31

حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو |قسط 3

  • News cod : 21027
  • 13 آگوست 2021 - 12:55
حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کا انٹرویو |قسط 3
میرا پسندیدہ مضمون حفظ قرآن کے بعد قرآن مجید رہا ہے اور تفسیر وغیرہ لیکن زیدہ تر منطق اور فلسفہ کو میں کافی محبت سے پڑھا کرتا تھا

(گذشتہ سے پیوستہ)

سوال: روزانہ تقریبا کتنے دروس ہوتے تھے؟

جواب: دروس کی تعداد تو نہیں بتائی جاسکتی چونکہ استاد العلماء خود پڑھایا کرتے تھے اور 2 بجے تک جاتے تو کم از کم بھی ہو تو 8۔9 درس ان کے اپنے ہوتے تھے اور نیچے جو مولوی صاحب ہوتے تھے جیسے نور محمد بگا یا محمد سعید صاحب وہ بھی درس دیتے تھے لیکن ٹائم سورج نکلنے سے 2 بجے تک ہوتا تھا۔

سوال:  اس زمانے میں کیا طلباء کو مدرسہ کا کوئی کام یا مدرسین کا کوئی کام کرنا پڑتا تھا؟

جواب: طلباء کو کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا البتہ ایک، دو طالبعلم مولانا صاحب قبلہ کیلئے چائے بناتے وہ لڑکا بہت با اثر اور معز زسمجھا جاتا تمام لڑکے اس سے خوفزدہ رہتے کہ کہیں ہماری شکایت نہ کردے۔ اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا جو کرنا پڑتاہو۔

سوال: اس وقت آپ کے پسندیدہ مضامین کون کون سے تھے اور کوئی ایسا مضمون جس سے آپ کی دلچسپی نہ ہو؟

جواب: پسندیدہ مضمون تو حفظ کرنے کے بعد قرآن مجید رہا ہے اور تفسیر وغیرہ لیکن زیدہ تر منطق اور فلسفہ کو میں کافی محبت سے پڑھا کرتا تھا اور منطق، فلسفہ میں مولانا صاحب قبلہ بہت آگے تھے حتی کہ ان کے بعد ان کے شاگر علامہ حسین بخش صاحب قبلہ وہ بھی منطق فلسفہ میں بہت آگے تھے۔ باقی نحو ، صرف، معانی، بیان تمام کتابیں ہم پڑھتے تھے۔ عیساغوجی ، منطق حصہ اول سے آخر تک باقاعدہ عربی عبارت یاد کرائی گئی تھی۔ چونکہ یہ ارسطو کی کتاب ہے حضرت عیسی سے بھی وہ پہلے تھے اور اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام عنوانات کی تعریفیں اس کتاب میں موجود ہیں حتی کہ جب شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس نجفی صاحب نجف سے آئے اپنے استاد کو ملنے گئے تو ہمیں کہاگیا کہ آئیں آکر عیسا غوجی سنائیں۔ میں نے اول سے لے کر آخر تک سنائی تو وہ فرمانے لگے اختر عباس آپ کو بھی اس طرح یاد نہیں ہوگا تو انہوں نے کہا نہیں مجھے اس طرح یاد نہیں۔

سوال: مدرسہ میں کوئی چیز یا بات جو آپ کو پسند نہیں تھی یا جس سے آپ کو الجھن ہوتی تھی۔

