5

غیبت امام مہدی ع قسط (47)

  • News cod : 33780
  • 07 می 2022 - 12:54
غیبت امام مہدی ع قسط (47)
علامات کي تطبيق: علامات ظہور کے باب ميں اہم ترين مسئلہ کہ جس کي طرف مخصوص توجہ ديني چاہئے، کائنات ميں رونما ہونے والے واقعات کي روايات ميں ذکر کي گئي علامات کے ساتھ تطبيق کا مسئلہ ہے. کيونکہ کچھ افراد کوشاں ہيں کہ ان واقعات کو روايات ميں ذکر کي گئي علامات کے ساتھ تطبيق دے کر يہ ظاہر کريں فلاں واقعہ اپني علامات ميں سے ايک علامت ہے جس کي امام عليہ السلام نے خبر دي ہے لہذا ظہور نزديک ہے۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

علامات کي تطبيق:
علامات ظہور کے باب ميں اہم ترين مسئلہ کہ جس کي طرف مخصوص توجہ ديني چاہئے، کائنات ميں رونما ہونے والے واقعات کي روايات ميں ذکر کي گئي علامات کے ساتھ تطبيق کا مسئلہ ہے.
کيونکہ کچھ افراد کوشاں ہيں کہ ان واقعات کو روايات ميں ذکر کي گئي علامات کے ساتھ تطبيق دے کر يہ ظاہر کريں فلاں واقعہ اپني علامات ميں سے ايک علامت ہے جس کي امام عليہ السلام نے خبر دي ہے لہذا ظہور نزديک ہے۔
اور يہ بات واضح ہے کہ لوگ امام زمانہ عليہ السلام اور ا نکے ظہورکي طرف خصوصي توجہ رکھتے ہيں اور شدت سے آنحضرت کے ظہور کا انتظار کررہے ہيں۔ اس صورت ميں اگر اعلان ہوجائے کہ فلاں امر مذکور علامات ظہور ميں سے ايک علامت ہے تو خود بخود معاشرے ميں جوش و خروش پيدا ہوجائے گا اور لوگ شب وروز سوچ و بچار ميں مبتلا ہوجائيں گے۔
بنابراين٬ يقيني شواہد کے بغير علامات کي دنياکے واقعات کے ساتھ تطبيق٬ اچھا اقدام نہيں ہے۔
لہذا آنحضرت (عج)کے منتظرين کو اس بات کي طرف خصوصي توجہ ديني چاہئے کہ اس سلسلے ميں بيان کي گئي بعض روايات ضعيف الاسناد اوراحتمال جعل و تحريف کي بناپر قابل توجہ نہيں ہيں۔اوراگر کسي روايت ميں پيشين گوئي (ائمہ عليھم السلام کي طرف سے) نہ ہو تو اس کي طرف بالکل توجہ نہيں ديني چاہئے کہاں يہ کہ کوئي شخص اس روايت کو دنيا ميں رونما ہونے والے واقعہ کے ساتھ تطبيق کرے۔
اس کے علاوہ يہ بھي معلوم نہيں ہے امام عليہ السلام کي پيشن گوئي , يہي واقعہ ہو اور ذکر کي گئي علامات ظہور ميں سے ہو, ممکن ہے امام کي مراد کوئي دوسرا واقعہ ہو۔
اس مطلب پر قرآن کا يہ و اقعہ گواہ ہے کہ جب حضرت مريم عليھا السلام شکم مادر ميں تھيں تو اللہ کے نبي کي خبر کے مطابق بيٹا پيدا ہونا چاہئے تھا جو پيغمبر اورقوم کے لئے منجي کي حيثيت رکھتاہو , تمام لوگ اس انتظار ميں تھے کہ يہ مادر بيٹے کو جنم دے گي اور اس خبر کي بناپر ماں نے يہ بھي نذر کر رکھي تھي کہ ميرا بيٹا صر ف خدا کيلئے ہوگا اور ميں اس سے کسي قسم کي بھي خدمت نہيں لوں گي۔
جب ماں نے بچے کو جنم ديا تو وہ بيٹي تھي، لوگ حيران ہوئے اور سوچنے لگے کيا پيغمبر خدا نے بيٹے کي خبر نہيں دي تھي تو پھر يہ بيٹي کيوں ہے ؟
درحالانکہ پيغمبرخدا کي خبر سچي ہے اور وہ بيٹا جس کا خدا نے وعدہ ديا تھا وہ جناب مريم کا بيٹا اور مادر مريم کا نواسہ تھا جو کہ مادر مريم کا بيٹا بھي شمار ہوتا ہے ۔ (سورہ آل عمران آيات ۳۱ و ….)
ممکن ہے اس مقام پر کوئي شخص يہ سوال کرے کہ ايسي صورت ميں علامامت ظہور کے بيان کرنے کا کيا فائدہ ہے ؟جبکہ ہم تشخيص ظہور کے لئے علامات کے محتاج ہيں اور آپ کا کہناہے دنياوي حوادث پر علامات ظہور کے عنوان سے اعتماد نہيں کيا جاسکتا ؟
تو اس سوال کے جواب ميں کہنا چاہيے کہ کسي واقعے کا علامات ظہور کے مشابہ ہونا حد اقل يہ احتمال پيدا کرتاہے کہ شايد يہ و اقعہ وہي علامت ہے جس کي امام عليہ السلام نے خبردي ہے اور وہ اسي وجہ سے ظہور امام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ اور تيار کرتا ہے۔
اوردوسري طرف سے چونکہ يہ صر ف ايک احتمال ہے لہذا انسان پريشان نہيں ہوتا اور حوصلہ ہار کر نہيں بيٹھ جاتا.
بہرحال علامات کي تطبيق ميں جلدي سے کام نہيں لينا چاہئے۔
ظہور کے زمانے کا پوشيد ہ ہونا:
امام زمانہ عليہ السلام کے قيام کے حوالے سے جس بات کو آئمہ معصوم عليھم السلام نے قطعي طور پر بيان فرمايا ہے وہ آنجناب کے ظہور زمانہ کا مخفي ہوناہے۔
بہت ساري روايات ميں يہ جملہ نقل ہوا ہے :(کَذِبَ الوقّا تون) وقت کي تعيين کرنے والے چھوٹے ہيں۔ ( غيبت نعماني ب۱۶ ٬ ج۱۴۶٬ ۱۲٬ ٬ ۱۳.)
يہاں تک کہ شيخ طوسي کي نقل کے مطابق٬ امام جعفر صادق عليہ السلام نے ايک ہي حديث ميں تين مرتبہ اس جملے کو بيان فرماياہے۔ ( غيبت طوسي ٬ ص۴۲۵ ٬ ش ۴۱۱.)
اور خود امام زمانہ (عج)نے بھي اپني آخري توقيع ميں اپنے چوتھے نائب کو واضح طور پر بتايا:
فلا ظھورَ بعد اذن اللہ تعالي ذکرہ (غيبت طوسي ٬ص۳۹۵. ش۳۶۵.)
کہ ظہور کا زمانہ اذن پروردگار پر موقوف ہے اورجب خدا چاہے گا ظہور وقوع پذير ہوگا۔
پس ظہور کا وقت معين کرنے کي کوئي گنجائش نہيں رہ جاتي۔
(جاری ہے…

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=33780