6

تشیع کا سیاسی نظریہ (1)

  • News cod : 2855
  • 22 اکتبر 2020 - 12:47
تشیع کا سیاسی نظریہ (1)
حوزه ٹائمز | اسلامی دنیا کے روشن فکر طبقہ جو غرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں نے اس انحرافی فکر کو قبول کر کے سیاست مداری کی کوششیں شروع کر دیں اور سیاست کو صرف مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔

مکتب اسلام معتقد ہے کہ دین حقیقی اور سیاست کا آپس میں نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔
سیاست دین کا حصہ ہے اور سیاست دین کے تناظر میں معاشرے کی ضرورت بنتی ہے اور اس کی مشکلات کو حل کرتی ہے۔
اگر دین کو سیاست سے جدا کر دیا جائے تو اس کی مثال ایسے درخت کی سی ہے جو سوکھ کر اپنی رونق و تازگی کھو چکا ہو۔
سیاست روح اسلام ھے سیاست کو دین سے نکالا جاے تو صرف اسلام بی روح جسم کی طرح ھے۔
سیاست کا دین کے بغیر تصور اور دین و سیاست کی جداٸی
استعمادی سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔
استعمار کئی سالوں کے تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے مفادات کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ الہی آئین اور اس کے اجتماعی قوانین ہیں۔
لہذا استعمار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ سیاست کو دین سے جدا رکھے تاکہ اپنے مقاصد و عزائم حاصل کر سکے۔
دین مسیحیت کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی کیا اور عیسائیت میں موجود الہی آئین کو ایک گوشے میں قید کر دیا۔
اہل کلیسا اور مذہب عیسائیت میں دین دار طبقہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے کٹ کر گوشہ نشین ہو کر زندگی بسر کرتے جس کی وجہ سے معاشرہ رہبانیت کے مرض سے دوچار ہو گیا۔
استعمار کا عیسائیت پر کامیاب تجربہ باعث بنا کہ اس نے دین اور سیاست میں جدائی کا طریقہ کار دیگر مذاہب اور مکاتب فکر میں بھی رائج کرنا شروع کر دیا۔
استعمار نے ان دونوں میں جدائی کا اس قدر پرچار کیا کہ اس کو قانون بنا دیا تاکہ معاشرے اس قانون کی زد میں آکر اس تفکر کے حامل بن جائین۔
اس وقت غربی معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ اس بات پر کامل ایمان لا چکے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلامی دنیا کے روشن فکر طبقہ جو غرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں نے اس انحرافی فکر کو قبول کر کے سیاست مداری کی کوششیں شروع کر دیں اور سیاست کو صرف مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جبکہ دین کو ہر انسان کا ذاتی انفرادی عمل قرار دے دیا گیا۔

تحریر: اکبر حسین فیاضی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=2855