جواب: مدرسہ کی زندگی میں اس وقت انتہائی سادگی ہوتی تھی۔ اکثر طلباء ایسے ہوتے جن کے پہننے کا صرف ایک جوڑا ہوتا تھا۔ شاذ و نادر ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے 2 جوڑے ہوتے تھے۔ کبھی کسی قسم کی الجھن نہیں ہوئی تھی جیسا کہ میں کہا ہے دوپہر کو سالن نہیں ہوتا تھا، طالب علم لسی لے آتے تھے کھانا کھالیتے تھے نہایت سادگی سے رہتے تھے۔ اگر کسی دن بارش ہوجاتی تھی تو طلباء گڑ والی چائے پیتے تھے کیونکہ سردی کا دن ہوتا تھا۔ جن کے پاس پیسے ذر ا زیادہ ہوتے تو وہ گڑوالے چاول بناتے تھے۔ تو سادہ سی زندگی تھی کسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔ گوشت کبھی کبھار دستیاب ہوتا وہ بھی کئی مہینوں کے بعد تو کسی کو خاص خواہش نہ ہوتی کہ ہمیں گوشت نہیں ملا یعنی طالب علم یہ سمجھتے تھے کہ علم دین پڑھ رہے ہیں اور علم دین پڑھنے میں کھانے پینے اور ان چیزوں کی بجائے صرف حصول علم کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔

سوال : اس وقت آپ کے پسند ید ہ استاد کون تھے اور پسندیدگی کی وجہ کیا تھا ؟

جواب : پسندید ہ استاد ہمارے وہی استاد العلماء تھے جن سے ہم ابتداء سے لیکر آخر تک پڑھتے رہے ہیں اور ان کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ درس پڑھارہے ہیں اور ہم میں سے کوئی لڑکا چلا جاتا ان سے پوچھنے کیلئے تو وہ ان سے خوش ہوتے تھے جس کی کوئی حد و انتہا نہیں  اور وہ کہتے تھے یہ لڑ کا  بہت اچھا ہے کہ مجھ سے پوچھنے کیلئے آیا ہے ۔ تو اسی وجہ سے وہ پسندیدہ تھے اور ہم ان سے پڑھتے تھے حتی کہ جب جامعة المنتظر میں میں آیا ہوں تو اس وقت مولانا اختر عباس نجفی شیخ الجامعہ نے مجھ سے معانقہ کیا اور فرمانے لگے کہ اگر ہمارا درس آپ کو پسند آ جائے تو آپ نے بعد میں پڑھانا بھی یہیں ہے۔ چونکہ وہ سب کے استاد تھے لہذا وہ پسند یدہ بھی تھے اور وہاں کتاب  رسائل تا بحث انسداد جامعة المنتظر میں پڑھ کر آیا تھا ۔ اور کفایہ نو اہی کی بحث تک تمام علوم حتی کہ فلسفہ میں منظومہ بھی میں نے آدھے سے زیادہ ان سے پڑھا تھا ۔

سوال : اس مدرسہ کی عمارت کیسی تھی اور اس میں تعلیم، عبادت ، قیام و طعام ، عبادت و طہارت اور دوسری سہولیات کس حد تک تھیں ؟

جواب : مسجد کے دونوں طرف دو کمرے تھے اور ان کے برآمدے بھی بہت بڑے تھے جس میں کم از کم 8 سے 10 طالب علم رہ سکتے تھے  اور برآمدہ کچھ اس طرح کا تھا کہ اگر اس کے سامنے پردہ لگا دیا جاتا تو وہ بھی کمرے کے طور پر قابل استعمال ہوتا ۔ ویسے میرے خیال میں 7 کے قریب اور کمرے تھے۔ ایک بہت بڑی درسگاہ تھی جس میں دروس پڑھائے جاتے ۔ اس عمارت میں بھی باہر سے مکان پکے  اور اندر سے کچے ہوا کرتے تھے  اور طالب علم خود صفائی وغیرہ کرتے تھے ۔ صفائی کا اور کوئی انتظام نہیں تھا ۔ کھانے کا بھی یہی انتظام تھا ۔

سوال : مدرسہ کے ذرائع آمدنی ، مالی منابع کیا تھے ؟

جواب : ذرائع آمدن کچھ بھی نہیں تھے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے میاں سلطان علی کی طرف سے با قاعده گندم ، آٹا وغیرہ اور 40 آدمی کا خرچ دیتے تھے باقی 7,8 طلباء کا کھانا اورضروریات آس پاس کے گھروں سے آجا تا تھاچندہ وغیرہ نہیں لیتے تھے ۔

