25

مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ (گزشتہ سے پیوستہ)

  • News cod : 20691
  • 07 آگوست 2021 - 15:16
مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ  (گزشتہ سے پیوستہ)
شیعہ کے تمام فقہاء و مجتہدین نے شہادت ثالثہ کو تشہد میں پڑھنے سے منع فرمایا ہےاور  اپنے رسائل عملیہ توضیحات  مسائل میں قطعی طور پر اسے درج نہیں کیا۔ اس سلسلے میں  ہر مقلد کو چاہیے کہ وہ ذرہ بھر چوں و چرا  کے بغیر اپنے مرجع کی توضیح المسائل پر عمل کرے ۔

مکتب تشیع کی رو سے شہادت ثالثہ
تحریر: آفتاب حسین جوادی

چوتھی صدی سے تیرہویں صدی تک کے فقہاء کے فتاوی

ہم اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہیں  چنانچہ شیعہ کے تمام اعاظم مجتہدین چاہے وہ متقدمین ہوں یا متاخرین  ان کے درمیان نماز کے تشہد کے  میں شہادت ثالثہ کے عدم جواز  پر کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ ا ب ہے اور اس سلسلہ میں نابغہ روزگار  اور مایہ صد افتخار شخصیات کی کچھ نگارشات  ہم ہدیہ قارئین کر رہے ہیں:

شیخ صدوقؒ

محدث کبیر شیخ صدوقؒ اپنے والد بزرگوار اور اپنے شیخ محمد بن یعقوب کلینیؒ کے زمانہ غیبت صغری میں بیس سال سے کچھ زیادہ رہے کیونکہ ان دونوں کی وفات ۳۲۹ ہجری میں ہوئی ۔ شیخ صدوق نے  ۱۹  سال غیبت صغری کا زمانہ  پایا ہے آپ کی کتب میں سب سے زیادہ شہرت من لا یحضرہ الفقیہ کو حاصل ہوئی۔ اس کتاب کا شمار کتب اربعہ  میں ہوتا ہے ، چنانچہ آپ نے اس  کتاب میں واجب تشہد  کے بعد تشہد کے مستحبات بھی بیان کیے لیکن ان میں شہادت ثالثہ کا ذکر نہیں کیا۔

آپ فرماتے ہیں :

بسم الله و بالله  و الحمد لله و الاسماء الحسنی کلھا لله  اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله  ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة ۔ ۔ ۔ اشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول ۔ ۔ ۔(1)

بعینہ  یہی تشہد انہوں نے اپنی دوسری کتاب  المقنع فی الفقہ میں بھی درج کیا  ہے۔(2)

شیخ مفیدؒ

مشہور متکلم فقیہ شیخ محمد بن محمد المعروف شیخ مفیدؒ (متوفی ۴۱۳ )یہ وہ عظیم ہستی  ہیں جن کو ہمارے بارہویں امام حضرت مہدی  عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے اپنی توقیع مبارک میں ان الفاظ کے ساتھ یاد فرمایا ہے:

الاخ السدید والولی الرشید ایھا العبد الصالح الناصر للحق الداعی الیه بکلمة الصدق

اور علامہ ذہبی جیسے متعصب سنی عالم کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ :لہ علی کل امام منة         یعنی ہر مذہب کے امام پر ان کا احسان ہے۔(3)

یہ جلیل القدر عالم  اپنی گراں بہا تصنیف المقنعہ فی الاصول والفروع میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

بسم الله و بالله  و الحمد لله و الاسماء الحسنی کلھا لله۔۔۔  اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله  ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة ۔ ۔ ۔ اشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول ۔ ۔ ۔ (4)

شیخ طوسیؒ

فقیہ اجل شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسیؒ متوفی ۴۶۰ ھ نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام جو کتاب اربعہ میں سے ہے،اس  میں من و عن تشہد درج کیا ہے  جیسا کہ سابقہ اوراق میں گزر چکا ہے ۔

ابن ادریس حلیؒ

شہرہ آفاق شیخ ابو جعفر ابن ادریس حلی متوفی ۵۹۸ نے مستحبات تشہد بیان کرتے ہوئے لکھاہے :

بسم الله و بالله  و الحمد لله و الاسماء الحسنی کلھا لله  اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله ۔ ۔ ۔ اشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول ۔ ۔ ۔ (5)

سید ابن طاووسؒ

جمال العارفین اشرف المجتہدین سید رضی الدین ابوالقاسم علی بن موسی المروف سید ابن طاووس متوفی ۶۶۴ فرماتے ہیں کہ:فاذا فرغ من سجدتی الرکعة الراعة جلس للتشھد الآخر

جب چوتھی رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو جائیں تو دوسرے تشہد کے لیے بیٹھ جائیں اور یہ تشہد پڑھیں:

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی کلھا لله۔ ۔ ۔   اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة ۔ ۔ ۔ واشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اشھد ما علی  الرسول الا البلاغ المبین اللھم صلی علی محمد و آل  محمد(6)

علامہ حلیؒ

شیخ اجل علامہ علی الاطلاق جمال الدین حسن بن یوسف حلی متوفی ۷۲۶ نے اپنی فقہی دستاویز  تذکرة الفقہاء جلد سوم میں  مسئلہ ۲۹۶ و یستحب الزیادة فی التشھد بالاذکار المنقولة و اھل البیت علیہم السلام کے متصل ہی مستحب تشہد ارقام فرمایا ہے:

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله  اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا۔ ۔ ۔ واشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول (7)

یہی تشہد علامہ حلی ؒ نے اپنی کتاب تحریر الاحکام الشرعیة علی مذہب الامامیة (8)اور شہید ثانیؒ  نے ذکر ی الشیعہ الی احکام الشریعة(9) میں نقل  فرمایا ہے۔ علامہ حلیؒ اور شہید ثانی ؒ  جیسی شخصیات نے نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کا تذکرہ نہیں کیا۔

شہید ثانیؒ

طبل جلیل زین الدین بن علی عامل شہید ثانی ۹۶۶ اپنی تالیف منیف روض الجنان جو علامہ حلی کی معروف فقہی کتاب ارشاد الاذہان کی نہایت مبسوط و مدلل شرح ہے آپ اس میں والزیادة فی الدعاء کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ تشہد میں پڑھیں:

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله    اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک له و اشھد ان محمداً عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا ۔ ۔ ۔ واشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اللھم صل علی محمد و آل محمد ۔ ۔ ۔ (10)

شیخ بہائی ؒ

علامہ کبیر جامع المنقول  والمعقول شیخ بہاء الدین محمد بن حسین عاملی المعروف شیخ بہائی ؒ متوفی ۱۰۳۰ نے اپنی  فقہی و دعائیہ ادب کے بیش بہا  مجموعے  مفتاح الفلاح فی الادعیة والاوراد میں لکھا ہے :

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک له و اشھد ان محمداً عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة  واشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اللھم صل علی محمد و آل محمد و تقبل شفاعته و وارفع درجته (11)

محسن کاشانیؒ

عظیم  محقق محدث کبیر محمد بن محسن فیض کاشانی متوفی ۱۰۹۱ استحبابی تشہد اس طرح نقل کرتے ہیں:

