14

شوق ِ تعلّم سے عالم پروری تک کا سفر-حجۃ الاسلام شیخ محمد علی صابری کی سرگذشت

  • News cod : 26325
  • 12 دسامبر 2021 - 17:38
شوق ِ تعلّم سے عالم پروری تک کا سفر-حجۃ الاسلام شیخ محمد علی صابری کی سرگذشت
کراچی میں تین سال کی دن رات محنت و مزدوری کی تھکاوٹ اور خستگی تو نجف کے گنبدِ طلائی پر پہلی نگاہ میں ہی اتر گئی۔ لیکن علوم ِ دینی کی پیاس نے ابھی تک ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا۔ لہذا باقاعدہ طور پر نجف کے علمی سمندر کی گہرائی میں غوطہ زن ماہرین کے محضر میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علوم دینی کا باقاعدہ حصول شروع ہوگیا۔ باب العلم کی بارگاہ میں دس سال کی حاضری میں سب سے زیادہ جن شخصیات نے آپ کو متاثر کیا وہ فیلسوف کبیر آیت اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ اور بت شکن زمان رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ تھے۔

(حجۃ الاسلام شیخ محمد علی صابری کی سرگذشت)
تحریر:شیخ احمد علی صابری۔نجف اشرف
محرومیت کے ایام
حجۃ الاسلام شیخ محمد علی صابری ؒ 1948ء کو ضلع شگر بلتستان کے موضع تسر تھماچو کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چھ ماہ کی عمر میں آپ اپنے والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے، اور جب دو سال کے ہوئے تو ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، گویا بچپن سے ہی مشکلات اور سختیوں نے آپ کی آنگن کا راستہ پالیا تھا۔بلوغت کی عمر تک آپ کی ذمہ داری بڑے بھائی کے کاندھے پر تھی پھر دینی علوم کے شوق نے آپ کو علاقائی اہل علم کے دہلیز پر پہنچا دیا لہذا قریبی علمی مرکز ’’چھوترون‘‘ میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ کچھ برس وہاں مشغول رہنے کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لئے باب العلم ؑ کے در پر جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس راہ میں سب سےبڑی رکاوٹ یتیمی اور تنگدستی کی وجہ سے سفر کے اخراجات کا آمادہ نہ ہونا تھی۔
فقر اور ارادے میں نبرد کے ایام
بہر حال آپ کے بڑے بھائی نے جہاں بچپن میں ماں باپ کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیا ، وہاں اپنے توان کے مطابق سفر کے اخراجات کا بندوبست کر کے آپ کو مایوس ہونے نہ دیا۔ آپ سفر پر روانہ ہوگئے تو بھائی کی فراہم کردہ رقم کراچی پہنچنے پر ختم ہوگئی، کراچی سے نجف تک کی طویل مسافت مزید بڑی رقم کے طلبگار تھی۔ کراچی جیسے اجنبی شہر میں رقم کا ختم ہونا ایک طرف اور درِ نجف سے علومِ دینی کے گوہر چننے کا شوق دوسری طرف؛ بلآخر فقر و تنگدستی پر شوق و ارادے کی پختگی نے غلبہ کیا اور تین سال کا عرصہ کراچی میں مزدوری کرنے کے بعد ، اپنے ہی زورِ بازو سے نجف تک کے سفری اخراجات کا بندوبست کیا۔
خمینی ؒمیں محو ہونے کے ایام
کراچی میں تین سال کی دن رات محنت و مزدوری کی تھکاوٹ اور خستگی تو نجف کے گنبدِ طلائی پر پہلی نگاہ میں ہی اتر گئی۔ لیکن علوم ِ دینی کی پیاس نے ابھی تک ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا۔ لہذا باقاعدہ طور پر نجف کے علمی سمندر کی گہرائی میں غوطہ زن ماہرین کے محضر میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علوم دینی کا باقاعدہ حصول شروع ہوگیا۔ باب العلم کی بارگاہ میں دس سال کی حاضری میں سب سے زیادہ جن شخصیات نے آپ کو متاثر کیا وہ فیلسوف کبیر آیت اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ اور بت شکن زمان رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ تھے۔ آپ نے جہاں شہید باقر الصدرؒ بہت ساری فکر انگیز تعلیمات سے استفادہ کیا وہاں شہید اس جملے پر بہت باریک بینی سے عمل کیا: ’’خمینی میں ایسے محو ہو جاؤ جیسے وہ اسلام میں محو ہوگئے ہیں‘‘