سوال : اسا تذہ کرام اور طلاب کی مالی کیفیت کیاتھی ؟

جواب : استاد العلماءکی بھی تنخواہ اس زمانے میں 80 روپے تھی ۔ ان کو ماہانه غالبا 4کلو دودھ اور 4 من گندم دی جاتی تھی اور طالب علم بھی عام طور پر ایسے تھے جن کی کوئی آمدن نہیں تھی جیسے کہ میں کہا اکثر لوگوں کا ایک ہی جوڑا ہوتا تھا ۔ جمعرات کے جمعرات وہ نہر پر جاتے اور وہاں جا کر دھوتی باندھ لیتے تھے کہ یہ جوڑادھوسکیں ۔ جب وہ خشک ہو جاتا تھاتو اسی کو پہن لیتے تھے ۔

سوال : طالب علم اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کا مدرسہ کی طرف سے کوئی علاج ہوتا تھا ؟

جواب: طلبا کو مہینہ دو مہینے کے بعد اک کڑوی سی کوئین پلائی جاتی تھی اور اگر کوئی مریض ہوجاتاتو وہاں ایک حکیم تھا اس سے علاج کرایاجاتا ۔  اگر کوئی زیادہ مریض ہوجاتا تو تین میل کے  فاصلہ پر بونگہ جھمٹ میں سید صادق محمد شاہ صاحب رہتے تھے وہ بھی بہترین حکیم تھے ان کے پاس بھیجا جاتا۔

سوال : اس وقت طالب علم مجرد ہوتے تھے یا شادی شدہ لوگ بھی دینی تعلیم کے لئے آتے تھے ؟

جواب : ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک یا دوشادی شدہ آئے ہوں ورنہ ا کثر مجرد ہوتے تھے ۔

سوال : اس زمانے میں پاکستان کے اندر کتنے شیعہ مدارس تھے ؟ کون کون سے اور کہاں کہاں تھے اور سربراہ کون تھے ؟

جواب : پاکستان تو ماشاء اللہ 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا ۔ خداوند عالم اس کو تا قیامت قائم و ودائم رکھے ۔ جلال پور مدرسہ 1939 ء میں بنا تھا ۔ اس سے پہلے ایک مدرسہ باب العلوم ملتان جو 33-1932ء میں بنا ہے ۔ اس مدرسہ کی پہلے حالت بہت اچھی تھی لیکن بعد میں اس کا علمی ماحول خاطر خواہ نہیں تھا ۔ بہر حال جس مدرسے نے کام کیا ہے اور جس سے بہت بڑے بڑے علماء نکلے ہیں وہ یہی دارالعلوم محمدیہ جلال پور ہے۔ حضرت شیخ الجامعۃ ،علامہ حسین بخش صاحب، مولانا صفدر حسین صاحب، مولانا غلام حسین صاحب، مولانامحمدحسین مدنی صاحب یہ جتنے بزرگ ہیں وہاں سے نکلے ہیں ۔ پھر انہوں نے مدرسے بنائے ہیں ۔ 1947 ء میں سیت پور میں استاد العلماء نے مدرسہ بنایا ۔

سوال : باب العلوم ملتان کے سر براہ یا مد رسین میں سے کسی کا نام بتائیں ؟

جواب : باب العلوم کے پہلے سربراہ مولانا زین العابدین صاحب تھے  بعد میں مولانا محمد یار صاحب تھے لکھنو کے پڑھے ہوئے بہت قابل آدمی تھے ۔ ان کی ایک کتاب بھی ہم نے دیکھی ہے ۔ بڑی علمی کتاب تھی آج کل تو نہیں مل رہی ۔۔۔۔۔۔ تو وہ وہاں پڑھاتے رہے ۔ حتی کہ مولانا محمد یارشاه صاحب باب العلوم کے پہلے پہلے طالب علم بنے تھے اور جب نجف اشرف سے آئے تو اس وقت ان کو پرنسپل بنایا گیا ۔ زیادہ تر وہاں یہ دونوں رہے ہیں ۔ حالانکہ کافی بعد میں مولانا امداد حسین شیرازی صاحب آئے اور کافی عرصہ گزارا پھران کے بعد دیگر لوگ آتے رہے ۔