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمداً عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة  واشھد ان ربی نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اللھم صل علی محمد و آل محمد و تقبل شفاعته و وارفع درجته (12)

حر عاملیؒ

فقیہ  محدث، عالم متبحر شیخ محمد بن حسن حر عاملیؒ متوفی ۱۱۰۴ باب کیفیة التشھد میں حضرت صادق  آل محمد علیہم السلام سے مروی تشہد اس طرح تحریر کرتے ہیں :

بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله    اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمداً عبده و رسوله ارسله  بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة  واشھد انک نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اللھم صل علی محمد و آل محمد ۔ ۔ (13)

علامہ موصوف نے درج بالا تشہد کو من و عن اپنی دوسری کتاب (14)میں بھی نقل کیا ہے ۔

سید محمد کاظم طباطبائی یزدی ؒ

استاد الفقہاء آیة اللہ سید محمد کاظم بن سید عبدالعظیم طباطبائی یزدی ؒ متوفی ۱۳۳۷ ھ کی مشہور عالم فقہی کتاب العروة الوثقی کے حاشیہ  پر آیت اللہ العظمی امام خمینیؒ ، آیة اللہ العظمی شیخ محمد علی اراکی، ؒ استاد امام خمینیؒ، آیة اللہ  العظمی سید ابوالقاسم خوئیؒ اور آیة اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی  کے فتاوی  بھی درج ہیں گویا یہ کتاب پانچ عالیقدر  مراجع شیعہ کے فتاوی پر مشتمل  ہے اس کے صفحہ ۵۳۶ پر یہ تشہد لکھا ہے :

ما فی موثقة ابی بصیر وھی ۔ ۔ ۔ بسم الله و بالله   و الاسماء الحسنی و خیر الاسماء لله ۔ ۔ ۔    اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسو له۔ ۔ ۔  واشھد انک نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول اللھم صل علی محمد و آل محمد و تقبل شفاعته و وارفع درجته (15)

ان مذکورہ بالا پانچ عالی قدر مراجع عظام نے اس کے حاشیہ پر شہادت ثالثہ کا تذکرہ تک نہیں کیا اگر یہ تشہد میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے مروی ہوئی تو اس کے  متعلق یہ مراجع عظام ضرور خامہ فرسائی فرماتے ۔

رواں صدی کے مراجع عظام و مجتہدین کے فتاوٰی

شیعہ کے تمام فقہاء و مجتہدین نے شہادت ثالثہ کو تشہد میں پڑھنے سے منع فرمایا ہےاور  اپنے رسائل عملیہ توضیحات  مسائل میں قطعی طور پر اسے درج نہیں کیا۔ اس سلسلے میں  ہر مقلد کو چاہیے کہ وہ ذرہ بھر چوں و چرا  کے بغیر اپنے مرجع کی توضیح المسائل پر عمل کرے ۔ غیبت کبری سے لے کر بانی انقلاب حضرت آیة اللہ العظمی السید روح اللہ الخمینی  رضوان اللہ تعالی علیہ تک کسی  مرجع نے اپنے رسالہ عملیہ میں نماز تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ ہم یہاں بالاختصار صرف چند مشاہیر مراجع و مجتہدین کے فتاوی درج کئے دیتے ہیں:

دنیائے شیعیت کی مشہور شخصیت ، مرجع دینی اعلی آیة اللہ العظمی السید ابو القاسم الموسوی الخوئی  سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ پاکستان  میں نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ  اشھد ان علیا و لی اللہ  کا پڑھنا  ایک  ایسا امر ہے جس میں نزاع ہےتو اس کے جواب میں  آپ نے فرمایا:

بسمہ تعالی  از انجائیکه اجزاء نماز محدود است و بایستی طبق ادله شرعیہ انجام شود آنچه اجازہ دادہ شدہ که در اثناء نماز آوردہ شود قرآن  و دعا و ذکر خداوند و ذکر پیغمبر ﷺ است و شہادت ثالثه اگرچه بسایر مھم است ولی ہیچ کدام از این چھار نیست و لذا ملحق کلام آدمی  است کہ در اثناء نماز جائز نیست گفتن آن مبطل نماز است واللہ العالم

باسمہ تعالی  اس جہت سے کہ نماز کے اجزاء محدود ہیں شرعی دلیلوں کے مطابق ان کو بجا لایا جائے نماز کے درمیان  جن چیزوں  کے بجا لانے کی اجازت دی گئی ہے وہ قرآن، دعا ،ذکر خداوند  اور ذکر پیغمبر ﷺ  ہے اور شہادت ثالثہ اگرچہ بہت ہی اہم  ہے لیکن وہ ان چار میں سے نہیں ہے بس اس لیے یہ کلام آدمی سے ملحق ہے اور نماز کے درمیان  یہ جائز نہیں ہے اس کا پڑھنا نماز کو باطل کرتا ہے ۔

اسی طرح موصوف ایک اور ایسے ہی استفتاء کے جواب میں ارشاد فرماتےہیں

لا ریب ان الشھادة لعلی بالولایة وا ان لم تکن جزا من الاذان والاقامة الا انھا مستحبة بلا اشکال و قد ورد الامر بھا لخصوص عند الشھادة بالارسالة بلا تقیید  بحال دون حال بل الشھادة بالولایة مکملة للشھادة بالرسالة و قد جرت سیرة العلماء علی الشھادة  بالولایة منذ عھد بعید من دون تکبیر من احدھم حتی اصبح ذلک شعارا للشیعة و ممیزا لھم من غیرھم نعم لا یجوز ذلک فیما ھو ممنوع منه فی الدین و من ھنا لا تجوز الشھادة الثالثة فی الصلوة لان الدین  من ع عن کل کلام فیھا غیر القرآن والذکر و الدعاء فلیس کل کلام مستحب فی نفسه یجوز فی الصلوة ما لم یکن قرآنا او ذکرا او دعا.

بلا شک و شبہ شہادت ولایت علی اگرچہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے تاہم بلا اشکال شہادت ولایت علی مستحب ہے اور اس کے بارے میں حکم وارد ہوا ہے کہ خصوصا جب شہادت رسالت دو تو بلا قید و حال ہر مقام پر شہادت ولایت بجا لاؤ بلکہ شہادت ثالثہ تکمیل شہادت رسالت ہے۔ طویل عرصے سے علماء شیعہ کی یہی سیرت چلی آ رہی ہے ، کسی نے انکار نہیں کیا حتی کہ آج یہ شہادت شیعہ کا شعار بن چکی ہے ،جس سے شیعہ دوسرے فرقوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ ہاں جہاں دین میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے وہاں یہ شہادت بجالانا جائز نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے کہ نماز میں اس کی بجا آوری جائز نہیں ہے چونکہ دین میں نماز کے اندر قرآن، ذکر اور دعا کے علاوہ کسی چیز کا اضافہ جائز نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ ہر مستحب کلام نماز میں بھی ادا کیا جائے جب تک وہ قرآن و ذکر اور دعا میں سے نہ ہو۔

حضرت آیت اللہ العظمی السید روح اللہ الموسوی الخمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے یہ استفتاء کیا گیا کہ:

در بعضی از کشور ھای خارجی افرادی دیدہ شدہ اند کہ در تشھد نماز خود بعد از شھادتین یعنی شھادت توحید و رسالت، شھادت ثالثه یعنی شھادت علیا ولی اللہ را می خوانند آیا شھادت علی ، امیر المومنین یا دیگر چیز بعد از شھادتین مستحب است یا مبطل نماز است توضیح بفرمائید .