لہذا زندگی بھر مکتب ِامام خمینیؒ کی تبلیغ و ترویج کو اپنا شیوہ بنائے رکھا اور ہمیشہ اپنے شاگردوں کو امام خمینیؒ، شہید صدرؒ، شہید مطہریؒ اور رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای جیسی شخصیات کے افکار کا غور سے مطالعہ کرنے اور ان شخصیات کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانے کی تاکید کرتے رہتے تھے۔
مہدِ انقلاب میں تحصیل کے ایام
عراق کی سرزمین پر جب صدام کی آمریت کے بادل چھا گئے ، اور طلابِ علومِ دینی کو زبردستی بارگاہ امیر المومنینؑ سے در بدر کیا گیا تو باقی تشنگانِ علم کی طرح جناب شیخ صابری مرحوم نے بھی مہدِ انقلاب بارگاہِ حضرت معصومہ شہر مقدس قم کا رخ کیا۔ کچھ عرصہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کی پیدائش کے ابتدائی ایام میں پاکستان میں بھی مکتب خمینیؒ کی مسحور کن خوشبو پھیلانے کی غرض سے وطن واپسی کا ارادہ کیا۔ کچھ احباب کی طرف سے قم کی نسبتاً آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر جانے سے منع کیا تو ان کے جواب میں فرمایا: میں یہاں آرامدہ زندگی گزارنے نہیں آیا، بلکہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے آیا تھا ، اب تبلیغ کے ذریعے ذمہ داریوں کی ادائیگی کا وقت ہے۔
خدمت کے ایام
پاکستان واپسی کے بعد آپ نے کراچی ایک مختصر مدت تک لیاقت آباد میں ایک مسجد کی امامت کے فرائض سنبھالنے کے ساتھ ساتھ جامعۃ النجف کراچی میں بھی تدریس کی ذمہ داری سنبھالی۔لیکن کچھ عرصے بعد بعض مؤمنین کی خواہش پر آپ محمدی ڈیرہ ملیر میں منتقل ہوگئے اور 1986ء سے اپنی عمر کے آخری ایام تک مسجد محمدی ، محمدی ڈیرہ ملیر میں امامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ائمہ اطہارؑ کی ماثور دعاؤں کا رواج ، درس اخلاق کا انتظام، نماز جماعت میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانا جیسے سنگین امور بھی انجام دئے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے ”شہید باقر الصدرؒ لائبریری“ کا قیام عمل میں لایا اور ”دانشگاہ علوم اسلامی“ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی ،جس میں محلے کے جوانوں خاص کر خواتین کے لئے قرآن ، حدیث، سیرت ، احکام اور عقائد کی تعلیم کا بندوبست کیا۔ آپ کی تبلیغی مجاہدتوںکی بدولت محمدی ڈیرہ میں دینی تعلیمات سے آشنا اور متدین جوانوں اور مؤمنین کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوا۔ ان تمام خدمات کے علاوہ ملیر جعفر طیار میں قائم دینی درسگاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی تاسیس سے ہی طلاب علوم دینی کی علمی اور فکری تربیت کی ذمہ داری بھی آپ اپنی زندگی کے آخری دن تک ادا کرتے رہے۔ تقریباً تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ خود کو راہ خدا میں وقف کرنے کے بعد ۱۲ دسمبر ۲۰۱۹ ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
سلام ہو ، دین خدا کے مبلغ اور شاگردان مکتب اہل بیت ؑ کے معلم ومربی پر!

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26325