سوال : پاکستان میں آپ کی تعلیم کی تکمیل کہاں ہوئی اور کس سطح تک ہوئی ؟

جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ رسائل بحث انسداد تک تقریبا ایک تہائی بن جاتی ہے وہ جلال پور میں پڑھی ۔ کفایہ نواہی تک تقریبا نصف بن جاتا ہے یا نصف سے کچھ کم ہے ۔ کچھ اور کتابیں بھی پڑھا ہوا تھا ۔ البتہ جب شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس صاحب قبلہ ایک ہفتہ وہاں رہے تو ان کی میزبانی میں کیا کرتا تھا ۔ چونکہ مولوی صاحب کے اپنے بچے چھوٹے تھے ۔ مولا نا صفدرحسین صاحب تشریف لاۓ 1956 ء میں تو اس وقت ذہن میں آیا کہ کیوں نہ شہر چلے جائیں چونکہ شہر کا ماحول اچھا ہوتا ہے آدی دوسرے کام بھی کرسکتا ہے اور علمی سطح میں بھی بہتری ہوتی ہے ۔ توستمبر 1957 ء میں میں نے وہ مدرسہ چھوڑ دیا تھا ۔ اور 7 اکتوبر 1957 کوجامعة المنتظر لاہور آیا ۔ یہاں میں نے رسائل مکاسب کی تکمیل بھی کی اور ان کا امتحان بھی دیا ۔ 90 فیصد نمبران تینوں کتابوں سے لیے ۔7 اکتوبر 1957 کو آیاتھا جنوری 1958 میں جب موچی دروازہ چھوڑ کر یہ مدرسہ کرایہ کے مکان میں گیا اس زمانے میں کہتے تھے موڑ شاد باغ یه مکان بالکل علیحدہ چار چار پانچ فرلانگ ہر طرف سے کوئی آبادی نہ تھی اور جب ہم نے دو سال بعد چھوڑا تو وہاں پولیس چوکی قائم ہوئی۔ آج کل یہ علاقہ تاج پورہ کہلاتا ہے ۔ وسن پورہ اور شاد باغ  کے ساتھ ہی یہ ملحق ہے ۔ تو وہاں جس وقت ہم گئے تو ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مولانا صفدر حسین قبلہ پہلے مجھےفرمایا کرتے کہ آپ درس پڑھائیں لیکن بچپنا تھا اس وقت 15یا  16 سال کی میری عمر تھی  تو میں نےدیکھا کہ وہ سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے پوچھنے پر کہا کہ میں نے کئی بار کہا آپ درس پڑھاو میں تھک جاتا ہوں ۔ سارے دروس مجھے پڑھانے پڑتے ہیں ۔ پھر میں نے یہاں درس پڑھانے  شروع کیے 1958 ء سے اور 1963 تک جب تک میں یہاں رہاہوں پوری تو صرف معانی بیان منطق ، فلسفہ کی سب کتابیں اور منطق میں نے پڑھائی ہے جس میں آخری کتاب سلم کے بعد ملامحسن اور قاضی حمداللہ تھے ۔ پورا فلسفہ میں نے پڑھایا ہے ۔ مختصر معانی،  مطول یہ سب کتابیں پڑھا کے تو پھر میں نے امتحان بھی دیا تھا 90 فیصد نمبر لیے تھے اس کے بعد میں نجف اشرف درس خارج کے لیے گیا ہوں ۔

سوال : نجف اشرف آپ کب تشریف لے گئے اور وہاں کے معروف اساتذہ یا مدرسہ  جہاں آپ نے تعلیم حاصل کی ؟