ایران سے باہر بعض ممالک میں کچھ ایسے افراد دیکھنے میں آئے ہیں جو نماز کے تشہد میں شہادتین  یعنی شہادت توحید و رسالت کے بعد، شہادت ثالثہ یعنی شہادت علی ولی اللہ پڑھتے ہیں کیا شہادت علی امیر المومنین یا کوئی دوسری چیز شہادتین کے بعد پڑھنا مستحب ہے یا مبطل نماز ہے ؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

تو آپ اس کا جواب  ان الفاظ  سے مرحمت فرماتےہیں:

باید تشہد نماز، ھمان طوری که وارد شدہ و متعارف است خواندہ شود (16)

ضروری ہے کہ نماز کا تشہد اسی طرح سے پڑھا جائے جس طرح وارد ہوا ہے  اور جو معروف ہے ۔

آقائے خمینی نے اپنے رسالہ عملیہ  اور اپنی ضخیم کتاب تحریر الوسیلہ جلد اول صفحة ۱۲۷ پر اور نماز کے اسرار و رموز اور عرفانی ابحاث پر مشتمل کتاب اسرار الصلوة فصل ۱۲، ص ۲۱۱ فی سر التشھد والسلام کے تحت تشہد درج کیا ہے اس میں شہادت ثالثہ کا ذکر نہیں ہے۔

استاد الفقہاء حضرت آیة اللہ العظمی شیخ محمد باقر زنجانی نجفی جو دقت نظر اور وسعت معلومات میں یگانہ روزگار تھے،  انہوں نے نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کی بجاآوری سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارقام فرماتے ہیں :

واما الشھادة بالولایة فلا یوتی بھا فی اثناء الصلوة للاخبار الخاصة الناھیة عن ادخال الکلام فی اثناء الصلاة الا ما کان ذکرا او قرآنا و دعاء و الصلوة علی النبی من الدعاء دون الشھادة بالولایة

شہادت ثالثہ کو اثناء نماز میں نہیں بجا لانا چاہیے چونکہ اس سلسلے میں خصوصی احادیث وارد ہیں جن میں نماز کے اندر  سوائے ذکر خدا، قرآن اور دعا کے باقی پر اضافہ منع کیا گیا ہے اور پیغمبر ﷺ پر صلوات پڑھنا دعا میں داخل ہے مگر شہادت ثالثہ ان تینوں میں سے کسی کے ضمن میں نہیں آتی۔

ماضی قریب کی عہد آفرین شخصیت حضرت آیة اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ شہادت ثالثہ، شہادت بولایت حضرت امیر المومنین  علی بن ابی طالب (ع)کو تشہد نماز میں اگر بقصد تیمن و تبر ک پڑھا جائے تو کیا نماز اس فعل سے کامل ہو گی یا اس سے کسی قسم کا خلل پڑے گا یا یہ کہ ایمانا و اعتقادا پڑھنا درست ہے؟ آپ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

تشہد نماز میں مذکورہ قصد سے پڑھنا جائز نہیں ہے اگر عالما و  عامدا پڑھا جائے تو نماز باطل ہوگی۔

نجف اشرف کے مشہور مجتہد سماحة المرجع الدینی الاعلی آیت اللہ العظمی  سید عبدالاعلی الموسوی السبزواری مستحبات تشہد میں بیان فرماتے ہیں :

بسم الله و بالله ۔ ۔ ۔ و اشھد ان ربی نعم الرب وا ان محمد نعم الرسول  اللھم صل علی محمد و آل محمد (17)

حضرت آیة اللہ العظمی الشیخ جواد تبریزی مدظلہ العالی سے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

گفتن شہادت ثالثه در نماز یا گفتن آن  در اذان مختلف است و گفتن آن در اذان منعی ندارد بلکه از شعائر است ولی در نماز غیر از قرآن و دعا و ذکر خدا و پیامبر ﷺ جائز نیست۔

شہادت ثالثہ کااذان میں کہنے کا حکم نماز سے مختلف ہے اذان میں کہنا کوئی مانع نہیں رکھتا بلکہ شعائر سے ہے مگر نماز میں قرآن و دعا اور ذکر خدا پیغمبرﷺ کے علاوہ کہنا جائز نہیں ہے۔

حضرت آیة اللہ العظمی الشیخ صافی گلپائیگانی دام ظلہ سے اس طرح سوال ہوا کہ :

احتراما با توجه به شرائط حساس پاکستان نظر مبارک خود را دربارہ قرات شھادت ثالثه در تشھد نماز به طور صریح مرقوم فرمائید؟

آپ نے یوں جواب دیا

تشہد نماز را ھمان نحوی که ماثور است و در رسائل عملیه ذکر شد بخوانید و شھادت ثالثه را اضافه نکنید

نماز کے تشہدکو اسی طریقہ پر جو منقول ہے اور رسائل عملیہ میں ذکر ہوا ہے پڑھیں اور شہادت ثالثہ کا اضافہ نہ کریں۔

حضرت آیة اللہ العظمی الشیخ محمد فاضل لنکرانی دام ظلہ سے پوچھا گیا کہ:

شھادت به ولایت امیر مومنان علیہ السلام در اذان و اقامه چه قصدی گفته می شود؟ و آیا صحیح است در تشھد بعد از شھادت به نبوت، شھادت به ولایت نیز گفته شود؟

اذان اور اقامت میں ولایت امیر المومنین ؑ کی شہادت کس قصد سے کہی جائے اور آیا یہ صحیح ہے کہ تشہد  میں شہادت نبوت کے بعد شہادت  ولایت  علی(ع) بھی کہی جائے؟فرماتے ہیں کہ:

ھمان طور کہ در توضیح المسائل مسئله ۹۳۸ ذکر شدہ، شھادت به ولایت جزء اذان و اقامه نیست ولی خوب است به قصد قربت گفتہ شود و تشھد نماز را ھماں طور که در مسئله ۱۱۲۲ توضیح المسائل بیان شدہ بخوانند.

جس طرح توضیح المسائل مسئلہ نمبر ۹۳۸ میں ذکر ہوا اسی طرح پڑھا جائے  اور شہادت ولایت اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن بقصد قربت کہنا خوب ہے  اور نماز کا تشہد اس طرح پڑھا جائے جس طرح توضیح المسائل مسئلہ نمبر ۱۱۲۲ میں بیان ہوا ہے(18)

حضرت آیت اللہ آقائے محمد شیرازی فرماتے ہیں کہ مستحب تشہد اس طرح پڑھے

بسم الله و بالله   و خیرالاسماء الحسنی   کلھا لله۔ ۔ ۔    اشھد ان لا اله الا الله وحده لاشریک کله و اشھد ان محمد عبده و رسو له ارسله بالحق بشیرا و نذیرا بین یدی الساعة   واشھد انک نعم الرب و ان محمدا نعم الرسول

اس کے فورا بعد یہ کہے

اللھم صل علی محمد و آل محمد۔ ۔ ۔  و تقبل شفاعته و وارفع درجته (19)

برصغیر کے بطل جلیل سید العلماء آیت اللہ السید علی نقی  النقوی متوفی ۱۴۰۸ ھ رقمطراز ہیں:

تشہد میں کسی چیز کا اضافہ درست نہیں.

