6

مفادات کی جنگ اور دینی مدارس کی ذمہ داری

  • News cod : 2666
  • 14 اکتبر 2020 - 10:57
مفادات کی جنگ اور دینی مدارس کی ذمہ داری
حوزه ٹائمز | دینی مدارس اپنے اعلیٰ و پاکیزہ اہداف و مقاصد کی تکمیل میں کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ دینی مراکز اسلام کے قلعے ہیں، انسانیت سازی اور خود سازی کی فیکٹری ہیں۔ دینی مدارس کے اہداف بہت بلند ہیں من جملہ اسلام کا تحفظ، اسلامی اقدار کی صیانت اور شرعی و ملی مسائل کو حل کرنا ہے۔

پاکستان کی موجودہ گھمبیر حالات کا اگر دقت سے مطالعہ کیا جائے تو ہر انصاف پسند انسان کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ پاکستان میں مفادات کی جنگ عروج پر ہے, سیاسی، مذہبی بڑے حلقوں سے لیکر معاشرے کے چھوٹے چهوٹے گروہوں تک میں مفاد پرست افراد کی کوئی کمی نہیں۔ البتہ سیاسی میدان میں اس کا رنگ گہرا دکھائی دیتا ہے بلکہ پاکستان میں لوگ سیاست سے مراد ہی مفادات لیتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص کسی سیاسی عہدے پر قدم رکھ لیتا ہے، امیری اس کا مقدر بنتی ہے۔ اس کی ترقی اور کامیابی قطعی ہے۔ درحالیکہ حقیقت میں ایسا نہیں، یہ جہل مرکب کے سوا کچھ نہیں۔ جہل کی اقسام میں سے ایک جہل مرکب ہے، جو بہت خطرناک ہے۔ جہل مرکب جہل بسیط کے مقابلے میں ہے۔ جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے جاہل ہوتا ہے اور اسے اپنی جہالت کا بهی علم نہیں ہوتا، جہل مرکب کا شکار افراد درحقیقت دو امور میں جاہل ہیں، ایک تو وہ جانتے نہیں دوسرا وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ جاہل ہیں۔ اس طرح کی جہالت کو بہت بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک بڑی بیماری ہے اور اس بیماری میں مبتلا افراد اپنے کو بیمار تصور ہی نہیں کرتے، بلکہ خیال کرتے ہیں کہ وہ سالم وتندرست ہیں۔ یہ حماقت کی انتہا ہے اور حماقت لاعلاج مرض ہے۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ہے میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کے علاج سے عاجز نہیں ہوں، لیکن احمق انسان کے علاج سے عاجز ہوں۔ سیاسی اقتدار کے حصول کو امیری تصور کرنا جہل مرکب کا بہترین مصداق ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت جہل مرکب کا شکار ہے۔ کچھ محدود افراد کے علاوہ سب کے اذہان میں یہ تصور مضبوط ہوکر تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ سیاسی کرسی سنبھالنا مترادف ہے، دولت مند ہونے سے۔ جبکہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اقتدار اور سیاسی کرسیوں پر براجمان افراد اگر راتوں رات ثروتمند اور دولت مند ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ کرپشن، عوامی حقوق پر ڈاکہ زنی اور رشوت وغیرہ ہیں۔ اقتدار کی طاقت سے وہ ناجائز استفادہ کرتے ہیں۔ اپنے مفادات کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی لوگ اپنی قدرت کے دائرے میں اپنے ذاتی مفادات سے ٹکراؤ کام انجام دینے کی اجازت نہیں دیے۔ عوامی خوشحالی کے بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں کو صرف اپنے ذاتی مفادات کم نظر آنے کی وجہ سے وہ منسوخ کراتے ہیں۔ اہل اقتدار کا سارا مقصد اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہ ایسے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں جو ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
بالخصوص حکمران ملکی اداروں میں ایسے افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کے مفادات سے لاتعلق رہتے ہیں۔ لائق، تربیت یافتہ قابل افراد کو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے، انہیں نہ کسی تعلیمی ادارے میں دیکھنا گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی حکومت کے پالیسی ساز اداروں میں جگہ دینے پر راضی ہوتے ہیں۔ کینوکہ اگر وہ قابل افراد کو جگہ دیں گے تو ان کی اولین ترجیح معاشرے میں تربیت وتعلیم کا فروغ ہوگا، وہ سکول، مدرسے، کالجز اور یونیورسٹیاں بنوائیں گے، جہالت کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے، انصاف اور مساوات کی باتیں کریں گے، جائز و ناجائز کا تصور عام کریں گے، عوام میں نفع ونقصان کا شعور اجاگر کریں گے۔ یہ سیاسی طبقوں کے مفاد میں نہیں ہوتا، کیونکہ علم و شعورسے عوام کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی بھی ہوسکتی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بھی بلند کرسکتے اور احتجاج کو تحریک بنانے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں۔ جب عوام باشعور ہوں گے، اپنے نفع نقصان کو سمجھیں گے، دوست ودشمن کی پہچان کر پائیں گے اور قوم میں تدبروتعقل سے امور زندگی اور درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی تو سیاسی چاپلوس افراد کے چہروں پر پڑے ہوئے کرپشن اور رشوت کے نقاب اتر جائیں گے۔ یوں انہیں بھی عام آدمی کی طرح زندگی گذارنا پڑے گی۔
اسی طرح وہ اپنے قول وفعل میں تضاد پیدا کرنے کی جرات نہیں کرسکیں گے، اپنی کارکردگی کو عوام کے مفاد کے تابع کرنا پڑے گا۔ قومی خزانے لٹا کر بیرون ملک کاروبار اور بینک بیلنس بنانے کی ہمت نہیں کر پائیں گے۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے زرمبادلہ دیار غیر میں منتقل کر کے بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کی قدرت کا مظاہرہ نہیں کرسکیں گے۔ مفادات کی جنگ سیاسی میدان کے ساتھ مختص نہیں بلکہ قومی ضرورتوں اور ملی تقاضوں کی بنیاد پر جو تنظیمیں، نظریاتی ادارے معرض وجود میں آئے ہیں ان میں بھی مفادات کا عنصر غالب نظرآتا ہے۔ ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر ایک ہی مذہب و مکتب سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں کے اہداف و مقاصد ایک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف زبانی و عملی پروپیگنڈہ کا مظاہرہ کرنے میں کوشاں ہیں۔ ہر کوئی بغیر کسی معیار و ملاک کے خود کو مجسم حق اور دوسرے کو مجسم باطل قرار دینے میں دن رات سعی لا حاصل کر رہا ہے۔ جب کہ دین مقدس اسلام نے حق اور باطل کا میزان و معیار واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم دینی معیار کے مطابق افراد اور تنظیموں کو تول کر ان کے اہل حق یا باطل ہونے کو پہچان لیں۔ چونکہ اہل حق اور اہل باطل کی شناخت افراد اور شخصیات سے ہرگز نہیں ہوتی ہے بلکہ دینی تعلیمات کی روشنی میں ضروری ہے کہ ہم حق اور باطل کی حقیقت، مفہوم ومعنى کو درک کریں، سمجھیں اور اس کے بعد افراد کو ان معیارات پر اتار کر دیکھیں۔ تب جا کر اہل حق واہل باطل کی شناخت ہوگی۔
متاسفانہ، مفادات کی جنگ، لوگوں کی علمی اور فکری تربیت کر کے قوموں کو راہ سعادت پر گامزن کرنے والے دینی مدارس، جامعات اور حوزه ھائے علمیہ میں بھی کم و پیش دکھائی دیتی ہے۔ اسی وجہ سے دینی مدارس اپنے اعلیٰ و پاکیزہ اہداف و مقاصد کی تکمیل میں کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ دینی مراکز اسلام کے قلعے ہیں، انسانیت سازی اور خود سازی کی فیکٹری ہیں۔ دینی مدارس کے اہداف بہت بلند ہیں من جملہ اسلام کا تحفظ، اسلامی اقدار کی صیانت اور شرعی و ملی مسائل کو حل کرنا ہے۔ ان اداروں کا نمایاں ہدف ایسے افراد کی تربیت کرنا ہے، جو تخریبی و طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لئے مستعد اور ہر نوعیت کی علمی، عملی، شعوری اور حربی سرگرمیوں کو انجام دینے کی طاقت رکھتے ہوں، جو ملت اسلامیہ پر منڈلانے والے داخلی و خارجی خطرات کا دفاع کر سکتے ہوں، اسلامی اور قرآنی علوم کی اشاعت اور دینی امور کی تبلیغ کا مخلصانہ جذبہ رکھتے ہوں، امت میں بیداری، جذبہٴ حریت اور اسلامی ذہنیت کو وسعت کے ساتھ پھیلانے کی قوت رکھتے ہوں، اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ خدمات انجام دینے کی سکت رکھتے ہوں۔ لیکن دینی مراکز میں ذاتی مفادات غالب آنے کی وجہ سے وہ اپنے اصلی اہداف پورے نہیں کر پا رہے۔ مفادات کی جنگ جہل مرکب کا نتیجہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سے زیادہ اپنے آپ کو جہل مرکب کے تاریک زندان سے آزاد کرانے کی کوشش کریں، تاکہ ذاتی مفادات کا سدباب ہو، در نتیجہ سعادت کی راہ پالینے میں ہمیں کامیابی نصیب ہو۔

تحریر: محمد حسن جمالی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=2666