جواب:  نجف اشرف 1963 ء میں گیا ۔ اس زمانے میں زیادہ تر تاریخوں کا کوئی علم نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن بہرحال جب میں نے آیت الله ابوالقاسم خوئی کے درس میں شرکت شروع کی تو اس وقت رجب المرجب تھا ۔ پھر ماه رمضان میں چھٹیاں ہو جاتی ہیں اور پھر شوال سے باقاعدہ میں نے یہ درس لکھنا بھی شروع کیا ۔ اصل ہمارے استاد آیت الله ابوالقاسم خوئی تھے ۔ ویسے مرزا باقر زنجانی بھی تھے جن کے مولانا سید محمد یار شاہ صاحب کفایہ میں شاگرد تھے ۔ ان کے درس میں بھی شرکت کی ہے ۔ آقای سید عبدالله شیرازی کے درس میں گئے ۔ اسی طرح آقای شهرودی کے درس میں بھی گئے ہیں۔ آقای محسن حکیم جب درس پڑھاتے اور موسم ٹھیک ہوتا تو وہاں بھی شرکت کرتے اور تقریبا ڈھائی سال جب آیت اللہ خمینی صاحب نجف تشریف لے آئے تو انہوں نے درس خارج شروع کیاتھا اور خارج میں تو ان کے درس میں بھی جاتا رہا ہوں لیکن اصل ہمارے استاد جن پر پورے حوزہ کا دارو مدار تھا اور میں نے ان کا درس لکھا ہے اور تقریبا 51 سال پہلے کا، وہی درس عربی میں چھپا بھی ہے اگرچہ کافی لیٹ چھپا ہے۔

اگر وہ چھٹی کرتے تو پورے حوزہ میں چھٹی اگر وہ پڑھاتے تو پورے حوزہ میں پڑھائی۔ دوسرے استاد آیت اللہ مرزا جواد تبریزی تھے۔ اگرچہ رسائل مکاسب کفایہ ہم پڑھ کر آئے تھے مگر پھر بھی اول سے آخر تک ہم نے ا سے پڑھی۔ فلسفہ میں فتح اللہ اصفہانی ہمارے استاد ہوتے تھے ان سے ہم نے اسفار پڑھی ہے۔ افغانستان کے سید علی سے بھی شرح منظومہ کے کچھ درس پڑھے۔ آیت اللہ سید محمد تقی جو آغا حسن مشہد مقدس میں تھے ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ منظومہ اپنے گھر کے سرداب میں پڑھایا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا تو میں بھی وہاں درس میں چلاگیا۔ 10،12 آدمی ان سے پڑھتے تھے۔ تو جب میں نے شرکت کی تو انہوں نے درس پڑھانے کے بعد کہا کہ آپ اگر برانہ مانیں تو مجھے ایک دفعہ سنادیں کہ میں کیا درس دیا ہے۔ تو میں نے سنادیا اس وقت چونکہ مجھے زیادہ ٹائم نہیں ہوا تھا تو کچھ عربی کچھ فارسی میں سنادیا تو بڑے خوش ہوئے کہنے لگے کہ جی ایک شرط تو پوری ہوگئی کہ اآپ واقعا محصل طالب علم ہے۔ آپ میرے درس میں آسکتے ہو۔ لیکن دوسری شرط میری یہی ہے کہ جب تک میں نجف میں ہوں یا آپ نجف میں ہیں کسی کو بتانا نہیں کہ میں منظومہ پڑھارہا ہوں کیونکہ اس زمانے میں لوگ فلسفہ پڑھانے سے گھبراتے تھے کوئی منع کرتارہتا کوئی کچھ کہتا تھا۔ تو یہی میرے استاد تھے جن سے نجف اشرف میں پڑھتا رہا ہوں۔