علی نقی النقوی عفی عنہ

قارئین باتمکین دامن اوراق میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ان ہی فتاوی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اب ذرا سطور ذیل میں درج کیے گئے مراجع عظام کے رسائل عملیہ کا چشم بصیرت مطالعہ فرما کر مزید تسلی و تشفی کر لیں:

آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی

توضیح المسائل ص ۱۷۵

آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم ،ص ۱۹۹

آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی ص ۲۰۶

آیت اللہ العظمی سید روح الموسوی خمینی ،ص۱۶۹

آیت اللہ العظمی سید محمد رضا گلپایگانی  ص ۱۹۵

آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ الوارف ص ۱۷۲

شیخ المجتہدین آیت اللہ العظمی محمد علی اراکی،ص ۱۹۸

آیت اللہ العظمی سید محمد شاھرودی ص ۲۰۵

آیت اللہ العظمی سید عبدالاعلی سبزواری،ص ۲۵۴

آیت اللہ العظمی سید محمد شیرازی ص ۲۴۶

آیت اللہ العظمی ناصرمکارم شیرازی ص ۲۷۹

آیت اللہ العظمی محمد جواد تبریزی ص ۱۸۹

آیت اللہ العظمی سید محمد روحانی  مدظلہ                ص ۲۵۰

آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین نجفی مدظلہ ص ۲۴۷

آیت اللہ العظمی لطف اللہ صافی گلپایگانی، ص ۲۱۹

کیا شہادت ثالثہ تشہد میں بوجہ تقیہ ترک کی گئی؟

امام الانبیاء نبی کریم ﷺ اور گیارہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے ادوار میں، ان کے بعد بارہویں امام ؑ کے ظاہری دور میں اس کے بعد غیبت صغری اور کبری کے زمانہ میں اسی تسلسل کے ساتھ چوتھی  صدی ہجری  سے لے کر پندرہویں صدی تک کہیں کسی موقع پرنماز میں شہادت ثالثہ کا عمل نہیں بجالایا گیا۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی گئی ہے اور بار بار اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ تشہد میں شہادت ثالثہ کو تقیہ کی بنا پر نہیں پڑھایا گیا تو اس سے متعلق گزارش ہے کہ نماز ایک مخفی اور محدود عمل ہے جس میں تقیہ کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا البتہ نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے کے عمل  میں تو تقیہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ظاہر سے ہے، لیکن نماز کے تشہد میں تقیہ کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک اخفاتی عمل ہے ۔جبکہ اذان  کا معنی اعلان ہے جس کی غرض و غایت  بغیر بلند آواز سے پوری نہیں ہوتی ،اگر انہوں نے علی ولی اللہ اذان  جیسے عمل میں شامل کر لیا ہے لیکن نماز میں شامل نہیں کیا حالانکہ اس سے کسی قسم کا تصادم رونما ہونے کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ نماز ہمیشہ آہستہ پڑھی جاتی ہے جبکہ تقیہ ہمیشہ ایسے عمل میں کیا جاتا ہے جو دوسروں تک واضح انداز میں پہنچے اور اس سے دوسرے متاثر ہوں ۔ اذان جو بلند آواز سے دی جاتی ہے اس میں تقیہ   ہو سکتا ہے۔

اول تو یہ کہ پہلے ہمیں حکم اولی اور حکم ثانوی کا فرق سمجھنا چاہیے جب کہ تقیہ حکم ثانوی ہے ۔ہر حکم کا موضوع ہوتا ہے اور موضوع کے موجود ہونے پر ہی حکم نافذ ہوتا ہے بنابریں میں تشہد میں شہادت ثالثہ کے بارے میں تقیہ ثابت کرنے کے لیے یہ امر بھی ثابت کرنا ہوگا کہ حکم دیا کہ تمام شرائط ہمیشہ ہر زمانے اور ہر مقام میں موجود تھے؟ جبکہ اس کائنات میں انسان کے حالات کیفیات بدلتے رہتے ہیں۔ باطنی اور  ظاہری حالت بھی مد وجزر کا شکار رہتی ہے بسا اوقات تقیہ کرنا واجب ہو جاتا ہے لیکن اسے دوام واستمرار لازم نہیں ہے ائمہ اہل بیت علیہم السلام  کے ادوار کو دیکھ لیجیے بعض ائمہ کو پوری طرح تبلیغ کا موقع ملا اور بعض کو موقع نہیں ملا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں علوم آل محمد کی خوب اشاعت ہوئی اور مکتب تشیع کی ترقی اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کی محفل ایک مدرسہ کی فکر و نظر تھی جہاں سے ہر باصلاحیت مومن علوم کمالات کے جوہر حاصل کر کے قریب اور دور دراز کے علاقوں میں جا کر پوری آزادی کے ساتھ مذہب اہلبیت کی تبلیغ میں منہمک تھا۔ کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ اس وقت نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھی جاتی ہو خود امام اور آپ کے کسی صحابی نے تشہد میں اسے نہیں پڑھا ۔الحمد للہ آج وہی نماز ہمارے پاس موجود  ہے۔

چوتھی صدی ہجری میں آل بویہ کی  شیعہ حکومت تھی کئی سال تک یہ حکومت برقرار رہی تاہم تشہد میں شہادت ثالثہ نہیں پڑھی گئی، جب کہ اذان میں علی ولی اللہ وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلا فصل کی صدائیں بلند ہوتی رہی ۔پانچویں صدی سے لے کر نویں صدی ہجری تک اہل تشیع کی تعداد میں مسلسل خاطر خواہ  اضافہ ہوتا رہا۔ دسویں اور بارہویں صدی کے دوران صفوی خاندان کی شیعہ حکومت رہی ہے،مذہب شیعہ کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا، اسی تسلسل کے ساتھ اذان میں شہادت ثالثہ پڑھی جاتی تھی لیکن تشہد میں شہادت ثالثہ کے پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ تقیہ کا زمانہ نہیں تھا۔ ہمیشہ شیعہ حکومت رہی  اور شیعہ پوری آزادی سے نماز پڑھتے تھے۔

بعد ازاں اسلامی انقلاب آیا جس کی روشنیوں نے پوری دنیا اسلام کو روشن اور تابندہ کر دیا ۔ زمام حکومت نائب الامام خمینی قدس سرہ اور دیگر بلند پایا مجتہدین کے ہاتھ میں تھی اور اب بھی  مجتہدین کی سرپرستی برقرار ہے تقیہ نہیں ہے ۔

دنیا  کی عظیم دانشگاہ  نجف اشرف نائبین امام اور مجتہدین کی جدوجہد سے چل رہی ہے، مذہب اہل بیت (ع) کی نشرواشاعت ہو رہی ہے، لیکن کسی جگہ بھی نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ نہیں  پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بحث کا حاصل  اور لب لباب یہ ہے کہ ماضی کی تاریخ اور حال کا مشاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ کوئی تقیہ نہیں ہوا ،درحقیقت تشہد میں کہیں بھی شہادت ثالثہ کی بجاآوری کا حکم نہیں دیا گیا ۔

