا ہے ۔

دوسری قسط

۱۔ابو العباس احمد بن یوسف دمشقی ، متوفی ۹۱۰۱ ھ لکھتے ہیں :الفصل الحادی عشر، فی ذکر خلف الصالح الامام ابی القاسم محمدبن حسن العسکری (ع) وکان عمرہ عند وفات ابیہ خمس سنین آتاہ اللّہ فیہا الحکمة کما اوتیہا یحی¸ٰ علیہ السلام۔

گیارہواں باب ، خلف صالح امام ابوالقاسم محمد ابن حسن عسکری (ع) کے بارے میں ہے آپ کی عمر والد کی وفات کے وقت پانچ سال تھی، لیکن خدا وند متعال نے اس کم عمری میں آپ کو حکمت [امامت] عطا کی جس طرح حضرت یحیٰؑ کو [نبوت] عطا کی تھی(۔اخبار الدول والآثارالاول، فصل الحادی عشر، ص ۱۴۱۔)

۲۔ جناب عبداللہ بسمل ” ارحج المطالب “ میں حضرت امام مہدی(ع) کے بارے میں لکھتے ہیں :

الامام المہدی ، اسمہ محمد، کنیتہ ابوالقاسم بقیة اللہ ، الحجة ، والمہدی ، والخلف الصالح وعمرہ عند وفات ابیہ خمس سنین آتاہ اللّہ فیہا الحکمة۔

امام مہدی(عج) کا نام محمد ، کنیت ابوالقاسم ، بقیة اللہ ، حجت خدا خلف صالح، قائم منتظر وصاحب الزمان یعنی زمانے کے امام ہیں اپنے والد کی وفات کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی لیکن اس کم سنی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت عطا کی ۔

ان علماءنے صریحاً آپ کو فرزند بلا فصل امام حسن عسکری (ع) اور پانچ سال کی عمر میں آپ کے منصب امامت پر فائز ہونے کا اقرار کیا ہے.

ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ کہیں ” آتاہ اللّہ فیہا الحکمة کما اوتیہا یحیٰ علیہ السلام۔“ کیا اس سے صریح اورواضح بیان ہوسکتا ہے ۔

نابغہ بچے :

کبھی کبھی بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ استعداد کے اعتبار اپنے زمانے کے نابغہ ہوتے ہیں جن کا فہم وادراک پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھا ہوتا ہے. ان ہی میں سے ایک ” بو علی سینا“ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورسولہ (۱۶) سال کی عمر میں طب کے موضوع پر ” القانون“ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی تصنیف کی اور چوبیس (۲۴) سال کی عمر میں تمام علوم کے ماہر ہوگئے.

فاضل ہندی کے بارے میں بھی منقول ہے کہ تیرہ (۱۳) سال کی عمر سے پہلے انہوں نے تمام علوم منقول ومعقول کو مکمل کرلیا تھا اوربارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوگئے تھے.

” ٹوماس سنیگ“ برطانیہ کے عظیم دانشور بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھے دو سال کی عمر میں پڑھنا جانتے تھے آٹھ سال کی عمر میں خود ہی سے ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا۔ چودہ ۱۴ سال کی عمر تک وہ فرانس ، اطالوی ، عربی اورفارسی زبان کو اچھی طرح سیکھ گئے. بیس سال کی عمر میں نظریہ رویت پر ایک مقالہ لکھ کر دربار شاہی میں پیش کیا.

دور کیوں جائیں آپ ایران میں دیکھ لیں آپ کو درجنوں بچے ایسے ملیں گے جو پانچ سے چھے سال کی عمر میں قرآن مجید اورنہج البلاغہ کے نہ فقط حافظ کل ہیں بلکہ ترجمہ وتفسیر پر بھی عبور حاصل ہے. جن میں محمد حسین طباطبائی کا نام سرفہرست ہے جو پانچ سال کی عمر میں تمام قرآن اور پورے نہج البلاغہ کے حافظ ہوگئے تھے . اسی کمسنی میں وہ سوال کا جواب قرآن مجید سے دیتے تھے. وہ آیات قرآن صفحہ نمبر آیت نمبر اورترجمہ وتوضیح کے ساتھ سناتے تھے اورجس موضوع کے بارے میں قرآن مجیدسے سوال کریں وہ بیان کرتے تھے. انہوں نے ۵ سال کے سن میں دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں سے جن میں امریکہ ، فرانس ، برطانیہ ، مصر وغیرہ شامل ہیں ( پی ایچ ڈی) کی متعدداعزازی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں ۔

المختصر اگر آپ مشرق ومغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں ، یا مشرق ومغرب کی سیر کریں تو ایسے بہت سے نابغہ بچے ملیں گے .

قارئین محترم نابغہ بچے ایسے دماغ کے حامل ہوتے ہیں کہ کم عمر میں ہزاروں قسم کی چیزیں یاد کرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں کو حل کرتے ہیں اوران کی محیّر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بہ دندان کردیتی ہے ۔

تو اگر خدا وند متعال حضرت حجت ، قائم آل محمد امام زمانہ حضرت مہدی(عج) جو ان انسانوں کی بقاءکے ضامن ہیں پانچ سال کی عمر میں منصب امامت وخلافت پر فائز کردے اور احکام الہیٰ کی حفاظت بقاءکی ذمہ داری انہیں سونپ دے تواس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ جب کہ پیغمبر اکرم وپیغمبران الہیٰ اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے ۔

لہذا نوعمری میں امامت کوئی فرضی چیز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید خود قرآن کریم ، سنت رسول اور تاریخ وعقل نے کی ہے ۔ لہذا امام مہدی(ع) پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ آپ بچپنے میں اپنے والد کی جانشینی اور مسلمانوں کے امام وخلیفہ کیسے بن گئے ؟

جاری ہے.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=14393