سوال: نجف اشرف کی زندگی کا معمول کیسا تھا؟

جواب: معمولات یہ تھے کہ صبح کے وقت فجر کی نماز حرم جاکر پڑھتا تھا اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ میں نماز پڑھ کر واپس آرہا ہوتا تو آقای عبداللہ شیرازی سے ملاقات ہوتی تھی جو بہت بڑی شخصیت تھے۔ کبھی یہ داخل ہو رہے ہوتے اور کبھی وہ باہر جارہے ہوتے تو ملاقات ہوجاتی اور سلام دعا ہوجاتی اس کے بعد ہمارا پہلا پہلا درس رسائل کا ہوتا تھا۔ آقا جواد تبریزی صاحب کے پاس مدرسہ قوام ہے جو شیخ طوسی کی مسجد کے پیچھے ہے۔مدرسہ قوام اور مدرسہ شیخ مہدی ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ قوام کے ہال کمرہ میں وہ درس دیا کرتے تھے اور اسی درس میں تھےجب ہمیں اطلاع ملی کہ انڈیا نے حملہ کردیا ہے۔یہ 1965 ء کی بات ہے جب کسی نے جاکر خبردی تو ایرانی آئے ، آقا، “لاہور را گرفتند” ان کا کہنا تھا کہ درس بالکل ختم ہوگیا خاموشی ہوگئی حتی کہ پھر ہم باہر نکلے کافی پریشان ہوئے کہ لاہور پر ان کا قبضہ ہوگیاہے۔ کسی کے پاس اس زمانے میں ریڈیو نہیں ہوتا تھا۔ نہ ٹیپ ریکارڈ تھے۔ ہمارے ایک پاکستانی مولانا اکبر عباس نجفی کے مالک مکان کے پاس ریڈیو تھا وہ لایا گیا اس میں سیل ڈالے گئے اور 9 بجے صبح کی خبر سنی گئی تو مولانا صادق علی شاہ صاحب اور دوسرے لوگ بھی تھے تو اس وقت پتا چلا کہ نہیں کوئی قبضہ وغیرہ نہیں ہوا تو بڑی خوشی ہوئی۔ گویا پہلے پہلے وہ درس پڑھتے اور پھر جاکر گھر چلے جاتے پیدل ہی جانا ہوتا تھا۔ کوئی زیادہ دور نہیں تھا وہاں جاکر ناشتہ کرتے اور واپس آکر دوسرا درس پڑھتے۔

دوسرے درس کے بعد پھر ان درسوں کو دہراتے اتنے تک تقریبا ٹائم ہوجاتا تیسرے درس کا اور وہ پڑھ کر ظہر کی نماز میں اکثر حرم میں پڑھا کر تا تھا اس کے بعد کھانا وغیرہ اور کچھ آرام کرنے کے بعد، خدا رحمت کرے مولانا عباس علی نجفی صاحب پر انہوں نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ آپ ماشاء اللہ کافی پڑھے لکھے ہیں یہ سات آٹھ طلباء مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سے شرائع الاسلام پڑھ کر گئے تھے تو ابھی یہ وہاں جاکر وہی پڑھتے تھے اور پاکستانی طلباء جو فارسی نہیں جانتے تھے تو ہمیں ان کو درس پڑھانے کا کہاگیا۔شیخ مرتضیٰ انصاری کی مسجد کے عقب میں ہی کھلی جگہ تھی جس کے ایک طرف دکان تھی درمیان میں چھوٹی سی مسجد تھی مسجد الحویش اس میں ہم نے درس پڑھانا شروع کئے تو پچھلے وقت مولانا غلام حسین صاحب بھی درس پڑھاتے تھے۔

میں بھی درس پڑھاتا تھا۔اس کے بعد پھر شام ہوجاتی شام کی نماز کبھی کسی مسجد میں پڑھ لیتے، مسجد ہندی میں یاکبھی کسی جگہ۔ اس کے بعد کھانا وغیرہ ہوتا ۔ رمضان المبارک میں البتہ ساری رات ہم مولانا شیخ صاحب کے مدرسہ میں بیدار رہتے تھے علمی بحث بھی ہوتی تھی چھوٹی سی مجلس ہوجاتی تھی۔ گپ شپ بھی ہوتی تھی، چائے کا دور چلتا تھا سحری کے وقت پھر اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے وگرنہ عام طور ر ایسا تھا کہ مغرب کے بعد گھروں کو چلے جاتے وہیں رہتے مطالعہ کرتے اور تقریبا 10 بجے کے لگ بھگ سوجاتے تھے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=21027