ایک شبھہ کا جواب

شبھہ

فقہ الرضا ص ۱۰۸ مطبوعہ قم، الحدائق الناضرہ ج۸، ص ۴۵۱، مطبوعہ ایران، رسالہ قوانین الشریعہ، ص ۳۲۵، طبع بیروت، بحار الانوار ، ج۸۴، ص ۲۰۹، طبع بیروت ،انوار شرعیہ از مولانا حسین بخش جاڑا مرحوم ص ۵۷، ان سب کتب میں نماز کے تشہد میں شہات ثالثہ کا پڑھنا لکھا ہے۔

جواب

تشہد میں شہادت ثالثہ کے اثبات کے لیے دیئے گئے حوالے بالکل بے سود ہیں۔ اس لیے کہ مذکورہ  کتب میں بیان کی گئی روایت کا اصل ماخذ فقہ الرضا یا فقہ الرضوی نامی کتاب ہے جس کا مؤلف ابھی تک معلوم  نہ ہو سکا، اس لیے اس کی صحت مشکوک ہے۔ ایسی کتاب کی روایت کو مدار استدلال ٹھہرا کر مداخلت فی الدین کرنا شریعت اسلامیہ سے کھلی بغاوت ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

الف ۔ بحار الانوار، ج۸۴، ص ۲۰۴، طبع موسسة الوفا بیروت میں یہ تشہد جس میں شہادت ثالثہ کا ذکر ہے فقہ الرضاسے نقل کیا گیا ہے۔ علامہ باقر مجلسی ؒ نے اسی  کتاب باب التشہد و احکامہ صفحات ۲۸۷ و ۲۸۹ و ۲۹۰ پر روایت نمبر ۱۵ و ۱۹ اور نمبر ۲۲ میں جو تشہد بحوالہ فلاح السائل، دعائم الاسلام اور المعتبر لکھا ہے بہ نسبت فقہ الرضوی زیادہ مستند اور متفق علیہ ہے۔

ب۔ حدائق الناضرہ جلد۸، ص ۴۵۱ تالیف شیخ یوسف بحرانی متوف ۱۱۸۶ ھ طبع موسسة النشر الاسلامی قم میں یوں ہے:

قال فی الفقہ الرضوی فاذا جلست فی الثانیة ۔ اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ  شیخ یوسف بحرانی فقط ناقل کی حد تک ہیں۔ آپ نےافضل التشھد ما رواہ الشیخ فی الموثق عن ابی بصیر عن ابی عبد اللہ(ع) ۔الخ

کہہ کر اس تشہد کو اختیار کیا ہے جسے شیخ طوسی ؒ  نے اپنی کتاب موثق میں بروایت  ابوبصیر  حضرت امام جعفر صادق ؑ سے نقل کیا ہے جس میں شہادت ثالثہ ذکر نہیں ہے اس سے خود مصنف کانظریہ واضح ہو گیا ہے۔

ج۔ مستدرک الوسائل ج۵، ص ۱۷، ابواب التشہد میں فقہ الرضا سےنقل ہوا۔ جبکہ علامہ نوری ؒ نے اپنی اسی کتاب کے صفحات ۸ الی ۱۰ پر شیخ صدوقؒ، شیخ صدوق ؒ اور سید ابن طاؤؤس ؒ کی تصنیف کردہ کتب معتبرہ المقنع، مصباح المتہجد اور فلاح السائل سے  جو مستحب طویل تشہد درج کیا ہے اس میں شہادت ثالثہ ذکر نہیں ہے۔ اصولی اعتبار سے  ان مذکورہ کتب کے مقابل ایک مجہول المؤلف کتاب فقہ الرضوی  کی کچھ حیثیت  نہیں ہے کیونکہ اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے ۔

د۔ رسالة القوانین الشرعیة ج۱، ص ۳۲۶ تالیف مولانا محمد طباطبائی میں ہے  :ورد  عن الامام الرضا ؑ ۔ ۔ ۔ فقہ الرضا سے لیا ہے۔

ھ۔مولانا حسین بخش جاڑا صاحب نے اپنی کتاب انوار شرعیہ طبع اول میانوالی میں شہادت ثالثہ والی روایت مستدرک الوسائل ہی سے نقل کی ہے جس کا ماخذ فقہ رضا ہے لیکن جاڑا صاحب نے اپنی پوری زندگی میں عملی طور پر تشہد میں شہادت ثالثہ نہیں پڑھی۔ خودراقم السطور  کو بھی ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے کے اکثر مواقع میسر آئے لیکن انہوں نے قطعی طور پر تشہد میں شہادت ثالثہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اپنے مقتدیوں کو اسے پڑھنے کا حکم دیا۔

صرف کتاب میں لکھا ہوا ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ آیا صاحب کتاب خود بھی اس کا قائل اور عامل ہے جب کہ انہوں نے شہادت ثالثہ سے متعلق اپنا نظریہ اسی کتاب کے صفحہ 57 پر یوں بیان کر دیا ہے ہے:

ائمہ طاہرین علیہم السلام نے جو طریقہ نماز کا تعلیم فرمایا ہے وہ یہی ہے اس سے بڑھانا یا کم کرنا علماء کے بس میں نہیں ہے ۔تشہد میں حضرت امیرالمؤمنین کی ولایت کی شہادت پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کی موشگافی  ہے کیونکہ درود میں سب آل محمد شامل ہیں۔

فقہ الرضا کی حقیقت

فقہ الرضا نامی کتاب کی نسبت حضرت امام رضا علیہ السلام کی طرف دینا ہی قطعاً درست نہیں ہے۔ اس کتاب کی صحت انتساب میں کلام ہے۔ اس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے ” المنسوب من الامام الرضا علیہ السلام”

غور کیجئے یہ جملہ  اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ کتاب امام علیہ السلام کی تالیف نہیں ہے اور یہ نسبت حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہے ۔اس کتاب کی خود اندرونی شہادت سے پتا چلتا ہے کہ یہ امام کی کتاب نہیں ہے مثلا میں روایت کرتا ہوں، روایت کی گئی ہے، روایت کرتا ہے، ہم روایت  کرتے ہیں یہ طریقہ تحریر کسی معصوم امام کا اسلوب  نہیں ہو سکتا ۔

ایک ہزار سال تک اس کتاب کا وجود نا معلوم رہا  کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے بعد چار اماموں سے یہ کتاب کیوں مخفی رہی؟ انہوں نے اپنے شیعہ موالیوں  بلکہ اپنے خاص اصحاب کو کیوں نہ بتایا ؟ان چار آئمہ علیہ السلام سے اس کتاب کے متعلق اشارہ تک ثابت نہیں ہے اس کتاب میں ایسی باتوں کی بکثرت بھرمار ہے کہ جن کا امام (ع) کی زبان مبارک سے صادر ہونا ہی ناممکن  اور محال ہے ۔اگر یہ کتاب امام علیہ السلام کی تالیف ہوتی تو شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ کے والد سرکار علامہ علی بن بابویہ قمی  یا خود رئیس  المحدثین شیخ صدوق اپنی بیش بہا تصنیف عیون اخبار رضا میں یقینا ضرور اشارہ کرتے ۔ اس کتاب میں کچھ ایسے متناقض  مسائل و احکام ذکر کیے گئے ہیں جو شیعہ مسلمات بلکہ خود ائمہ اطہار علیہم السلام کے عمل اور فرمودات کے سراسر خلاف ہیں مثال کے طور پر:

الف۔ ایک روز حضرت علی ؑ نے اپنے  بیٹے محمد حنفیہ سے پانی منگوا کر جو  وضو کیا وہ فقہ الرضا ص ۷۰ پر درج ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جناب امیر ؑنے وضو اس طرح فرمایا کہ کلی فرمائی ،ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے کو دھویا، پھر اپنے دائیں ہاتھ کو اور پھر اپنےبائیں ہاتھ کو دھویا پھر سر کا مسح فرمایا اور پھر اپنے پاؤں کو دھویا ۔بلکہ اسی فقہ الرضا کے ص  ۷۹ پر لکھا ہے کہ وضو میں پاوں دھونا اور مسح کرنا دونوں جائز ہیں۔ جبکہ یہ  قرآن مجید کی آیت وضو کے بالکل خلا ف ہے۔

اس عربی عبارت کی ابتداء میں لفط نروی،  اصول حدیث پر دسترس رکھنے والوں کے لیے قابل توجہ ہے؟

ب۔ حرام جانور کا چمڑہ رنگنے سے پاک ہو جاتاہےاور  اس میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔(20)

ج۔ معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔(21)

اگر بقول ان کے یہ کتاب اما م رضا ؑ کی تصنیف ہے تو انہیں ہر فرمان پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ حکم امام ؑ کی خلاف ورزی، خلاف اسلام ہے یہ تو   افتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض والی بات بن جاتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ حر عاملی، سید الفقہاء سید احمد خوانساری ، آقائے آیة اللہ وحید بہبہانی، سید المحققین سید حسن صدرؒ، آیة اللہ سید ابوالقاسم الخوئیؒ، آیة اللہ عظمی امام خمینی ؒاور دیگر بہت سے جلیل القدر علماء اعلام، فقہاء کرام اور اساطین علم و تحقیق جو فن  حدیث، اس کے معارف اور اسماء الرجال پر وسیع نظر رکھتے ہیں ، سب نے  فقہ الرضا نامی کتاب کی نسبت حضرت امام رضا ؑ سے انکار و ابطال فرمایا ہے ۔ چنانچہ شیخ حر عاملی ؒ فرماتے ہیں:

و عندنا ایضا کتب لا نعرف مؤلفیھا منھا ۔ ۔ ۔ الفقه الرضوی لا یعرف جامعه و راویته الی ان قال و امثال ھذه الکتب لا یعتمد علی نقلھا لکنه مؤید لغیره

ہمارے ہاں ایسی کتب بھی پائی جاتی ہیں جن کے مولف ابھی تک ہمیں معلوم نہ ہو سکے ان ہی میں سے ایک کتاب فقہ الرضوی ہے  جس کے جامع اور روایت کرنے والے کا پتہ نہ چل سکا۔ (22)

بعینہا اسی طرح رسالة الخوانساری ص ۲۶ میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے عظیم استاد، محقق علی الاطلاق حضرت آیة اللہ شیخ جعفر سبحانی دام مجدہ نے اپنی کتاب موسوعہ طبقات الفقہاء میں کتاب فقہ الرضا کا امام رضا ؑ کی تالیف نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہے اور رقمطراز ہیں:

کتاب الفقہ الرضوی المطبوع المنتشر و لیس ھو من تصانیف الامام الرضا ؑو انما تصدی لتألیفہ فقیہ عارف بمتون الاخبار مطلع علی مطلقھا و مقیدھا عامھا و خاصھا فجرد المتون عن الاحادیث  و افتی بنفس لفظ الحدیث ۔ ۔ ۔

کتاب الفقہ الرضوی جو طبع ہو کر شائع ہو چکی ہے یہ کتاب حضرت امام رضا ع کی تصانیف میں سے نہیں ہے اور اسے اخبار و احادیث کے متون کو جاننے والے، مطلق و مقید اور عام و خاص پر اطلاع رکھنے والے ایک فقیہ نے تالیف کیا ہے انہوں نے متون کو سند سے الگ کیا اور احادیث کے لفظوں ہی  میں فتوا دے  دیا۔ (23)

کتاب فقہ الرضا کے بارے میں آیة اللہ  العظمی سید ابوالقاسم الخوئی عطر اللہ مرقدہ کا آخری  اور فیصلہ کن بیان دیکھنے کے لیے ان کے درس کی تقریرات پر مشتمل کتاب مصباح الفقاھة   کا مطالعہ کرتے ہیں  تاکہ اپنے دل کی تسلی کر لیں۔

چنانچہ سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد بطور نتیجہ کلام فرماتے ہیں:

ثم انه مع الغض عن جمیع ما ذکرناه فان فی الکتاب قرائن قطعیة تدل علی عدم کونه لمثل مولانا الرضا علیہ السلام بل ھو رسالة عملیة ذکرت فیھا الفتاوی والروایات بعنوان الافتاء کما یظھر لمن یلاحظه کیف و اکثر روایاته ….صحیح مسلم و علی ھذا فعلی الفقه السلام (24)

گزشتہ  تمام بحث سے قطع نظر اس کتاب کے اندر ایسے قطعی قرائن اور شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فقہ الرضا  حضرت امام رضا علیہ السلام جیسی معصوم ہستی کا کلام ہو ہی نہیں سکتا بلکہ یہ ایک رسالہ  عملیہ جس میں فتاوی اور  روایات کو بطور فتوی ذکر کیا گیا ہے چنانچہ کتاب کو ملاحظہ کرنے والے حضرات سے پوشیدہ نہیں ہے اور امام علیہ السلام کا کلام  کیسے ہو سکتا ہے  جبکہ اکثر روایات یاوری کے یا          روا وغیر ہ کے ذریعہ بیان ہوئی ہیں یا صرف راویوں سے روایت نقل کی گئی ہے خصوصا  کتاب کے آخر میں بہت ساری روایات کو ابن ابی عمیر، زرارہ حلبی، صفوان، محمد بن مسلم اور منصور وغیرہ سے نقل کیا گیا ہے اس کے علاوہ اس کتاب کے اندر ایسی ایسی عبارتیں ہیں کہ جن کا امام معصوم ؑ سے صادر ہونا قباحت سے خالی نہیں  ہے ۔مثلا  ایک مقام پر ہے :

جعلنی الله من السوء فداک  یا باب قدر میں  فرمایا صف لی  منزلتین

یہ کلمات قائل کی جہالت کو ظاہر کرتے ہیں جو امام کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی بعض عبارات مستدرک  میں نقل کی گئی  ہیں اس کے علاوہ کتاب فقہ الرضا میں باہمی متناقض احکام بیان کئے گئے ہیں اور ایسے احکام بھی جو مذہب تشیع کے خلاف ہیں ان عبارات کو تقیہ پر محمول کرنا  بھی بدیہی طور پر باطل ہے  کیونکہ اسی کتاب میں بہت سے خلاف تقیہ احکام موجود ہیں بلکہ بعض عبارتوں سے تو آئمہ اطہار ؑ کی توہین و تکذیب لازم آتی ہے،جیسے باب متعہ میں ہے اور یہ موقف اختیار کرنا  کہ کتاب کا کچھ حصہ امام رضا ؑ کی املاء ہے اور کچھ حصہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری کی املاء ہے اور یہ کہ مقام و تقیہ  و مقام جن میں امام ؑ کی املاء سے یہ کہنا تکلف در تکلف ہے اور علم و یقین کے بغیر ہرزہ سرائی ہے ۔ یہ کتاب فقہ الرضا  کا حال ہے، صاحب فصول نے اس سلسلے میں بڑی عمدہ بحث کی ہے پس حق تو یہ ہے کہ اگر احکام شرعیہ کا در و مدار،  اس قسم کے معنا  دار ومدارک ہوں تو ہمارے سامنے بخاری، مسنداحمد اور صحیح مسلم بھی ہیں بنابریں ایسی فقہ کا خدا حافظ۔

نائب الامام ،روح اللہ خمینی قدس سرہ کی نجف اشرف کے فقہی دروس پر مشتمل کتاب البیع جو پانچ ضخیم جلدوں میں ہے آپ اس کی پانچویں جلد میں فقہ  رضوی کے متعلق فرماتے ہیں:

و اما الفقه الرضوی فلا ینبغی الاشکال فی انه لیس من تصنیفات الرضا علیه السلام کما لا یخفی علی من راجعه و تدبر فی تعبیراته بل ھو علی ما یظھر منه تصنیف عالم ذی  قریحة مستقیمة و ھو مشتمل علی روایات مرسلة و فتاوی من صاحبه و ما حکی عنه فی المقام بلفظ روی یکون مضمونه قریبا من سائر الروایات ولا سیما مرسلة جمیل و ما حکی عنه بلا لفظة روی یکون علی الظاھر.

جہاں تک فقہ رضوی کا تعلق ہے تو بلا اشکال یہ کتاب امام رضا علیہ السلام کی تصنیف  نہیں ہے جیسا کہ کتاب کے ملاحظہ کرنے اور اس کی تعبیرات میں غوروفکر کرنے والے سے مخفی نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کسی مستقیم الطب آدمی کی تصنیف نہیں ہے ۔ اس میں کچھ روایات مرسل ہیں کچھ صاحب کتاب کے اپنے فتاوے ہیں جو بات روی کے الفاظ سے نقل کی گی ہے اس کا مضمون دیگر روایات سے قریب تر اور ملتا جلتا ہے اور جو لفظ روا  سے باتیں نقل ہوئی ہیں وہ بظاہر صاحب کتاب کا اپنا فتوی  ہے۔(25)

محترم قارئین! فقہ الرضوی نامی کتاب کو ان جید و ممتاز مجتہدین کی تحقیق کے تناظر میں دیکھیں اب اس موضوع پر مزید تبصرے کی چنداں  ضرورت نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں مشہور شیعہ علماء نے فقہ الرضا نامی کتاب کی ردمیں تحقیقی انداز میں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہر لحاظ سے اسے ناقابل اعتما د  و استناد سمجھا ہے۔ چنانچہ جناب آیة اللہ سید محمد ہاشم اصفہانی آل صاحب روضات الجنات  نے تحقیق حول کتاب فقہ الرضا  کے نام سے کتاب تحریر کی ہے اور فخر المحققین آقای رضا استادی مدظلہ  مسئول حوزہ علمیہ قم المشرفہ نے تحقیق پیرامون فقہ الرضا تصنیف فرما کر ثابت کر دیا  کہ یہ کتا ب امام ؑ کی املاء کردہ نہیں ہے اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ  جب اصل ماخذ ہی  غلط ہے تو روایت خود بخود کمزور و ضعیف اور ناقابل عمل ہو جاتی ہے۔ ثابت ہوا کہ فقہ الرضا کی نسبت حضرت امام رضا ؑ  کی طرف کردینا غیر منصفانہ طرز عمل ہے ۔ بفرض محال چند لمحوں کےلیے اس کتاب کو امام ؑ کی تصنیف مان ہی لیاجائے تو اس کتاب کے مندرجات  کی وجہ سے خود امام ؑ  غیر معصوم قرار پاتے ہیں جو صریح خلاف تشیع ہے۔

قرآن میں تین شہادتوں کا شبھہ

بعض کی جانب سے یہ شبھہ نقل ہوا ہے کہ قرآن مجید میں تین شہادتوں کا ذکر موجود ہے ۔ ارشاد رب العباد ہے   والذین ھم بشھادٰتھم قائمون(26) اور وہ اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں ۔

چونکہ آیت میں لفظ شہادات جمع ہے  اور جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے  پس اس سے مرادتین شہادتیں ہیں لہذا شہادتِ ثالثہ  تشہد میں پڑھنا ضروری ہے ۔

جواب

آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی احادیث میں تفسیر بالرائے کی شدید  مذمت و وعید کی گئی ہے چنانچہ بصرہ شہر کے ایک معروف عامی مفسر قتادہ جو کلام  خدا کی اکثر غلط توجیہات کیا کرتا تھا ایک روز اس کا حضرت امام محمد باقرؑ  سے آمنا سامنا ہوا تو آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

ان کنت فسرت القرآن برایک فقد ھلکت و اھلکت

اے قتادہ اگر تو نے قرٓان کریم کی تفسیر اپنی ذاتی رائے سے کی تو تم خود ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے مزید تفصیل کے لیے رسالة المحکم والمتشابہ للسید مرتضی علم الہدی کا مطالعہ کیا جائے۔

محولہ آیت مبارکہ کی تفسیر بالرائے کرنے کی سعی نامراد کی گئی ہے حالانکہ  یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلے  اور بعد کی آیات مجیدہ میں اہل ایمان کے کردار کی چند اہم صفات کو بیان کیا گیا ہے اس آیت مستدلہ میں ایمان والوں کی تیسری صفت ذکر ہوئی ہے کہ وہ اپنی گواہیوں  پر قائم رہتے ہیں کسی وقت  بھی  وہ دنیاوی لالچ و حرص ، کسی دباؤ اور مفاد یا خوف  کی وجہ  سے اپنی گواہی سے  سر مو انحراف نہیں کرتے کیونکہ  معاشرے میں عادلانہ نظام تب ہی تشکیل پا سکتا ہے  کہ جب عادلانہ گواہیوں کو قائم اور برقرار رکھا جائے۔ انسان معاشرے میں بسا اوقات کئی چیزوں کا گواہ بنتا ہے مثلا قتل کے مقدمے کے گواہ، نکاح یا طلاق دیتے وقت گواہ بن جاتا ہے دیگر کئی ایسے معاملات ہیں جن میں انسان کو گواہ بننا پڑتا ہے اس صورت میں اگر وہ اہل ایمان سے ہے  تو وہ سچی  گواہی دینے سے  نہیں رک سکتا  کیونکہ  سچی گواہی کو چھپانا  گناہ عظیم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔

ولا تکتمو الشھادة و من یکتمھا فانه اثم قبله (27)

اور گواہی نہ چھپانا اور جو گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہ گار ہےفانہ اثم قلبہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہ عمل دل کی مرضی سے انجام پاتا ہے اس وجہ سے گناہ کی نسبت دل کی طرف کی گئی ہے ۔

چنانچہ محولہ بالا آیت میں اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے کہ اہل ایمان کی بہت ساری صفات ہیں جن میں سے ایک صفت یہ ہے  کہوالذین ھم بشھاداتھم قائمون (28)

اور وہ اہل ایمان اپنی گواہیوں پر قائم اور ثابت قدم رہتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کسی دباو کے زیر اثر اپنی بر حق گواہی سے ہر گز انحراف نہیں کیا کرتے مگر اس  آیت کا شہادت ثالثہ سے کیا ربط و تعلق؟

رہی یہ بات کہ لفظ شہادت جمع ہے اور جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے  اس سے مراد تین شہادتین توحید، رسالت، ولایت مراد ہیں۔ ذرا آئیے  اس نکتہ کو بھی حل کرتے چلیں۔ علوم عربیہ کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ عربی زبان میں جمع کی دو قسمیں ہیں ایک جمع قلت اور دوسری کثرت، جمع قلت وہ ہوتی ہے ۔ جس کے افراد کی تعداد زیادہ سے زیادہ دس ہوتی ہے اور جمع کثرت وہ ہوتی ہے  جس کی افراد کی کم از کم تعداد گیارہ ہوتی ہے اور زیادہ کی کوئی حدمعین نہیں ہوتی۔

شہادات جمع سالم ہے جو ضمیر معرفہ کی طرف مضاف ہے اور اپنے مضاف الیہ سے تعریف کسب کر رہی ہے اورجمع  معرفہ کی  قوت میں ہے اوریہ بات طے شدہ ہے کہ عہد کے نہ ہونے کی صورت میں جمع سالم معرفہ کثرت کے لیے استعمال ہوتی  ہے  قلت کے لیے نہیں اب دیکھئے کہ شہادات جمع کثرت کا صیغہ ہے اور بنیادی طور پر دس سے زیادہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو دس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ اگر اس سے مراد شہادت ثالثہ کو لیا جائے تو کم از کم گیارہ شہادتیں تشہد میں دینی چاہیے۔

اس  آیت سے تشہد میں شہادت ثالثہ ثابت کرنے والے چند نا فہم اور کوتاہ فکر افراد سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ  وما ینطق عن الھوی  سے متصف رسول  کو یہ علم نہ تھا کہ یہ آیت شہادت ثالثہ کے  متعلق ہے؟کیا خود امیر المومنین ؑ اور دیگر آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس کے معانی و مفہوم نہیں جانتے تھے؟ اور ان کو اس  آیت کی تفسیر معلوم نہ تھی؟ کیا ان کے بعد آنے والے مجتہدین و علماء اعلام کا فہم و ادراک اس آیت کی تفسیر سے ابھی تک نا آشنا تھا؟ کیا اللہ تعالی نے اس پندرہویں صدری میں تم پر وحی نازل کی ہے  کہ اس سے مراد شہادت ثالثہ ہے؟ بفرض محال  اگر چند لمحوں کے لیے تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے مراد شہادت ثالثہ ہے تو پھر اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں مخالفتِ قرآن مجید لازم آتی ہے جو بالاتفاق حرام ہے  اگر پیغمبر گرامی اسلام ﷺ  اور آئمہ اطہار ؑ نے تشہد میں شہادت ثالثہ نہیں پڑھا اور نہ لوگوں کو یہ حکم خدا سنایا ہے تو یہ الزام نبی اکرم ﷺ اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام پر عائد ہو جا تاہے جن سے ان کی تکذیب اور توہین لازم آتی ہے جو صریح کفر کاموجب ہے۔
……………

حوالہ جات:

1: من لا یحضره الفقیه،ج۱،ص318،319
2: المقنع فی الفقه ، ۹۵، ابواب الصلوة، ناشر: مووسه الامام الهادی، قم المقدسه
3: دول الاسلام، ج۱، ص ۱۹۱
4: المقنعه فی الاصول والفروع، ص ۱۱۳، باب کیفیة الصلواة و صفتھا ، طبع جدید ایران
5۔ کتاب السرائر الحادی لتحریر الفتاوی ، ج۱، ص ۴۳۰ و ۴۳۱، باب کیفیة فعل الصلوة ، طبع نشر الاسلامی جماعة لمدرسین ، قم المشرفه
6۔ فلاح السائل، ص ۱۵۰، مطبعه حیدریه ، نجف اشرف
7:  تذکرة الفقهاء ،جلد سوم ،صفحه ۲۳۶ ،طبع جدید ایران ۔
8۔ تحریر الاحکام الشرعیة علی مذهب الامامیة ،جلد اول، ص ۲۵۷، ۲۵۸ مطبوعه موسسة الامام الصادق، قم ایران
9۔ ذکر ی الشیعه الی احکام الشریعة جلد ۳، ص ۴۰۹، طبع ایران
10۔ روض الجنان ج۲، ص ۷۳۸، طبع جدید ایران
11: مفتاح الفلاح فی الادعیة والاوراد ص ۹۶ باب آداب تشهد
12۔ المحجة البیضاء، ج۱، ص ۳۶۲، طبع انتشارات اسلمی، جامعه مدرسین ، حوزه علمیه قم۔
13: باب کیفیة التشھد، طبع جدید ایران
14۔ بدایة الھدایة جلد اول، ص ۱۱۱، مطبوعه ایران
15: کتاب العروة الوثقی ناشر مکتب وکلاء الامام الخمینی ؒ فی المسائل الشرعیة والامور الحسبیه، بیروت
16۔ استفتائات مرجع تقلید جهاں تشیع حضرت امام خمینیؒ ، ج۱، ص ۱۶۷، طبع انتشارات اسلامی، قم المشرفه
17۔ مهذب الاحکام  فی بیان لحلال والحرام، ج۷، ص ۵۵ و ۵۶ مطبعة الآداب، نجف اشرف، ۱۹۷۸
18۔ جامع المسائل ج۲، ص ۹۷، سوال نمبر ۲۸۹، طبع ایران
19۔ کتاب الفقه شرح العروة الوثقی، ج۴، ص ۲۱۶ و ۲۱۷، ناشر دارالقرآن الحکیم ایران
20۔ فقه الرضا ص ۲۰۳، باب ۵۳
21۔ فقه الرضا ص ۱۱۳
22۔ امل الآمل ، ج۲، ص ۳۶۴، طبع تهران
23۔ موسوعه طبقات الفقهاء، ج۱، ص ۳۹۵، طبع موسسة الامام الصادق ؑ قم ایران
24۔ مصباح الفقاھة ج۱، ص ۲۵ تا ۳۰ طبع دارالهادی بیروت
25۔ کتاب البیع، ج۵، ص ۲۱، ناشر موسسة تنظیم نر و آثار، امام خمینیؒ ، تهران
26۔ سوره معارج آیت ۳۳
27۔ سوره بقر آیت ۲۸۳
28۔ سوره معارج، آیت ۳۳

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=20691